حجاب پر پابندی:مسلمانوں کے خلافبھگوا طاقتوں کی بڑی سازش
لبرل لوگ مظلوم کو ہی قصوروار ٹھہرا کرشرپسندوں کا کام آسان کررہے ہیں
ابھے کمار ، نئی دلی
سرکاری تعلیمی اداروں میں با حجاب طالبات کی آمد پر پابندی کے خلاف معاملہ زیر سماعت ہے۔ کچھ روز پہلے کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ارکان پر مشتمل بینچ نے اپنے عبوری حکم میں کہا ہے کہ حتمی فیصلہ آنے تک کالج کھول دیے جائیں ، وہیں طالبات کو تعلیمی اداروں میں حجاب پہنے کی ضد نہیں کرنی چاہیے۔ آسان لفظوںمیں کہیں تو چیف جسٹس ریتو راج اَوستھی، کرشنا ایس دِکشیت اور زیب النساء قاضی کی بینچ نے بھی طالبات کو راحت دینے کے بجائے ان کو مایوس کیا ہے۔بہت سارے لوگ کورٹ کے عبوری حکم کوبا حجاب طالبات کے حقوق کی معطلی کے مترادف بتلا رہے ہیں۔ قومی دارالحکومت دلّی، سمیت ملک کے مختلف حصوں میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج منظم کیا جا رہا ہے۔ کچھ دنوں پہلے دلی میں واقع جواہر لال نہرو یونیورسٹی، (جے این یو) میں سماجی انصاف اور بائیں بازوں کی تنظیموں سے وابستہ طلبہ نے حجاب پابندی پر اپنی ناراضگی ظاہر کی اور اسے مسلمانوں کے خلاف بھگوا طاقتوں کی ایک نئی سازش بتلایا۔ جے این یو کے ان طلبہ کا کہنا ہے کہ حجاب پر پابندی کی آڑ میں بھگوا طاقتیں مسلم خواتین کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتی ہے اور ساتھ ساتھ اس ایشو کو بھڑکا کر مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنا چاہتی ہیں۔میڈیا کی مدد سے بھگوا طاقتوں نے مسلمانوں کو ملک کی ترقی میں رکاوٹ اور آئینی اصول مساوات ، سیکولرازم اورحقوق نسواں کا دشمن کہہ کر بدنام کیا ہے، وہیں دوسری طرف ان کو توہم پرستی، دقیا نوسی اور مذہبی شدت پسندی کے پیروکار کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایسا وہ دانستہ طور پر کرتے ہیں تاکہ مسلمان اپنی ترقی کے بارے میں نہ سوچ پائیں اور ان کی پوری توانائی خود کی زندگی بچانے اور خود کی صفائی دینے میں برباد ہو جائے۔ چاہے مسئلہ تین طلاق کا ہو یا پھر حجاب کا ، بھگوا طاقتوں کا اصل مقصد سماج میں اصلاح کرنا کم اور مسلم اقلیت کو مین اسٹریم سے مزید الگ تھلگ کرنا ہے اور ان کے نوجوانوں کے اندر احساس پستی اور کمتری کے خیالات کو بھر دینا ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں ان دنوں حجاب پر تنازعہ ہندوستان کی جنوبی ریاست کرناٹک میں کھڑا کیا گیا ہے، جہاں بھگوا طاقتیں بر سر اقتدار ہیں ۔ یاد رہے کہ کچھ دنوں پہلے کرناٹک انتظامیہ نے با حجاب مسلم طالبات کو کلاس روم میں داخل ہونے سے روک دیا ہے، جس کے خلاف زبردست احتجاج ہو رہا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ ملک کی کئی سیکولر اور سماجی انصاف کی پارٹیوں نے مظاہرین کی حمایت کی ہے۔ مگر بھگوا سرکار نے اپنے فیصلہ کو واپس لینے کے بجائے اس معاملے پر انتہائی افسوسناک بیان دیا ہے کہ ایسے کپڑے جو مساوات ، ملک کی سالمیت اور نظم و ضبط کو تباہ کرتے ہیں انہیں کلاس روم میں پہننے کی اجازت نہیں دی جائےگی اورایسی پابندی شہریوں کے مذہبی آزادی کے خلاف بھی نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے بھگوا حکومت نے کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ ۱۹۸۳ کا بھی سہارا لیا ہے اور کہا ہے کہ کالج کے ذریعہ طے شدہ لباس کو پہننا طلبہ اور طالبات پر لازم ہے۔
