حجابو فوبیا کا بڑھتا رجحان‘ایک المیہ
کرئیرپر عقیدے اور دینی تشخص کوترجیح دینے والی بہنوں کو سلام
مجتبیٰ فاروق ،حیدر آباد
یورپ اور مغرب میں ہر جگہ حجاب کو تہذیب دشمن عنصر کے طور پر جانا جاتا ہے وہاں حجاب کو دقیانوسی ،زمانہ جاہلیت اور تنگ نظری کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے ۔اسی لیے یوروپ کے کئی ممالک میں برقعہ اور حجاب پر پابندی عائد ہے ان ممالک میں اب دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کو برداشت کرنے کی قو ت ختم ہوتی جارہی ہے مذہبی آزادی کا جو نعرہ لگایا جاتا ہے اس آزادی کا استحصال کرنے والے بھی وہی لوگ ہیں ۔ آج کئی ممالک میں نہ صر ف اسلام اور پیغمبر اسلامؐ بلکہ مساجد ،اسلامی مراکز، لباس اور حجاب کو نشانہ بنا یا جارہا ہے۔ آسٹر یلیا سے لے کر ار جنٹا ئن تک اور فرانس سے لے کر سویزر لینڈ تک مسلمانوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے ،انہیں راہ چلتے نہ صرف طنز کا نشانہ بننا پڑتا ہے بلکہ ہر طر ح کی مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے نیز روز مرہ کے کام ،سفر کے دوران اور دفاتر میں ان کے ساتھ حقارت آمیز سلوک ، اسلام کی حقیقی تصویر کو بگاڑنا،مسلما نوں کو بد نام کرنا ،انہیں جاہل اور خوفناک روپ میں پیش کرنا،اور انہیں ذہنی و جسمانی طور سے پر یشان کرنا،تشددکا نشانہ بنانا،مساجد اور اسلامی شعائر پر حملے کرنا،مسلمانوں کے مخصوص لباس پر طعنے کسنا اور ان کے تہذیبی تشخص اور جائز اور بنیادی حقوق سے محروم کرنا وغیرہ اسلامو فوبیا کی مختلف شکلیں ہیں۔حجاب بھی اسی فوبیا کی زد میں ہے۔ زیادہ تر مسلم خواتین حجاب اور بر قعہ پہننے کی وجہ سے اسلامو فوبیا کی شکار ہوتی ہیں۔مسلمانوں اورمساجد پر نظر رکھنے والی ہیلپ لائن’’ ٹیل ماما‘‘ کے مطابق مسلم خواتین حجاب میں ہونے کی وجہ سے نفرت پر مبنی حملوں کی شکار ہو رہی ہیں۔برطانیہ میں نسلی حملوں کی شکار زیادہ تر مسلم خواتین اور لڑکیوں نے روایتی اسلامی لباس پہن رکھے تھے ۔ان خواتین پر زیادہ تر حملے بس،ٹرین اور عوامی مقامات پر کیے گئے۔نومبر ۲۰۱۵ میں پیرس میں حملے کے بعد صرف ۱۰ دنوں میں ۳۴ خواتین اور بچیوں کو حجاب پہننے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔اس طرح سے سو یزر لینڈ میں خواتین کو برقعہ اور نقاب پہنے پر پابندی عائد کی گئی اس قانون کی خلاف ورزی کر نے پر ۶۵۰۰ کا جُر مانہ عائد کیا گیا۔یورپ میں میں ہر جگہ حجاب کو تہذیب کا دشمن اور تنگ نظری کی علامت ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ مسلم خواتین کی کھلے عام سڑکوں، چوراہوں اور اسٹیشنوں پر تذلیل کی جاتی ہے ۔ اس طرح کے واقعات مغرب اور یورپ میں ہر جگہ رونماء ہوتے ہیں ۔نیدر لینڈ یورپ کا پہلا ملک ہے جہاں برقعہ استعمال کرنے پر پابندی عائد کی گئی اور اس کا نفاذ ۲۰۰۵ ء میں ہوا ۔اس کے بعد بلجیم نے بھی برقعہ اورحجاب پر پابندی عائد کر دی ۔ ان کی دیکھا دیکھی آسٹریا اور ڈنمارک نے بھی حجاب اور برقعہ کو اپنے ملک کے لیے خطرہ قرار دیا ہے ۔ ۲۰۰۰ ء سے فرانس مسلسل حجاب کے خلاف زہر اگل رہا ہے اور ۲۰۰۴ء میں اس نے باضابطہ اس کے خلاف قانون منظورکیا ۔پورپ کے کئی ممالک میں حجاب کو جلایا بھی گیا اور پاؤں تلے روندا بھی گیا ۔مغربی مفکرین اور صحافی اس کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں ۔ مثلاًمارکس کروگر نام کا ایک صحافی کہتا ہے کہ
"The headscarf is a symbol of the fact that women in islam are second class citizens and that this status is encoded in both sacred text and tradition ,enforced by law and culture”
فیمنسٹ کارکن اسرا نومانی نے حجاب پہنے کے رجحان کو سیاسی اسلام سے تعبیر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ
"This modern-day movement spreads an ideology of political Islam.”
