ایاز احمد اصلاحی
عدالت عالیہ کے ججوں نے دستور اور انصاف دونوں کی روح کو مجروح کیا
حجاب کا اہتمام کرنا اسلام اور قرآن مجید کا واضح حکم ہے، اور اس کے حق میں ملک اور بیرون ملک کی عدالتیں بارہا فیصلہ دے چکی ہیں، لیکن کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے کالج میں حجاب پر پابندی لگا کر ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ بھارت میں مسلمانوں کو حاشیے سے لگانا اس جماعت کا اولین سیاسی ایجنڈا ہے۔ صوبائی حکومت کا یہ حکم 5 فروری 2022 کو عمل میں آیا ہے اور جنہیں بھی بی جے پی/ آر ایس ایس کے سیاسی ایجنڈے کا علم ہے انہیں یہ بات سمجھنے دیر نہیں لگے گی کہ حجاب پر پابندی کے تعلق سے کرناٹک بی جے پی سرکار کے اس حکومتی حکم نامے کا منشا وہی ہے جو یوپی میں یوگی سرکار کے لو جہاد اور تبدیلی مذہب کے خلاف نئے قوانین کا ہے ۔ بہر حال حکومت کے اس حکم کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والی کرناٹک کی مسلم طالبات اور دیگر پیٹشنرز (عرضی گزار) کے وکیلوں نے بنگور ہائی کورٹ کے سامنے مثالوں اور دلائل کا انبار لگادیا تھا جیسا کہ وکیل استغاثہ دیودتا کامت نے اپنے ایک بیان میں کہا، سرکاری وکیل یا حجاب کے حق میں داخل پٹیشنز کے مطالبے کی مخالفت میں کھڑا ہونے والا کوئی ایک وکیل بھی حجاب کے خلاف "عدالتی فیصلے کی کوئی ایک نظیر بھی پیش نہیں کرسکا تھا”۔ لیکن سماعت کے دوران ہی عدلیہ نے اپنے ناقابل فہم سوالات اور یک طرفہ برتاؤ سے یہ ظاہر کردیا تھا کہ وہ کیا فیصلہ دینے والی ہے۔ کسی نے صحیح کہا کہ جب نیت ہی خراب ہو تو ظالم تو ظالم کرسی عدالت پر بیٹھے ہوئے افراد کے سامنے بھی دلیل وحجت کام نہیں آتی۔ افسوس کہ ہمیں 15 مارچ 2022 کو کرناٹک ہائی کورٹ میں بھی کچھ ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا، جب یہاں کی عدالت عالیہ نے عالمی اور خود ہندوستانی عدلیہ کے متعدد فیصلوں کی نظیروں کو درکنار کرکےحجاب پر اسلام کے واضح شرعی احکام کے خلاف ایک ایسا فیصلہ صادر کیا ہے جو نہ صرف مسلم طالبات کو ان کے مذہبی دستوری حق سے محروم کرنے والا ہے بلکہ ان کے لیے اعلی تعلیم کے حصول کی راہ میں بہت ساری روکاوٹیں کھڑی کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ جیسا کہ توقع تھی کہ یہ حکم آنے کے بعد کرناٹک کی غیور مسلم طالبات نے یہ کہہ کر کالج جانا ترک کردیا کہ کہ انہیں اپنی تعلیم چھوڑنا منظور ہے لیکن حجاب چھوڑنا منظور نہیں ۔ ایک عدالتی فیصلہ اپنے نتائج کے لحاظ سےجب اس قدر ظالمانہ ہو تو وہاں سے انصاف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ عدالتیں امیدیں جگاتی ہیں لیکن خصوصا مسلمانوں کے تعلق سے ہندوستانی عدلیہ کے اس قسم کے بعض حالیہ فیصلوں نے تو امیدوں کا سرعام خون کیا ہے۔ یہاں شہریوں کے دستوری حقوق کو تحفظ ملتا ہے لیکن اس عدلیہ نے تو الٹا دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کو ہی سولی پر لٹکا دیا۔ یہاں فرقہ پرستی و جانبداری اور سماجی و مذہبی تفاوت کی راہ مسدود کی جاتی ہے لیکن ان فیصلوں نے تو ہمارے بنیادی دستوری حقوق کے حفاظتی حصار میں ہی شگافیں ڈال کر فرقہ پرست قوتوں کے لیے راہیں ہموار کر دی ہیں۔۔۔ اس لیے یہ انصاف نہیں بلکہ انصاف سے ایک بھیانک کھلواڑ ہے اور یہ کہنا قطعا مبالغہ نہیں ہوگا کہ اس عدالتی فیصلے نے ہندوستان میں عدلیہ کی تاریخ میں ایک اور شرمناک اور سیاہ ترین باب کا اضافہ کیا ہے۔