حجاب پر اچانک سے پابندی لگانے کے پیچھے بھگوا طاقتوں کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح سے سماج کے اندر میں ہندو مسلمان کا کھیل کھیلا جائے تاکہ ان کو اس کا فائدہ انتخابات میں ملے۔ بھگوا طاقتوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ روٹی کی مار اس ملک کے ہندوٴں اور مسلمانوں دونوں کو جھیلنی پڑ رہی ہے۔ لوگ روزی روٹی اور صحت عامہ کی بات نہ کریں اور وہ دھرم کے نام پر ایک دوسرے سے لڑنے لگیں، ایسا ہی کچھ مقصد بی جے پی کا ہے اس لیے اس نے بڑی سوچی سمجھی سازش کے تحت اس ایشو کو الیکشن سے عین قبل اُٹھایا ہے۔ بہت سارے جہدکاروں اور اسکالرز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حجاب پر پابندی کا موجودہ سیاق اُتر پردیش اور پنجاب سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے اہم اسمبلی انتخابات ہے۔ اپنے ماسٹر اسٹروک کو بی جے پی پھر کھیل رہی ہے اور ایک بار پھر مخالف لہر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حجاب پر پابندی سے بھگوا طاقتوں کو وقتی فائدہ یہ مل سکتا ہے کہ اس طرح کے تنازعات رائے عامہ کی سمت کو بنیادی سوال سے ہٹا کر مذہبی اور جذباتی مسائل کی طرف کر دیتے ہیں۔ بھگوا طاقتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ دن رات دھرم اور مذہب پر بات ہو اور لوگ خود کو اپنے مذہبی تشخص سےباہر نہ دیکھیں ۔ ملک کی اقتصادی پالیسی کس سمت میں جا رہی ہے، لوگوں کو روزگار اور صحت عامہ کی سہولت کس حد تک مل پا رہی ہے، نوجوان کیسی تعلیم پار ہے ہیں، ان سارے سوالوں سے بھگوا سیاسی جماعت ہمیشہ سے بھاگتی رہی ہے ۔ کورونا وبا کے دوران بھی جب ساری دنیا بیماری سے لڑ رہی تھی اور غریب اور مزدوروں کو مدد پہنچائی جا رہی تھی، تب بھی بر سر اقتدار بھگوا جماعتوں نے کورونا کا مذہب ڈھونڈنکالا اور اس کے پھیلاوٴ کے لیے تبلیغی جماعت اور مسلمان کو بلی کا بکرا بنایا ۔ سرکار کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے، مسلمانوں کو گالی دی گئی اور ان کا معاشی بائیکاٹ تک کیا گیا۔ بہت سارے مسلمانوں کو جیل تک بھیجا گیا۔کچھ ایسا ہی گیم پلان اس بار حجاب کے تنازعہ میں بھی نظر آرہا ہے۔
ایسی باتیں کہہ کر بھگوا حکومت عدالت اور پبلک کے سامنے خود کو قانون کے راستہ پر چلنے والی سرکار بتلانا چاہتی ہے۔ مگر اس کا اصل مقصد مسلمانوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکنا ، ان کو پسماندہ اور مذہبی شدت پسندقرار دینا ہے اور خود کو آئین کا محافظ اور مساوات اور خواتین کےحقوق کا چیمپین بتانا ہے۔ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ حجاب پر پابنددی لگانے کا یہ فیصلہ نہ صرف مسلم خواتین بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی خطرناک ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی بھگوا حکومت کر رہی ہے، ویسی نفرت انگیز اور مسلم مخالف پالیسی یوروپ اور دنیا کے دیگر حصوں کی دائیں بازو حکومتوں نے پہلے ہی اپنا لی ہے اور اس طرح سے انہوں نے سماج کے اندر میں کشیدگی پیدا کی ہے۔ سرکار کو یہ کہتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی زبان کانپتی ہے کہ کیسے کوئی پوشاک نظم و ضبط کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے؟ کیا سرکار نے کوئی تحقیق کی ہے جس کی بنیاد پر وہ کہہ سکتی ہے کہ حجاب پہننے والیاں جرائم پیشہ ہوتی ہیں اور بھگوا چولا پہننے والے نہ تو کسی مذہبی مقام کو مسمار کر سکتے ہیں، نہ ہ کسی فسادات میں حصہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی وہ بم دھماکہ میں شامل ہوسکتے ہیں؟
پہلے بھی دیکھا گیا کہ سماجی اصلاح اور حقوق نسواں کے بہانے بی جے پی نے مسلم سماج کی تذلیل کی ہے ۔ ایسا کر تے ہوئے وہ اپنے شدت پسند پیروکاروں کو یہ بھی یقین دلا تی ہے کہ ان کی مسلم مخالف سیاست کی آگ کی لپٹیں اور تیز ہو رہی ہیں۔