ایک دانشور نے بغیرکسی تحقیق کے یہ بات کہی ہےکہ حجاب لوگوں میں غلط فہمی پھیلا رہا ہے ۔وہ مزید لکھتے ہیں
"Well-financed effort by conservative Muslims to dominate modern Muslim societies”
ایک ہندو رہنما پرمود متالک نے کہا کہ:
’’ حجاب پہننے کی ضد ، وردی کو نظر انداز کرنا ، انتہا پسند ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے اور ایسے طالبات کو اسکول سے باہر کردینا چاہیے ۔‘‘
گزشتہ کئی سال سے حجاب کے تعلق سے ہندوستان میں منفی رجحان سامنے آرہا ہے ۔دو سال قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ امیہ خان حجاب کی بدولت ہی یو۔جی۔ سی کا نیٹ امتحان دینے سے محروم رہ گئیں۔ امتحان ہال میں بیٹھنے سے پہلے انہیں حجاب اتارنے کے لیے کہا گیا ۔انہوں نے حجاب اتارنے سے صاف انکار کردیا تھا ۔اسی طرح کا ایک اور حادثہ گوا میں بھی پیش آیا ۔وہاں بھی ایک لڑکی سے حجاب اتارنے کے لیے کہا گیا جس کا انکار کر کے وہ بھی امتحان نہیں دے سکیں ۔حجاب اتارنے سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میرے سامنے سوال یہ تھا کہ میں امتحان اور اسلامی عقیدے میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں لہذا میں نے عقیدے کوچنا ہے ‘‘اب اسی طرح کا واقعہ چند دن قبل جنوبی ریاست کرناٹک کے ایک اسکول میں پیش آیا جہاں مسلم لڑکیوں کو اسکول انتظامیہ نے حجاب کی اجازت نہیں دی جس پر طالبات نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے کہا:
’’کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم سے حجاب کو چھین لے، حجاب پہننا ہمارا حق ہے‘‘ہماری یہ تمام بہنیں مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے کیرئیر کے بجائے اپنے مذہب اوردینی تشخص کو ترجیح دی ہے۔
حجاب کوئی مسلمان لڑکی زبردستی نہیں پہنتی بلکہ یہ مذہب سے محبت اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت اور اطمینان کے لیے پہنا جاتاہے ۔حجاب کوئی رسم یا فیشن نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی مذہب یا تہذیب کے خلاف اعلان جنگ کا نام ہے ۔حجاب خواتین کے لیے شرم و حیا کی ضمانت اور بقائے عفت کا ذریعہ بھی ہے۔اس کا مقصود صرف عورت کی جسمانی ساخت کو ڈھانپنا ہی نہیں ہے بلکہ یہ خواتین کو بیمار ذہنیت رکھنے والے مردوں کی بد نگاہی اور چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھنے کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے ۔ اسلام نے عورت کو تہذیبی ، معاشی ، تعلیمی اور معاشرتی حقوق عطا کیے ہیں ۔ اس نے عورتوں پر وہ احسان کیا جس کی دنیا کے کسی بھی نظریہ ، تہذیب اور مذہب میں مثال نہیں ملتی ۔ اس نے مردوں اور عورتوں پر وہ تمام احسانات کیےہیں جن کی بدولت گھر گرہستی کی گاڑی مضبوط ہوئی ۔اسلام نے عورتوں کے نہ صرف حقوق متعین کیے ہیں بلکہ ان کے تشخص کو بلندی بخشی ،ان کو ملک وملت اور قوم و معاشرے کے لیے مرد کا معاون قرار دیا ۔اسلام نے عورت کو پردہ جیسی عظیم نعمت سے بھی نوازا ۔اسی پردے اور حجاب میں اس کی حقیقی زیب و زینت کا اظہار ہوتا ہے ۔ حجاب ایک عورت کو اس کا صحیح تشخص فراہم کرتا ہے ۔حجاب عورت کو تمام فاسد عناصر اور گندے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے ۔ جبکہ ننگا پن یا بے حجابی عزت یا ترقی کی علامت نہیں ہے بلکہ تنزلی کی علامت ہے ۔نیز یہ اخلاقی فساد ، سماجی بگاڑ اور غیرت و حمیت کی نیلامی کا مظہرہے ۔ننگا پن اور بے حجابی قدامت پسندی اور پہلی صدی کی علامت ہے ۔ ننگا پن اگر ترقی کی علامت ہے تب تو جانور انسانوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں ۔ڈاکٹر توکل کرمان لکھتی ہیں ’’ ابتدائی زمانہ میں انسان تقریبا َبرہنہ زندگی گزارتا تھا ،جیسے جیسے اس کے فہم دو دانش میں اضافہ ہوتا گیا ، اس نے لباس پہنناشروع کیا ۔ حجاب مسلمان خاتون کی وسعت اور اسلامی فکر و تہذیب کی ان اعلی اقدار کو ظاہر کرتا ہے جنہیں انسان نے حاصل کیا ہے ۔عورت کا حجاب کسی زوال کی علامت نہیں بلکہ عروج کی علامت ہے جب کہ عریانیت برہنگی اور بے حیائی تنزلی کی علامت ہے‘‘۔
آج کے حالات میں ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنی ماں ، بہن بیٹی کی تعظیم اور تکریم میں اور حیا باختہ زمانے کی بد نگاہی سے انہیں بچانے کے لیے حجاب کی پاکیزگیاں عام کرنے کا بیڑا اٹھائیں گے بالکل اسی طرح جیسے مشرق و مغرب میں ملت کی بیٹیاں اور بہنیں تمام خطرات ، خدشات اور شبہات کو نظر انداز کر کے مشکل ترین حالات میں بھی حجاب کو بدرجہ عبادت اختیار کرلیتی ہیں تاکہ وہ سماج میں شو پیس نہیں بلکہ معلم اخلاق اور زینت دہر کی حیثیت سے اپنے وجود کی انفرادیت کو منوائیں ۔
***
***
’’کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم سے حجاب کو چھین لے، حجاب پہننا ہمارا حق ہے‘‘ہماری یہ تمام بہنیں مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے کیرئیر کے بجائے اپنے مذہب اوردینی تشخص کو ترجیح دی ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 فروری تا 19فروری 2022