میرے نزدیک بنگلورو کی عدالت عالیہ کے ججوں کا یہ کہنا کہ "حجاب پہننا اسلام کے بنیادی اعمال و ارکان کا حصہ نہیں ہے” اسلامی شریعت میں براہ راست مداخلت ہے اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا یہ دروازہ اسی طرح کھلا رہا تو کل کچھ بھی ہوسکتا ہے اور کوئی بھی صوبائی حکومت بڑی آسانی سے ان فیصلوں کی آڑ میں جب چاہے پہلے سے بنے بنائے منصوبے کے مطابق مذہبی آزادی کا گلا گھونٹ سکتی ہے ۔ اس خاص سیاق میں، میں یہ برملا پوچھنا چاہتا ہوں کہ قانون کے ان پنڈتوں اور انصاف کے ان قاتلوں کو دستور کی کون سی شق، کون سی انسانی حس اور کون سی سماجی و قانونی تعلیم یہ حق دیتی ہے کہ وہ دوسروں کے مذہبی ہدایات و عقائد کی من مانی تشریح کرتے پھریں اور انہیں اپنی طرف سے یہ بتائیں کہ ان کے مذہب میں کیا چیز "لازمی” اور کیا نہیں اور کس بات پر ان کا عمل کرنا "ضروری” ہے اور کس پر نہیں؟ ذرا المیہ تو دیکھیے کہ ایک طرف مسلمان ہیں جو اپنی دینی ہدایات کے مطابق حجاب پہننے کو لازم سمجھتے پیں اور ایک طرف بی جے پی حکومت اور عدلیہ ہے جو اپنی مرضی سے حجاب کے شرعی حکم کی نوعیت ہی تبدیل کرنے پر بضد ہے۔
مسلمان حجاب کے حکم پر تقرہبا پندرہ سو سالوں سے عمل کرتے آرہے ہیں، اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی شریعت میں حجاب کا حکم لازمی نہیں ہے؟ مسلم عورتیں اسی حکم کی اتباع میں تو غیر محرم کے سامنے حجاب کا اہتمام کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ اسی بنیاد پر خود اس ملک کی عدالتوں نے بھی ماضی میں حجاب کی لازمیت کو تسلیم کیا ہے اور مسلم کی اس علیحدہ شناخت کی ضرورت کا اعتراف کرتے ہوئے بعض عدالتیں اسے ڈریس کوڈ کی پابندی یا سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ضابطوں سے مستثنی قرار دے چکی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال بامبے ہائی کورٹ کی ہے جس نے۔۔۔۔ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ایک ہومیوپیتھک میڈیکل کالج کی انتظامیہ کو عرضی گزار مسلم طالبہ کو حجاب پہننے کی اجازت دینے کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کے پیدا کردہ موجودہ ماحول میں سرکار اور معقولیت سے تہی دامن عدلیہ کسی دلیل یا ماضی کی کسی نظیر پر غور کرنے اور کچھ سننے کو تیار نہیں ہیں۔ مسلم طالبات کے وکیل نے کیرالا ہائی کورٹ کے دو اور مدراس ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کو بطور نظیر پیش کرکے ججوں کے سامنے یہ اچھی طرح ثابت کردیا تھا کہ ان فیصلوں کے ہوتے ہوئے حجاب کو اسلامی تہذیب کے لازمی عنصر اور بنیادی اسلامی عمل کے طور سے قبول نہ کرنے یا کالجوں میں حجاب کے اہتمام پر موجودہ حکومت کی پابندی کی تائید کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جہاں تک ہائی کورٹ کے گزشتہ فیصلوں کا معاملہ ہے تو جیسا کہ بتایا گیا کہ بامبے ہائی کورٹ اپنے ایک حالیہ فیصلے میں حجاب کو دستور میں دی گئی بنیادی مذہبی آزادی کا حصہ مان کر اس کے حق میں اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ بامبے ہائی کورٹ کا 2003 کافیصلہ بھی اسلام میں حجاب کے وجوب سے انکار نہیں کرتا۔ اسی طرح کیرالا ہائی کورٹ کا فیصلہ 2018 میں ایا تھا اور مدارس ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ 2004 میں سنایا تھا۔ ان فیصلوں میں نہ تو حجاب پہننے کو دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کا حصہ ماننے سے انکار کیا گیا ہے اور نہ ہی اسلام میں حجاب کے حکم کے لازمی ہونے پر کوئی سوال کھڑا کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ کورٹ کے سامنے عالمی قانون کا بھی حوالہ دیا گیا تھا کہ” اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق پر مبنی کنونشن میں بھی حجاب پہننے کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے جس کے چارٹر پر ہندوستان نے بھی دستخط کیے ہیں”۔
یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ بامبے ہائی کورٹ کے 2003 کے جس فیصلے کا حوالہ دے کر کرناٹک سرکار کالجوں میں حجاب پر پابندی کو جائز ٹھہرا رہی ہے اس نظیر کی دھجیاں وکیل استغاثہ نے کرناٹک ہائی کورٹ میں یہ کہہ کر اڑادی تھیں کہ بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ اس کیس میں نظیر نہیں بن سکتا کیونکہ وہ لڑکیوں کے ایک کالج کا معاملہ تھا، اور جج نے یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ قرآن مجید میں حجاب کا واضح حکم ہے یہ کہہ کر فیصلہ طالبات کے مطالبے کے خلاف دیا تھا کہ حجاب کے تعلق سے قرآن کا حکم عورتوں کو خود عورتوں کے درمیان حجاب پہننے کی ہدایت نہیں دیتا بلکہ یہ محض مردوں کے سامنے حجاب کو لازم کرتا ہے، اس حکم کے مطابق ایک نسواں کالج میں حجاب کا اہتمام غیر ضروری ہے۔ چنانچہ بامبے کورٹ کے یہ الفاظ اس فیصلے کی روح پر اچھی طرح روشنی ڈالتے ہیں:
“A girl student not wearing the head scarf or head covering studying in exclusive girls section cannot be said to in any manner acting inconsistent with the aforesaid verse 31 or violating any injunction
provided in Holy Quran”۔
(ایک طالبہ اگر ایک مکمل نسوان کالج میں پرھتے ہوئے ہیڈ اسکارف کا استعمال نہ کرے یا سر کو کسی کپڑے سے نہ ڈھکے تو اسے کسی بھی طور سے مذکورہ (سورہ نور کی) کی آیت ۳۱ کی عدم اطاعت یا ایسے کسی ہدایت کی خلاف ورزی نہیں کہا جا سکتا جو قرآن مجید میں موجود ہے)
اس طرح بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی کرناٹک ہائی کورٹ کے پٹشنرز کی تائید کرتا ہے نہ کہ صوبائی حکومت اور کرناٹک ہائی کورٹ کے ججوں کی جن کا کہنا ہے کہ حجاب پہننا اسلام کے واجبات میں سے نہیں ہے اس لیے مخلوط کالجز میں بھی انہیں پہننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
دستور کی دفعہ 25 اور 19 (1) اے جو بنیادی شخصی حقوق کی ضامن ہیں، کے تحت بھی یہ عدالتیں حجاب پر پابندی نہیں لگا سکتیں۔ حجاب پہننا خالص ایک شخصی پسند کا معاملہ ہے جس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اس لیے یہ آزادی دفعہ 19(2) میں بیان کیے گئے امن عامہ یا کسی بھی ایسے ملکی یا سماجی خلل کا سبب نہیں بنتی جو اس پر پابندی کا جواز فراہم کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دستور کی ان دفعات اور ملک کی مختلف ہائی کورٹوں کے بعض فیصلوں کی رو سے کالجوں کے مخلوط کلاس روم، آل انڈیا امتحانات کے مراکز یا دیگر مقامات پر مسلم عورتوں یا مسلم طالبات کو حجاب کے اہتمام سے روکنا دستور کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس خلاف ورزی پر قد غن لگانا ہماری عدالتوں کی پہلی ذمہ داری ہے۔ بے شک یہ ایک ایسی مذہبی آزادی کا معاملہ ہے جس پر عمل کرنے سے کالج یا کالج کے باہرنہ تو کبھی امن عامہ (Public Order) کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی فریق کی حق تلفی ہوتی ہے جسے بہانہ بناکر حجاب پر پابندی کو جائز قرار دیا جائے۔
افسوس کہ یہ تمام معقول دلائل بھی ایک گونگی بہری عدالت میں صدا بصحرا ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ دستور نے ملک کے تمام شہریوں کو جو بنیادی مساوی حقوق دیے ہیں انہیں بھی ان ججوں کو پرزور انداز مین یاد دلایا گیا تھا کہ جس طرح دیگر فرقوں کو سرکاری اداروں میں اپنے مذہبی شعار پر عمل کرنے کی اجازت ہے وہی اجازت دستور میں دیے گئے مساوی حق کے تحت حجاب کے تعلق سے مسلم طالبات کو بھی ملنی چاہیے،
لیکن اس دلیل نے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ شاید سی اے اے اور این آر سی جیسے قوانین بنانے والے متعصب حکمرانوں کی طرح ہمارے یہ جج بھی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری ماننے لگے ہیں؟
وکیل استغاثہ دیودتانے چیف جسٹس آر آر اوستھی اور دیگر ججوں کے سامنے ایک انتہائی شاندار اور مدلل بحث کی مثال پیش کی تھی لیکن ججوں کے انداز سے کم سے کم مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ مسلمانوں کے بنیادی مذہبی حقوق اور طالبات کے تعلیمی کریئر کے تعلق سے ان کے اندر ذرا بھی ہمدردانہ رجحان موجود ہے اور اس غیر ہمدردانہ و غیر منصفانہ رجحان کا اثر ان کے فیصلے میں بھی صاف نظر آرہا ہے۔ اپنی بحث کے آخر میں ان کے سامنے طالبات کے وکیل نے بی آر امبیڈ کر کی ایک تقریر کا ایک اقتباس بھی اس امید سے پیش کیا تھا کہ زندگی بھر دستور کی قسم اور دستور کی روٹی کھانے والوں کو شاید کچھ ہوش آجائے لیکن اس بے حس دنیا کے سامنے نتیجے کے لحاظ سے یہ کاوش بھی بے کار گئی۔ امبیڈکر نے دستور کا مسودہ مکمل کرنے کے بعد اس کے تعلق سے جو بات کہی تھی وہ واقعتا قانون و ریاست کے ان رکھوالوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں:
