حد بندی کمیشن کی تجاویز پر جموں و کشمیر میں برہمی

بی جے پی پچھلے دروازے سے داخلہ کے لیے کوشاں۔مقامی قائدین کا سخت ردعمل

اشفاق الحسن

حد بندی کمیشن کی طرف سے متعدد اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کی تجویز کے بعد جموں و کشمیر میں غصہ بڑھ رہا ہے۔ پینل نے سات نئے اسمبلی حلقے بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ کشمیر کے علاقے سے اننت ناگ، کولگام، شوپیان اور جموں کے علاقے سے راجوری اور پونچھ پر مشتمل ایک نیا پارلیمانی حلقہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے 18 اسمبلی حلقے ہوں گے۔ راجوری پونچھ پہلے جموں پارلیمانی حلقہ کا حصہ تھا۔ اب اسے جنوبی کشمیر کی پارلیمانی نشستوں میں شامل کر دیا گیا ہے۔
پارلیمانی نشستوں کی تعداد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ صرف نئی حلقہ بندی کی گئی ہے۔ سابقہ ​​ریاست جموں و کشمیر میں لوک سبھا کی چھ نشستیں تھیں – دو جموں میں، تین کشمیر میں، اور ایک لداخ میں۔
لداخ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بن گیا ہے۔ اب پانچ سیٹیں ہوں گی۔ جموں کے مسلم اکثریتی اضلاع اب مسلم اکثریتی کشمیر کا حصہ ہوں گے۔ لہذا تکنیکی طور پر، جموں کی پارلیمانی نشست اب جموں کے ہندو اکثریتی اضلاع پر مشتمل ہوگی۔ راجوری ضلع کی دو اسمبلی نشستیں – کالکوٹ اور سندربنی – جن میں ہندو اکثریت ہے جموں لوک سبھا سیٹ کا حصہ ہوں گی۔
سری نگر کی پارلیمانی نشست کی بھی دوبارہ تشکیل ہوئی ہے۔ جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے چار اسمبلی حلقے اور ایک شوپیان سے سری نگر سیٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے پلوامہ اور شوپیاں اننت ناگ لوک سبھا سیٹ کا حصہ تھے۔
اسی طرح اسمبلی کی پانچ نشستوں والا بڈگام ضلع اب بارہمولہ پارلیمانی حلقہ کا حصہ ہوگا۔ پہلے یہ سری نگر حلقہ کا حصہ تھا۔
اسی طرح موجودہ اسمبلی نشستوں کو دوبارہ ترتیب دے کر نئی سیٹیں بنائی گئی ہیں۔ شنگس حلقہ جنوبی کشمیر میں اننت ناگ مشرق اور لارنو حصوں کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔ سری نگر میں نیا چن پورہ حلقہ بنایا گیا ہے، جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں ہوم شالی بگ سیٹ کو ختم کر دیا گیا ہے۔
سوناواری حلقہ کا صفا پورہ اب گاندربل علاقے کا حصہ ہوگا۔ اجس، جو اس وقت بانڈی پورہ حلقہ کا حصہ ہے، سوناواری میں شامل کیا گیا ہے۔
سری نگر کے حبہ کدل کو، جس میں ہمیشہ سب سے کم ٹرن آؤٹ ہوتا تھا، اب اسے ختم کر کے تین اسمبلی حلقوں میں شامل کیا جائے گا۔ جموں و کشمیر میں اسمبلی کی نشستوں کی تعداد اب 83 سے بڑھ کر 90 ہو جائے گی۔ سابقہ ​​اسمبلی میں کشمیر کی 46، جموں کی 37 اور لداخ کی چار نشستیں تھیں۔ اب جموں کی 43 اور کشمیر کی 47 سیٹیں ہوں گی۔
نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ ، جو جموں و کشمیر پر حد بندی کمیشن کے ایسوسی ایٹ ممبروں میں سے ایک تھے،انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ ’’کسی بھی منطق اور تمام منطق کی نفی کرتی ہے اور کوئی سیاسی، سماجی اور انتظامی وجہ ان سفارشات کو درست ثابت نہیں کر سکتی۔‘‘
سابق چیف منسٹر جموں وکشمیر عمر عبداللہ نے کہا ’’کوئی سیاسی، انتظامی اور سماجی منطق نہیں ہے جو ان سفارشات کو درست ثابت کرے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ضلع کے ساتھ اسمبلی کی نشستیں بنانے کے لیے حد بندی کی مشق کی جا رہی ہے۔ لیکن رپورٹ کا مسودہ بالکل مختلف تصویر دکھا رہا ہے۔ اننت ناگ کی طرح جنوبی کشمیر کی لوک سبھا سیٹ میں راجوری اور پونچھ سے چھ اسمبلی سیٹیں ہوں گی، جو جموں ڈویژن کا حصہ ہیں اور پیرپنجال کے اس پار واقع ہیں‘‘
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کہا کہ پینل نے خود کو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی محاذی تنظیم کے طور پر ثابت کیا ہے۔ پارٹی کے ایک سرکاری ترجمان نے کہا، ’’کمیشن کی عبوری سفارشات کے حوالے سے میڈیا رپورٹس سے، یہ واضح تھا کہ باڈی کا واحد مقصد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بی جے پی اور اس کی ہمنوا تنظیموں کے پچھلے دروازے سے داخلے کویقینی بنانا تھا۔‘‘
سی پی آئی (ایم) کے رہنما محمد یوسف تریگامی نے کہا کہ حد بندی کمیشن کی تجویز کے مسودے میں جموں و کشمیر میں متعدد پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حدود کو دوبارہ بنانے کے لیے ایک عجیب جغرافیائی ترتیب کی سفارش کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا ’’کمیشن کی طرف سے اپنے ساتھی ممبروں کے ساتھ مشترکہ تجویز کا مسودہ جیسا کہ میڈیا رپورٹس بتاتی ہے انتخابی حلقوں کی دوبارہ نقشہ سازی کرتے وقت ٹپوگرافی اور دشوار گزار علاقے کو مدنظر رکھنے کے کمیشن کے پہلے کی دلیل سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ کمیشن نے موجودہ علاقائی حلقوں میں من مانے طریقے سے نظر ثانی کی تجویز پیش کی ہے حتیٰ کہ آبادی کا لحاظ رکھنا تو درکنارعلاقے کا بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے، جو اسمبلی اور پارلیمانی حصوں کی حدود کو دوبارہ بنانے کے لیے بنیادی پیمانے کی حیثیت رکھتا ہے،‘‘
***

 

***

 حدبندی کمیشن کی رپورٹ ’’کسی بھی منطق اور تمام منطق کی نفی کرتی ہے اور کوئی سیاسی، سماجی اور انتظامی وجہ ان سفارشات کو درست ثابت نہیں کر سکتی۔‘‘
فاروق عبداللہ


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 فروری تا 26فروری 2022