دراصل حقوق نسواں کے نام پر اقلیتی سماج کے زخموں پر نمک چھڑکنا، بھگوا طاقتوں کا بنیادی ایجنڈا رہا ہے۔ انہوں نے مسلم پرسنل لاء کے اندر مسلم خواتین کی مبینہ ’’نا برابری اور استحصال‘‘ کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیاہے۔اسی فرقہ وارانہ سیاست کے تحت بی جے پی نے جہاں خود کو مسلم خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا ‘خیر خواہ کہا ہے، وہیں ملت کے اندر اثر و رسوخ رکھنے والی مسلم قیادت اور کانگریس جیسی حریف سیاسی جماعت کو مسلم خواتین کے حقوق کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
جس طرح بی جے پی مسلم خواتین کی ’مظلوم‘ شبیہ کو ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے وہ ہمیں استعماری طاقتوں کی یاد دلاتی ہے۔تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں استعماری یا پھر خارجی طاقتوں نے اپنی مداخلت اور اپنے تسلط کو جائز قرار دینے کے لیے محکوم قوموں کی عورتوں کی ’بد حالی‘ کا بہانا بنایا تھا ور خود کو ان کا محافظ اور نجات دہندہ قرار دیا تھا۔ ایسا ہی کچھ ہمیں انگریزوں کے دور حکومت میں اپنے ملک میں بھی دیکھنے کو ملا تھا جب ہندوستانی خواتین کی مظلومیت کو ایک اہم سبب بتاکر ہندوستانیوں کو غیر مہذب کہا گیا اور یہ بیانیہ فرنگیوں کی حکومت سازی اور اس کے استحکام کا ایک قطب بنی۔ سماج کے برے رسم و رواج کی اصلاح کے نام پر فرنگیوں نے دیس کا مال لوٹا۔مگر اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ میں ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے وقت یہاں کی خواتین کے تشویشناک حالات کا انکار کر رہا ہوں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خواتین سماج میں نا برابری کا شکار تھیں، ان میں تعلیم کی شرح بہت کم تھی۔ بچپن کی شادی اور ستی پرتھا جیسی غیر انسانی رسومات ان کو جکڑی ہوئی تھیں۔ مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ اپنے سماج کی اصلاح کی ذمہ داری ہم ایسی طاقتوں کے ہاتھوں میں دے دیں ،جن کا صل مقصد لوگوں میں پھوٹ ڈالنا اور راج کرنا ہے۔مختصراً کوئی بھی اصلاح کسی سماج پر اوپر سے نہیں تھوپی جا سکتی ہے۔
کچھ ایسا ہی حال کی دہائیوں میں افغانستان میں دیکھنے کو ملا، جب مظلوم افعان خواتین کے نام پر امریکا نے وہاں مداخلت کی اور اس ملک کو تباہی کے دہانے پر لا چھوڑا۔اسی استعماری سازش کے تحت افغان خواتین کی یہ شبیہ بنائی گئی کہ وہ اپنے ہی معاشرہ میں اپنے ہی مردوں کے ہاتھوں ظلم و بربریت کا شکار ہو رہی ہیں اور ان کی نجات مغرب ، بالخصوص امریکا سے ہی ممکن ہوگی۔یہاں پھر یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان میں خواتین کے حالات اس دور میں بہت خراب تھے۔ مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خارجی طاقتوں کا اصل مقصد وہاں کی خواتین کو ان کی بدحالی اور غربت سے نکالنا نہیں بلکہ اس ملک سے اپنے اسٹریٹجک مفاد کو پورا کرنا تھا۔
تین طلاق کے کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی مقصد بھگوا طاقتوں کا بھی نظر آیا۔ ظاہری طور پر وہ مسلم خواتین کی رہنمائی کا تماشہ کر رہی ہیں، اس کا اصل مقصد اپنے شدت پسند ووٹ بینک کو خوش کرنا ہے۔ مگر اس کا جو بڑا مقصد ہے وہ یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء کو بدنام کیا جائے اور اس کی جگہ یکساں سول کوڈ لایا جائے لوک سبھا میں گزشتہ ۲۷ دسمبر۲۰۱۸ کو پاس ہونے والے مسلم خواتین کی شادی کے حقوق سے متعلق تحفظ بل، پر نظر ڈالیں تو اس میں خامیاں ہی خامیاں نظر آ رہی ہیں، اس بل کا مقصد مسلم خواتین کو ’ایمپاور‘ کرنا کم اور ان کے شوہروں کو جیلوں میں ٹھونسنا زیادہ نظر آ رہا ہے۔ اگر شوہر جیل میں جائیں تو متاثرہ خواتین اور ان کے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری پر یہ بل خاموش ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ مسلم خواتین کے لیے ان کے خود ساختہ ‘بھیّا مودی جی نے سول معاملے کو فوجداری بنا دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تین طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا بھی مقرر کر دی ہے۔ طلاق کے لیے اتنی سخت سزا کسی بھی دیگر پرسنل لاء میں نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ اس پورے معاملے میں متاثرہ خواتین کی فلا ح و بہبود کے لیے وہ ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کررہے ہیں۔ بی جے پی طلاق کے مسئلہ پر بے حد فعال و سرگرم تورہتی ہے مگر اپنی توانائی کا ایک دہائی حصہ بھی مسلم خواتین کوصحت ،تعلیم ، روزگار اور سیاسی نمائندگی کے مواقع فراہم کرنے کے لیےصرف نہیں کیا ہے۔
بھگوا طاقتوں کی مسلم مخالف پالیسی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ بری طرح سے اسلامو فوبیا کا شکار ہیں۔اسے اسلامو فوبیا نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ بھگوا طاقتوں کو صرف مسلم خواتین ہی مظلوم اور پسماندہ دکھائی دیتی ہیں ، جبکہ اسے ذات پات ، نا برابری، بچپن کی شادی ، جہیز ، اور بیوا ؤںکی بدحالی جیسے مسائل ہندو سماج میں دکھائی نہیں دیتے ۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہےکہ مسلم سماج کے اندر اصلاح کی ضرورت نہیں ہے، مگر کسی اصلاحی کام کو فرقہ پرستی کے رنگ میں رنگنا بھی تو درست نہیں ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کو ایسا لگتا ہےکہ اسلام اور مسلم سماج پسماندگی اور دقیا نوسیت کا دوسرا نام ہے۔ کئی بار یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلم سماج میں اصلاح نہیں ہوئی ہے، جبکہ دوسرا سماج وقت کے ساتھ بدل رہا ہے۔مسلم سماج جمود کا شکار ہے، یہی بات اسلامو فوبیا کا خلاصہ ہے۔وہ قدیم زمانہ میں رکا ہوا ہے اور جدیدیت سے میلوں پیچھے ہیں۔یہ بھی اسلامو فوبیا پروپگنڈا کا حصہ ہے کہ مسلم سماج سائنس اور عقل کی جگہ توہم پرستی اور جہالت میں غرق ہے۔یہ اسی بائینری کا حصہ ہے ۔
بھگوا طاقتوں کا طویل مدتی منصوبہ یہ ہے کہ حجاب کی آڑ میں مسلم طالبات کو ناخواندگی کے کنوئیں میں دھکیل دیا جائے اور مظلوم اقلیت پر ہی شدت پسند اور خواتین مخالف ہونے کے بیانیہ کو مزید طاقت دی جائے۔ مگر سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لبرل اور حقوق نسواں کے پاسبان اس پورےکھیل کو یا تو سمجھ نہیں رہے ہیں یا دانستہ طور پر سمجھنا نہیں چاہتے اور کئی بار مظلوم کو ہی قصوروار ٹھہرا کر بھگوا طاقتوں کا کام آسان بنا رہے ہیں۔ حجاب پر پابندی لگا نے کے پیچھے ایک بڑی سازش یہ ہے کہ پہلے سے ہی تعلیمی طور پر پسماندہ مسلم خواتین کومزید تعلیمی کے میدان میں پیچھے دھکیلا جائے۔ اصول اور عمل میں بھگوا طاقتیں یہ کبھی بھی نہیں چاہتیں کہ پسماندہ اور اقلیت طبقات کے افراد تعلیم یافتہ ہوں۔ ان کو ڈر ہےکہ اگر محکوم اور مظلوم پڑھ لکھ جائیں گے تو وہ ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز بلند کریں گے اور اس طرح غیر برابری اور استحصال پرمبنی ذات پات کا یہ نظام ٹوٹ جائے گا اور اس کے مالک بنے ہوئے چند مٹھی بھر لوگوں کی ظلم و زیادتیاں بند ہو جائیں گی ۔ اعلیٰ طبقات کے اسی نظام نے صدیوں سے دلت، آدی واسی، پسماندہ اور خواتین کو تعلیم سے دور رکھا ۔ جیوتی با پھُلے اور بابا صاحب امبیڈکر ان باتوں کو سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا ۔ ان کی قربانیوں کی بدولت آزاد ملک کی درسگاہوں کو سب کے لیے کھول دیا گیا ۔ اس وقت بھی اور آج بھی بھگوا طاقتیں یہ نہیں چاہتیںکہ محکوم طبقات تعلیم حاصل کریں ۔حجاب پر پابندی لگا کر بھگوا حکومت مسلم طالبات کو اَن پڑھ رکھنا چاہتی ہیں، کیونکہ ان بہادر خواتین نے شہریت ترمیمی قانون کے دوران یہ دکھلا دیا تھا کہ عورتیں تحریک کی قیادت کرنا بھی جانتی ہیں۔ یاد رکھیے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور کالجوں نے پہلے ہی اپنے کیمپس کے باہر موٹی فیس کی اونچی دیواریں کھڑی کرکے محکوم طبقات کو تعلیم سے محروم کردیا ہے اور جو مسلم خواتین سرکاری تعلیمی اداروں میں کسی طرح پڑھ لیتی تھیں ، اب یہاں بھی ان کو باہر کرنے کا ماسٹر پلان تیار کر لیا گیا ہے۔
جہاں ایک طرف بھگوا طاقتیں حجاب پر پابندی لگا کر اپنی مسلم مخالف سیاست کو آگے بڑھا نا چاہتی ہیں، وہیں کچھ لبرل اسکالر اور اکٹویسٹ بھی حجاب کے خلاف بیان دے کر بھگوا سیاسی جماعت کےبیانیہ کو تقویت فراہم کر رہے ہیں۔ان لبرل لوگوں کی پریشانی یہ ہے کہ وہ ریاست اور سماج کو زمین پر دیکھنے کے بجائے کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں ایک سیکولر آئین ہے اور یہاں کے شہریوں کو مذہب کی آزادی اور اقلیتی حقوق دیے گئے ہیں۔ مگر اچھا قانون بن جانا اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ سماج میں سب کو انصاف مل جائےگا ۔ اگر قانون کو نافذ کرنے والے لوگوں کے دلوں میں کھوٹ ہو اور محکوم طبقات کو اقتدار سے باہر رکھا جائے تو سماج میں ظلم کا سلسلہ نہیں رک پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے سماج، معیشت اور سیاست میں اکثریتی سماج کا ہی تسلط قائم ہے۔ جب بھگوا طاقتیں اقتدار پر قابض ہو جاتی ہیں تو یہ تسلط صاف طور سے ہر جگہ دکھائی دینے نے لگتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا لیڈر کورونا وباکی ساری احتیاط کو طاق پر رکھ کر ایودھیا میں مندر کے سنگ بنیاد کے موقع پر پوجا پر بیٹھ جاتا ہے ، مگر ملک کے ٹی وی چینل اسے سیکولرازم کی پامالی نہیں بلکہ ملک کو مضبوط کرنے والا قدم بتاتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں پروگرام کی شروعات پوجا پاٹھ اور دیپ جلا کرجاتی ہے، ان سب کاموں کو جائز کہا جاتا ہے۔اتنا ہی نہیں ان موقعوں پر سنگھ پَرچارک سرکاری مہمان ہوتے ہیں اور و ہ اپنی تقریر میں بھارت کی تمام برائی کے لیے مغلوں اور مسلمانوں کوکوستے ہیں ، مگر اس پر کوئی نوٹس نہیں لیتا ۔ وہیں دوسری طرف با حجاب خواتین کو مجرم سمجھ کر درس گاہوں میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ یہ پابندی سرکار کی بیٹی بچا وٴ اور بیٹی پڑھاوٴ کی حقیقت کو بھی بیان کرتی ہے۔ اس بڑی سازش سے لڑنا ہی ہوگا ۔ظلم کے خلاف مزاحمت ہی تو زندہ ہونے کی علامت ہے۔
(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔)
***
***
بھگوا طاقتوں کا طویل مدتی منصوبہ یہ ہے کہ حجاب کی آڑ میں مسلم طالبات کو ناخواندگی کے کنوئیں میں دھکیل دیا جائے اور مظلوم اقلیت پر ہی شدت پسند اور خواتین مخالف ہونے کے بیانیہ کو مزید طاقت دی جائے۔ مگر سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لبرل اور حقوق نسواں کے پاسبان اس پورےکھیل کو یا تو سمجھ نہیں رہے ہیں یا دانستہ طور پر سمجھنا نہیں چاہتے اور کئی بار مظلوم کو ہی قصوروار ٹھہرا کر بھگوا طاقتوں کا کام آسان بنا رہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022