"ہم ایک عظیم دستور کے حامل ہوسکتے ہیں، لیکن اگر وہ لوگ جنہیں اسے نافذ کرنا ہے برے ہیں تو یہ بھی ایک برا دستور بن کر رہ جائے گا”۔
آج حکومت کے دو بڑے ستونوں نے اس دستور اور اس ملک کی جو تصویر بنا رکھی ہے وہ کتنی بھدی ہو چکی اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
حجاب کے حق میں سب سے بڑی اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ مسلمان چودہ سو سالوں سے برابر حجاب کے اسلامی حکم پر عمل پیرا ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی ہدایات کے مطابق عوامی مقامات پر مسلم عوتوں کے لیے حجاب پہننا لازمی ہے اور اسی دعوی کے ساتھ مسلم طالبات نے اپنے تعلیمی کریئر کا حوالہ دے کر کورٹ سے حجاب پر پابندی ہٹانے کی درخواست کی تھی۔ لیکن کورٹ نے یہ کہہ کر ان کی ہر التجا کو ٹھکرا دیا کہ حجاب کا حکم اسلام کے واجبات میں سے نہیں ہے اور اس پر پابندی کو برقرار رکھا۔ اسے عام زبان میں ناانصافی ہی نہیں انصاف کا مذاق (Mockeryof Justice) کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عمل جسے کسی مذہب کے ماننے والے ابتدا سے اپنے مذہب کا ضروری حکم مان کر کرتے آرہے ہیں، عالمی قانون یا قانون فطرت کے مطابق ہر فیصلہ اسی کے رو سے کیا جائے گا الا یہ کہ اس سے دوسرے کی آزادی سلب ہورہی ہو یا امن عامہ یا پبلک سیکوریٹی کا مسئلہ کھڑا ہو رہا ہو، لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے، یہ مسلمانوں کا ایک مسلمہ مذہبی عمل ہے اس لیے کسی سرکار یا عدالت کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اسے اپنی طرف سے "غیر وجوبی” (nonessential) قرار دے کر اس پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرے۔ یہ سرکاری اور نام نہاد عدالتی رویہ پوری طرح ایک جمہوری اور مساویانہ سماج کی خصوصیت کے برعکس ہے بلکہ اس سے ایک جابرانہ و ظالمانہ نظام کی بو آتی ہے۔ اس لیے کہ کسی فرقہ کے مذہبی جذبات کو اس طرح کچلنا یا کچلنے کی اجازت دینا کہ اسے اپنے بنیادی مذہبی احکام کو جبرا خیرباد کہنے پر مجبور کیا جائے کسی مہذب سماج کی علامت نہیں ہے۔ یہ اگر ایک طرف بے رحم اور غیر انسانی برتاؤ کی طرفداری ہے تو وہیں یہ ملک کے کمزور طبقوں کو اکثریت کا تہذیبی غلام بنانے کا ایسا ہتھکنڈا ہے جن کا استعمال عدل پرست نہیں بلکہ نسل پرست ریاستوں میں عام ہے۔ ان حقائق کی موجوگی میں کرناٹک کورٹ کا اس صوبہ کے کالجوں میں حجاب پر سرکاری پابندی کی حمایت کرنے والا فیصلہ ہر طور سے انصاف کی روح اور تمام عالمی عدالتی معیارات کے منافی ہے۔
ان سطروں میں اب تک کالجوں میں متعین یونیفارم کے ساتھ حجاب پہننے کے تعلق سے کرناٹک ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مختلف پہلووں پر توجہ مرکوز تھی لیکن ہندوستان کے بدلتے حالات میں مسلمان اور اہل ملک سے کچھ دوسری باتیں صاف صاف اسلوب میں کرنی ضروری محسوس ہورہی ہیں۔
