خبر ونطر

پرواز رحمانی

9 نومبر 2019ء کوکیا ہوا
9 نومبر 2019ء کو جب سپریم کورٹ نے بابری مسجد رام جنم بھومی قضیے کا فیصلہ سنایا تو وہ عدلیہ ایک تاریخی فیصلہ تھا اس لحاظ سے کہ عدالت نے قصور واروں کے قصور کی نشاندہی بھی کی تھی اور بالواسطہ تسلیم بھی کیا تھا کہ جائیداد پر حق ملکیت مسلم فریق کا ہی بنتا ہے۔ عدالت نے تشدد اور تخریب کاری کی مذمت بھی کی تھی لیکن اس کے باوجود حتمی فیصلہ قصور واروں کے حق میں سنایا۔ مسلم فریق کو خیر سگالی کے طور پر کہیں دور زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کردیا۔ اس دلچسپ فیصلے کے علاوہ فیصلے کے کچھ اور دلچسپ پہلو بھی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ یکطرفہ کام اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے پوری سرکاری مشنری، پوری سیاست تھی جس نے عدلیہ کو بھی اعتماد میں لے رکھا تھا۔ مقدمہ چیف جسٹس آف انڈیا کی بنچ پر تھا اور چیف جسٹس نے پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ فیصلے سنانے کے فوراً بعد کیا کرنا ہے۔ چنانچہ فیصلہ سنا کر چیف جسٹس رنجن گوگوئی اپنی بنچ کے چاروں ساتھیوں کو ہوٹل تاج مان سنگھ لے گئے جہاں شاندار ڈنر کا مکمل انتظام تھا۔ چیف جسٹس خود بتاتے ہیں کہ ’’ہم لوگوں نے چائنیز کھانوں کا لطف اٹھایا اور ججوں کی پسند کی وہسکی بھی شیئر کی۔‘‘

فیصلے کا اندازہ
ظاہر ہے کہ خصوصی ڈنر اچانک تو تیار نہیں ہوا ہوگا۔ اس کے لیے کئی دن پہلے آرڈر دیا گیا ہوگا اس یقین کے ساتھ کہ عدالت کا فیصلہ وہی ہوگا جو اس ڈنر کو جواز بخشے گا۔ اس سے پہلے ہوا یہ تھا یہ کہ اندرونی سیکیوریٹی کے افسروں نے مجوزہ فیصلے کے سلسلے میں مسلمانوں کو اعتماد میں لینے کی غرض سے سرکردہ مسلم اور ہندو لیڈروں کی میٹنگ بلائی تھی۔ مقصد فیصلے کے بعد قانون اور امن اور انتظام برقرار رکھنا تھا۔ یہ میٹنگ یوں ہی نہیں طلب کی گئی تھی بلکہ افسروں کو معلوم تھا کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے۔ ان سے یہاں صرف یہ کوتاہی ہوئی کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ فیصلہ دس نومبر کی صبح آئے گا لیکن ججوں نے فیصلہ نو نومبر کے اول وقت میں سنا دیا اور سرکاری افسروں نے اپنی میٹنگ بھی نو نومبر کو دن میں رکھی تھی۔ چنانچہ لوگ میٹنگ کے لیے جمع ہوئے تو فیصلہ آچکا تھا۔ لیکن جیسا کہ باخبر حلقے جانتے ہیں اس میٹنگ میں زیادہ تر مدعوئین نے حصہ لیا۔ مسلم رہنماوں نے معقولیت کا ثبوت دیا کچھ ایک نے فیصلہ پر کچھ نکات اٹھائے تھے لیکن ان کی سنی نہیں گئی۔ میٹنگ ’’خوشگوار‘‘ ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔ البتہ بعض مسلم رہنماؤں کا احساس تھا کہ اس میٹنگ میں شرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ جب شرکت کی تھی تو فیصلے پر گفتگو بھی ہوتی۔

تاریخ کو یہ سب یاد رہے گا
رنجن گوگوئی نے نو نومبر کے ڈنر کا ذکر اپنے خود نوشت سوانح ’’جسٹس فار دا جج‘‘ میں کیا ہے۔کتاب میں اور بھی بہت سی باتیں جج کے فیصلوں اور ذاتی واقعات سے متعلق کہی گئی ہیں۔ مثلاً راجیہ سبھا کے ممبر نامزد کیے جانے پر گوگوئی نے لکھا کہ ’’نامزدگی صدر جمہوریہ نے کی تھی اس لیے کسی انکار یا پس وپیش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ گویا سابق چیف جسٹس نہیں جانتے کہ تمام نامزدگیاں وزیر اعظم کے دفتر سے آتی ہیں۔ وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں تک بابری مسجد کے مقدمے کا سوال ہے نو نومبر 2019ء کی میٹنگ میں مسلمان صاف ذہن کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ گرد وپیش کے حالات سے بھی واقف تھے۔ فیصلے کا اندازہ بھی انہیں تھا، لیکن ایسی کوئی بات کرنے کا وہاں موقع نہیں تھا۔ اس لیے وہ خاموشی کے ساتھ واپس آگئے۔ بابری مسجد کے معاملے میں نا انصافی ہوئی ہے۔ اس کا احساس سبھی مسلمانوں کو ہے۔ اس پر جو لوگ خوشیاں منا رہے ہیں وہ غلط ہے۔ رنجن گوگوئی کا ڈنر بھی غلط تھا۔ بابری مسجد کے سلسلے میں جو زیادتی ہوئی ہے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن درست ہو کر رہے گی۔ تاریخ کو یہ سب یاد رہے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 تا 25 دسمبر 2021