حکمراں پارٹی کو بڑی کمپنیوں کے خطیر چندے!
کیا سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیاکوانسانوں پر ویکسین آزمانے کی اجازت کے پیچھے دولت کی برسات کارفرما ہے ؟
افروز عالم ساحل
سیاست اور منی پاور ایک دوسرے کے مترادف بن چکے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سیاسی پارٹیاں خوب چندے بٹورتی ہیں اور پھر انتخابی فوائد حاصل کرنے کے لیے اسے دونوں ہاتھوں سے لٹاتی ہیں۔ سچ تو یہی ہے کہ ہمارے ملک میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں سبھی کو اپنی سیاست کا کاروبار چلانے کےلیے پیسہ چاہیے اور خوب چاہیے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ سیاست کا کاروبار چلانے والی ان جماعتوں کو چندہ دینے والے کون ہیں؟ اور وہ کمپنیاں جو اقتدار میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کو خطیر رقم دیتی ہیں کیا وہ صرف یوں ہی عطیہ دے رہی ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور مقصد یا لالچ کام کر رہا ہے؟ تاہم یہ جاننا مشکل ہے کہ بدلے میں ان سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والی تنظیموں یا کاروباری گروپوں کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ لیکن کم از کم یہ کہانی آپ کو ضرور بتادے گی کہ آخر بڑی کمپنیاں اقتدار میں بیٹھے سیاسی پارٹیوں کو چندہ کیوں دیتی ہیں۔ پیش ہے ہفت روزہ دعوت کی ایک خصوصی رپورٹ۔
آپ سب کو یہ خبر ضرور معلوم ہوگی کہ گزشتہ دنوں ہندوستان کے ڈرگ کنٹرولر جنرل نے ’سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا‘ کو آکسفورڈ یونیورسٹی اور برطانوی سویڈش دوا ساز کمپنی آسٹرا زینیکا کے تیار کردہ کورونا وائرس ویکسین امیدوار کے مرحلہ دو اور تین کے انسانی کلینیکل ٹرائل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اب سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کو انسانی کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں جانے سے قبل سنٹرل ڈرگس اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن کو حفاظتی اعداد و شمار جمع کرنے ہوں گے۔
دراصل سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے آکسفورڈ آسٹرا زینیکا ویکسین کی آزمائش کے لیے ایک نظر ثانی شدہ تجویز پیش کی تھی۔ انسٹیٹیوٹ نے مشورہ دیا تھا کہ دہلی میں آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور چندی گڑھ میں پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سمیت ہندوستان کے 17 مقامات کے کلینیکل ٹرائلز میں 1,600رضاکار حصہ لیں گے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہ پروجیکٹ کامیاب ہونے پر سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا ویکسین کی 100کروڑ خوراکیں تیار کرے گی۔ کہا جارہا ہے کہ ان میں سے 50 فیصد حصہ ہندوستان کےلیے ہوگا اور 50فیصد غریب اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو بھیجا جائے گا۔
سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کی پسندیدہ پارٹی کون؟
سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کی پسندیدہ پارٹی بی جے پی رہی ہے اور یہ کمپنی بی جے پی کو آن ریکارڈ 6.05 کروڑ روپیے چندے میں دے چکی ہے۔
Financial Year | Company Name | Amount | Cheque No. And Bank |
2013-14 | Serum Institute of India Ltd. | 60 Lacs | 196633, Axis Bank, Pune |
2013-14 | Serum Institute of India Ltd. | 55 Lacs | 196635, Axis Bank, Pune |
2013-14 | Serum Institute of India Ltd. | 40 Lacs | 196636, Axis Bank, Pune |
2014-15 | Serum Institute of India Ltd. | 2.5 Crores | 117297, Axis Bank, Pune |
2016-17 | Serum Institute of India Ltd. | 2 Crores | RTGS |
بی جے پی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دیے گئے عطیات کی فہرست کے مطابق 2014 عام انتخابات کے پہلے سال 14-2013 میں سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا لمیٹیڈ نے 1.55کروڑ روپیوں کا چندہ پارٹی فنڈ میں دیا تھا۔ یہ رقم اس کمپنی نے تین چیکوں کے ذریعے دی تھی۔
وہیں بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی اس کمپنی نے پھر سے سال 15-2014 میں 2.5 کروڑ کا چندہ بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیا۔ اس کمپنی کی بی جے پی سے ’محبت‘ اگلے سال بھی بخوبی نظر آتی ہے۔ سال 17-2016 میں سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا لمیٹیڈ نے بی جے پی کو 2 کروڑ کا چندہ دیا۔
سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا لمیٹیڈ کی جو ’محبت‘ آج بی جے پی کے لیے ہے، کیا وہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی ہے؟
اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہفت روزہ دعوت نے دیگر نیشنل پارٹیوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دیے گئے عطیات کی فہرست کی بھی چھان بین کی لیکن اس کمپنی کی ان پارٹیوں کے ساتھ ’محبت‘ دور دور تک نظر نہیں آئی۔
غور طلب امر ہے کہ قانون عوامی نمائندگی (1951) میں سال 2003 میں ایک ترمیم کے تحت یہ قاعدہ بنایا گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو دفعہ 29(سی) کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت فارم 24(اے) کے ذریعے الیکشن کمیشن کو یہ جانکاری دینی ہوگی کہ انہیں ہر مالی سال کے دوران کن کن افراد اور اداروں سے کُل کتنا چندہ ملا۔ سیاسی جماعتوں کو اس اصول کے تحت صرف 20 ہزار سے اوپر کے چندے کے بارے میں معلومات دینی ہوتی ہے۔ یہ تمام معلومات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا، جو عالمی سطح پر تیار اور فروخت کی جانے والی خوراکوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی ویکسین بنانے والی کمپنی ہے، آکسفورڈ ویکسین کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے لیے آسٹرا زینیکا کے ساتھ شراکت میں ہے۔ وہیں ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں بھارت بائیوٹیک کی کورونا ویکسین ‘کوباکسِن‘ (COVAXIN) اور فارما کمپنی زائڈس کیڈیلا بھی اپنی ویکسین زیکیوب-ڈی (ZyCoV-D) کی ٹرائل میں جٹی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ سِپلا (Cipla) نے بھی اس کورونا وبا کی دوا جلد سے جلد ڈھونڈ نکالنے کا دعویٰ کیا ہے۔
یہ بات آپ کے لیے چونکانے والی ہوگی کہ آخر حکومت ہند اسی کمپنی پر مہربان کیوں ہوئی؟ کیا صرف اس لیے کہ یہ کمپنی ویکسین بنانے والی ہندوستانی کمپنیوں میں سے ایک ہے یا کہانی کچھ اور ہے؟
اس کے پیچھے کہانی چاہے جو بھی ہو، لیکن ایک سچائی یہ ہے کہ اس کمپنی کی پسندیدہ پارٹی بی جے پی رہی ہے اور یہ کمپنی بی جے پی کو آن ریکارڈ 6.05 کروڑ روپیے چندے میں دے چکی ہے۔