میری نظر میں عدالتوں میں منصفی کا یہ طریقہ عدل پرور نہیں بلکہ فسطائیت نواز ہے اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو اس سے انصاف و مساوات نہیں بلکہ ظلم و جور اور مذہبی جارحیت کا ہاتھ روز بروز مزید مضبوط ہوتا جائے گا ۔ دلائل اور مظلوم کی جائز التجائوں کو نظر انداز کرنے والا انصاف کا یہ طرز ہی اپنے آپ میں انوکھا اور شکوک و شبہات سے بھرا ہو ہے اور یہ عدل و انصاف کے کسی بھی عالمی معیار سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ججوں کا یہ انداز دیکھتے ہوئے اس بات کا پورا اندیشہ ہے کہ وہ آئندہ اسلام کے دوسرے احکام کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کی مذہبی آزادی کی راہ مزید تنگ کرکے ایسے فیصلے بھی کر سکتےہیں جو مسلمانوں کو ہندو تہذیب میں رنگنے اور ملک کو فسطائی ہندوتوا کی راہ پر لے جانے والوں کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوں۔ اگر آج انہوں نے حجاب پر پابندی لگائی ہے، تو اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومتیں اور ان کے تحت کام کرنے والے ملکی ادارے کل نماز باجماعت، ڈاڑھی، تعدد ازدواج، تعمیر مساجد اور ماہ رمضان کی تراویح اور صوم و صلاۃ وغیرہ سے متعلق بعض دیگر شرعی احکام و عبادات پر پابندیوں کے فیصلے یہ کہہ کر نہیں کریں گے کہ ” یہ اسلام میں ضروری نہیں ہے” ؟؟ اسی احساس کے ساتھ ہمیں آئندہ کے مرحلوں کا "صابروا و رابطوا” کے قرآنی تنبیہ کے ساتھ سامنا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس فیصلے کو برقرار رکھے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر ہم کیا کریں گے؟ اس پر سوچنا از حد ضروری ہے
اس سلسلے میں خود کالج کی باحجاب مسلم طالبات اور ان کے اہل خانہ کا کردار حد درجہ جرات مندانہ رہا اور آفریں ہے انہیں کہ کالج انتظامیہ سے لے کر ہائی کورٹ تک انہوں نے کہیں ہار نہیں مانی اور پورے ملک کو حجاب کے متعلق اسلام کا واضح پیغام پہنچانے میں کامیاب رہیں اور ایک ایسے ماحول میں جب کچھ اسلام پسند حلقوں میں بھی فیمینزم (تانیثیت) اور فیمینسٹ کی اصطلاحات کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے، انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ ان کی دینی و تہذیبی شناخت انہیں ہر شئے سے زیادہ عزیز ہے اور جب بھی اس پر حملہ ہوگا یا قانونی اور انتظامی راستوں سے انہیں چھیننے اور مٹانے کی کوشش ہوگی مسلمان اسے برداشت نہیں کرے گا اور اس کی حفاظت میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا سکتا ہے۔ چنانچہ کالجوں میں حجاب پر پابندی کے حق میں کرناٹک عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اخباری نمائندوں نے کرناٹک کے متنازعہ کالجوں کی ان طالبات سے انٹرویو کیا جو اس مقدمہ کی پٹشنر ہیں اور جو اس فیصلے سے براہ راست متاثر ہو رہی ہیں۔ ان طالبات نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اس فیصلے کے خلاف جو کچھ کہا ہے وہ اسی موقف کا ترجمان ہے۔ ان کا کہنا ہے ” ہمیں عدالت نے مایوس کیا اور وہاں سے ہمیں انصاف نہیں ملا”۔ یہ الفاظ ان کے مجروح احساسات کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ پہلو ہمارے لیے بہر کیف خوش آئند ہے کہ یہ طالبات اب سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ لڑ رہی ہیں۔ فیصلہ کیا ہوتا ہے معلوم نہیں، لیکن انہوں نے جو ہمت و جرات دکھائی ہے وہ پوری مسلم قوم کے لیے حوصلہ افزا بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ کالجوں میں حجاب پر پابندی کے حق میں کورٹ کے غیر متوقع ، غیر دانشمندانہ اور غیر عادلانہ فیصلہ کے خلاف بھارت کے ہر مسلمان کو اپنا احساس اس ملک میں اسی طرح درج کرانا چاہیے جس طرح ان طالبات نے کیا ہے ۔ انہوں نے اس فیصلےکو اپنے ہی ملک میں "ٹھگے جانے” اور "دھوکا کھانے” سے تعبیر کیا۔ ایک صحافی سے انہوں نے اپنے احساسات کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔
” دستور ہمیں اپنے مذہب پر چلنے کی پورا حق دیتا ہے، لیکن اس فیصلے سے ہم شدید صدمے میں ہیں، ہمیں بہت کچھ امید تھی (جو بکھر گئی) ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم حجاب کے بغیر کالج نہیں جائیں گی”۔
جہاں تک اسلامی شریعت سے متصادم اس فیصلے کے خلاف مظاہرہ اور مزاحمت کا معاملہ ہے تو یہ کہنا بالکل بے جا نہیں ہوگا کہ اگر ہمارے کسان بھائی حکومت کے کسان مخالف قوانین کے خلاف سڑک پر آ سکتے ہیں اور ملک کے دوسرے طبقات اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے احتجاج و مظاہرہ کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان آخر اس جمہوری و دستوری حق کے استعمال میں بلا وجہ خوف و تردد کا شکار کیوں ہوں؟ اور آخر وہ اکیلا ہی صبر و تحمل کی ذمہ داریاں یک طرفہ طور سے کب تک ادا کرتا رہے گا۔ ملک کی بدلتی صورت حال میں اس سوال کا جواب کسی اور کو نہیں خود مسلمانوں کو دینا ہے اور یہاں اپنا مستقبل بھی خود انہیں کو طے کرنا ہے۔ سچ یہ ہے کہ دوسروں کی طرح یہاں کا مسلمان بھی اپنے ساتھ ہورہی مذہبی و سماجی نا انصافیوں کے خلاف مزاحمت کا پورا حق رکھتا ہے اور اسے اپنے مذہبی مسلمات کے خلاف عدالت کے ایک انتہائی نامعقول فیصلے کو مسترد کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔
مجھے معلوم نہیں کہ اس حقیقت کا ادراک آپ میں سے کتنوں کو ہے کہ اگر عدالتیں اسلام کے واضح احکامات اور دستوری تقاضوں کے برخلاف تین طلاق اور حجاب پر پابندی سے متعلق غیر دستوری فیصلے دے کر اسلامی شریعت میں مداخلت کے دروازے کھول سکتی ہیں تو وہ آئندہ ہمارے مذہبی حقوق کے منافی کوئی بھی فیصلہ سنا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں پر ہندوتوا کی مرضی تھوپنے والی بی جے پی حکومتوں اور اس کی ہم نوا عدالتوں کے حالیہ فیصلے اپنے اثرات و نتائج کے لحاظ سے بابری مسجد کی شہادت اور اس پر آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ عدالت کے ایک فیصلے نے محض ہماری ایک عبادت گاہ چھینی ہے جب کہ ان دو فیصلوں نے مسلمانوں کی دینی و تہذیبی آزادی پر قد غن لگائی ہے اور انہیں اپنے مذہب کے بنیادی احکام پر عمل کرنے سے روکا ہے جس کے منفی اثرات اتنی دور تک پہنچ سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ بحیثیت مسلمان جینا ہمارے لیے ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے اگر ہم نے اب بھی غفلت برتی تو آئندہ نقصانات کی بھرپائی بہت مشکل ہوجائے گی۔
ان مشاہدات و تجربات کی روشنی میں وقت کا تقاضا یہی ہے کہ جس چیز کو ہمیں "نہیں” کہنا ہے اسے بہر حال’نہیں‘ کہنے کا حوصلہ دکھائیں ۔ اگر ہم مذہبی آزادی کے منافی یا کسی غلط فیصلے کے خلاف نہیں کہنے سے اسی طرح گریز کرتے رہیں گے تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ ہم نے اپنے دین میں ہورہی مذہبی مداخلتوں پر "ہاں” کہہ دی ہے اور ایک خاص مذہبی و تہذیبی تسلط کے تحت جینے پر راضی ہوگئے ہیں۔ یہ ایک ایسی خود سپردگی ہے جس کی نہ تو اسلام میں اجازت ہے اور نہ اعلی اخلاقی تعلیمات میں۔ سب کچھ ہوجانے کے بعد اگر ہم بعد جاگے بھی تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی، اس لیے اس تازہ واقعے کے پس منظر میں، میں یہ صاف صاف کہنا چاہوں گا کہ اپنے تہذیبی مسلمات کے خلاف ہونے والے اقدامات کو برداشت کرنا سب سے بڑا بزلانہ رویہ ہے اور اس رویے کے ساتھ یہ تو ممکن ہے کوئی قوم غلام بن کر صدیوں باقی رہ جائے اور ذلت کی زندگی جی لےلیکن اپنے دینی و تہذیبی وجود کی لڑائی میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ہماری یاداشت کمزور نہ ہو تو یہ اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں کہ حجاب پر بنگلورو ہائی کورٹ کے فیصلے میں جانب داری اور نا انصافی کی ایسی ہی بو آرہی ہے جس طرح بابری مسجد قضیہ پر سپریم کورٹ کے "آستھا” پر مبنی فیصلے سے آرہی تھی اور ہمیشہ آتی رپے گی۔۔۔ انصاف کے اس گھر سے جو نا انصافی کی بو آرہی ہے وہ اب اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ کسی بھی غیرت مند شخص کے لیے اسے برداشت کرنا مشکل ہے۔ یہ ظلم و ناانصافی کے زہر سے پر ایک ایسا مہلک جام ہے کہ وہ چاہے حکومت کے حکم نامہ کی شکل میں آئے یا عدلیہ کے فیصلے کی شکل میں اگر مسلمان حقیقت میں اسے اپنی شریعت میں مداخلت سمجھتے ہیں تو انہیں علی الاعلان یہ کہنا پڑے گا کہ وہ اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کا انتظار کرنے کی بجائے مجھے یا آپ کو اس کا پہلا انکاری بننا پڑے گا۔
کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے مستقبل قریب میں جن اندیشوں کی نشاندہی کی ہے وہ ابھی اندیشہ ہائے دور دراز ہیں۔ ہو سکتا ہے اس بات کے پیچھے کوئی خاص دلیل ہو، لیکن مجھے لگتا یے کہ وقت سے پہلے بیدار ہوجانا اور طوفان آنے سے پہلے اپنی کشتیوں کے بادبان درست کرلینا ہی معقولیت ہے کیونکہ اب بھارت میں ہمارے لیے زیادہ مہلت عمل بھی نہیں بچی ہے۔ آخر کون سی بات آج کسی کو انہونی لگتی ہے یا لگ سکتی ہے؟ اب تو اذان ، عوامی مقامات پر اجتماعی نماز ، مساجد کی تعمیر ، یونیفارم سول کوڈ اور اسکولوں میں مشرکانہ عقائد کی لازمی تعلیم کو کسی نہ کسی شکل میں حکومت اور مسلم مخالف عناصر کی طرف سے اس ملک میں بحث کا کھلے عام موضوع بنایا جا رہا ہے، بلکہ ان میں سے بعض پر عمل کرنا بھی شروع کردیا گیا ہے۔ آج وہ ہورہا ہے جس کا ہم کل تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اگر ہماری مزاحمت اور اللہ کی نصرت سے حالات تبدیل نہیں ہوئے تو مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہاں وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جس کا ہم آج تصور بھی نہیں کر پارہے ہیں۔ میرے اس تجزیے کی متعدد بنیادیں بیں جن میں سے ایک عدالتوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پڑی ہوئی بے شمار پی آئی ایل ہیں۔ یہ کسے معلوم نہیں ہے کہ ہمارے بعض دیگر عائلی اور مذہبی قوانین کے خلاف سپریم کورٹ میں مسلم مخالف عناصر کی طرف سے پہلے ہی بہت سی پی آئی ایل داخل کی جاچکی ہیں ہیں جو اسی قسم کے ججوں کی توجہ کی منتظر ہیں جو بابری مسجد، تین طلاق اور حجاب سے متعلق اپنے دستور مخالف اور شریعت مخالف فیصلے دے کر یہ بتا چکے ہیں کہ وہ ان عدالتوں میں کتنے آزاد اور کتنے غیر جانب دار ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی پی آئی ایل تیاری کے مرحلے میں ہیں۔ نچلی عدالتوں میں بھی اسلامی تہذیب و شعار کو طرح طرح سے نشانہ بنانے کی تیاری ہے۔ اس تعلق سے دوسرا قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ جو عدالتیں پہلے اس قسم کی نفرت انگیز پی آئی ایل اور مقدمات کو ذرا بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتیں تھیں اب وہ انہیں اپنی بھر پور توجہ دے رہی ہیں اور وہ سنوائی کے لیے بس کسی بہانے کی منتظر رہتی ہیں۔
آخری بات یہ کہ حالات کا تجزیہ اور واقعاتی سیاق میں صورت حال پر غور و فکر کرنا جس کی بھی عادت ہے اسے آج ہر وہ چیز دو اور دو چار کی طرح نظر آرہی ہے جن کا اہل بصیرت نے آزادی سے قبل ہی ادراک کرلیا تھا۔ موجودہ حالات میں ان حقائق کے ذکر سے صرف اس لیے گریز کرنا کہ اس سے مسلمانوں میں مایوسی پھیل سکتی ہے عقل مندی اور حقیقت پسندی دونوں کے خلاف ہے۔حالات سے آنکھیں ملا کر جینا اور حقائق پر شاہینی نظر رکھنا ایک بات ہے اور حالات سے مایوس ہوکر حال و فردا کا ذکر کرنے سے ہی کترانا اور آزماشوں سے گھبرا کر حوصلہ ہارجانا ایک بالکل مختلف بات ہے۔ چیختے لمحات اور دل فگار حادثات میں بھی ہمارے لیے بڑا سبق اور بڑاامکان ہوتا ہے۔ آج کے پس منظر میں یہ سوچنا ہرگز گناہ نہیں ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے اور ہم اس کا سامنا کیسے کرنے والے ہیں۔ البتہ غور و فکر کا یہ عمل خود کو مایوس کن ماحول میں محصور کرنے کے لیے نہیں بلکہ حوصلہ مند جدوجہد کے لیے اور اللہ کے لیے اپنی بندگی و عبدیت کو اتنا خالص و بے آمیز کرنے کے لیے ہونا چاہیے کہ کڑے سے کڑے حالات میں بھی اس میں کوئی فرق نہ آئے۔ خدا کے لیے مخصوص کی گئی عبدیت و بندگی صرف اذکارو عبادات تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس بندگی کے ساتھ جان لیوا امتحانات میں بھی پورے کا پورا دین رب ذو الجلال کے لیے خالص کرنا پڑتا ہے ” فادعوا اللہ مخلصين له الدين و لو كره الكافرون” ( الله کو یاد کرو اس کے لیے پورے کا پورا دین خالص کرکے، چاہے وہ اہل کفر کو ناگوار ہی کیوں نہ لگے– سورہ غافر: 14 ) امام رازی نے مفاتیح الغیب میں اس آیت کا سیاق بتاتے ہوئے بجا لکھا ہے کہ اس کا مطلب ” غیر اللہ سے اعراض اور اللہ کی طرف پوری طرح پلٹنا ہے”۔ یعنی یہ کامل اسلام پر جینے اور غیر اسلام سے مکمل انکار کا عملی اعلان ہے۔ اس ملک میں اپنے مذہبی حقوق اور دینی تشخص کو بچانے کی جدوجہد کا یہی سب سے معتبر و محفوظ طریقہ ہے۔ اس جدوجہد کو مہمیز دینے کے لیے یہی فکر کافی ہے کہ اگر اس دنیا میں ایک انسان فرعون بن سکتا ہے تو دوسرا انسان اس کے سامنے موسی بن کر کھڑا بھی ہوسکتا ہے۔ اگر یہاں ایک طبقہ انسانیت کے لیے سم قاتل بن کر ظاہر ہو سکتا ہے تو دوسرا طبقہ اس کے لیے تریاق بن کر زہریلے اثرات کو سمٹنے پر مجبور بھی کرسکتا ہے۔ اگر ایک انسان ابو جہل و ابو لہب بن سکتا ہے تو اس کے مقابلے میں دوسرا انسان ابو بکرو عمر اور عثمان و علی بھی بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ اگر ایک جابرانہ نظام ظلم و جبر کی راہ پر چل کر انسانوں پر ظلم و ناانصافی مسلط کر سکتا ہے تو دوسرا نظام عدل و قسط کی راہ پر چل کر انسانوں کو اس سے نجات بھی دلا سکتا ہے۔
اس روح فرسا صورت حال میں ایک رویہ یہ ہے کہ ہم صریح نا انصافی پر مبنی ہر نئے حکومتی یا عدالتی فیصلے پر خاموش رہیں یا تھوڑی دیر کے لیے بزدلوں کی طرح آنسو بہاکر دوبارہ اپنی زندگی میں مصروف ہوجائیں، اور اپنی اسی عادت کے ساتھ ہمارے ملی و دینی وجود کو زخمی کرنے والے اگلے فیصلوں کا انتظار کرتے رہیں اور روزنامہ گارجین (لندن) کے الفاظ میں بس "یہ اندازہ کرتے رہیں کہ ان کا اگلا قدم کیا ہوسکتا ہے”؛ جب کہ اس کے برعکس دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ ہم حکومت و عدالت کی کرسی پر بیٹھے ناہنجار عناصر کو اپنے جذبات سے آگاہ کرنے میں مزید کسی خوف و تذبذب سے کام نہ لیں؛ ہمارا پہلا رویہ اگلی کسی ایسی مذہبی نا انصافی کی راہ ہموار کرسکتا ہے جو دینی لحاظ سے ہمارے لیے اس سے بھی زہادہ ناقابل قبول اور اذیت ناک ہو جب کہ دوسرا رویہ اس نا انصافی کے خلاف مردانہ وار مزاحمت کا ہےجو طاغوت کی رفتار دھیمی کرنے میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ ان حالات میں حکومتی و عدالتی فیصلوں سے زیادہ قوموں کا اپنا فیصلہ ان کے لیے زیادہ اہم ثابت ہوتا ہے۔ آپ کا اپنا فیصلہ کیا ہے یہ آپ کو طے کرنا ہے۔ آپ کا فیصلہ جو بھی ہو لیکن مسلمانوں کے لیے اس حقیقت سے کوئی مفر نہیں کہ ہندوستان کے موجودہ حالات میں دین کے لیے صبر و استقامت ہی نہیں بلکہ اپنے دینی وجود کے تحفظ کے لیے جدوجہد اور مزاحمت اور ظلم و ستم کے خلاف احتجاج و انکار کے راستے پر چلنے میں ہی مسلمانوں کے بقا کی حتمی ضمانت مضمر ہے۔
***
***
جہاں تک اسلامی شریعت سے متصادم اس فیصلے کے خلاف مظاہرہ اور مزاحمت کا معاملہ ہے تو یہ کہنا بالکل بے جا نہیں ہوگا کہ اگر ہمارے کسان بھائی حکومت کے کسان مخالف قوانین کے خلاف سڑک پر آ سکتے ہیں اور ملک کے دوسرے طبقات اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے احتجاج و مظاہرہ کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان آخر اس جمہوری و دستوری حق کے استعمال میں بلا وجہ خوف و تردد کا شکار کیوں ہوں؟ اور آخر وہ اکیلا ہی صبر و تحمل کی ذمہ داریاں یک طرفہ طور سے کب تک ادا کرتا رہے گا۔ ملک کی بدلتی صورت حال میں اس سوال کا جواب کسی اور کو نہیں خود مسلمانوں کو دینا ہے اور یہاں اپنا مستقبل بھی خود انہیں کو طے کرنا ہے۔ سچ یہ ہے کہ دوسروں کی طرح یہاں کا مسلمان بھی اپنے ساتھ ہورہی مذہبی و سماجی نا انصافیوں کے خلاف مزاحمت کا پورا حق رکھتا ہے اور اسے اپنے مذہبی مسلمات کے خلاف عدالت کے ایک انتہائی نامعقول فیصلے کو مسترد کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 تا 02 اپریل 2022