جگن موہن ریڈی بمقابلہ عدلیہ

سنگین الزامات کو گپ بازی کہہ کر مسترد نہیں کی جاسکتا

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

 

آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے گزشتہ مئی میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک تقریباً 100احکامات کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش وائی ایس جگن موہن ریڈی اور عدالت عظمیٰ کے جسٹس این وی رمنا اور ہائی کورٹ کے ججوں کے درمیان جاری رسہ کشی میں صرف اسی ایک قانونی الجھن کا سامنا نہیں ہے بلکہ اور بھی بہت ساری پیچیدگیاں ہیں جن کا ان کی حکومت کو سامنا ہے۔جگن موہن ریڈی کی قیادت میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی حکومت بننے کے گزشتہ سولہ مہینوں کے دوران ریاستی حکومت نے جو فیصلے کیے ہیں ان فیصلوں میں سے تقریباً سو سے زیادہ احکام صادر کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیا ہے۔ ان فیصلوں میں وہ حالیہ فیصلہ بھی شامل ہے جس میں جگن موہن ریڈی حکومت نے سابقہ ٹی ڈی پی حکومت کے دور میں دارالحکومت امراوتی کی تعمیر کے سلسلے میں کیے گئے اراضی معاملوں کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن حکومت کے اس فیصلے پر بھی ہائی کورٹ نے روک لگا دی ہے۔ جگن موہن ریڈی حکومت کا ماننا ہے کہ ان معاملات میں مبینہ طور پر بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔
اس روک پر جگن موہن ریڈی نے راست طور پر عدلیہ کو مورد الزام ٹھہرایا اور چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے کو ایک سنسی خیز خط لکھتے ہوئے جسٹس رمنا کے خلاف بدعنوانی، رشوت ستانی اور متعصب ہونے کا الزام لگا دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ جسٹس رمنا اور سابق سی ایم چندرا بابو نائیڈو نے مل کر ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی تھی۔ اس خط میں انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ جسٹس رمنا مبینہ طور پر ٹی ڈی پی حکومت کی بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو سے قربت کی وجہ سے وہ ٹی ڈی پی کا تحفظ کر رہے ہیں اور ریاست میں عدالتی عمل کو متاثر کر رہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے اس خط کو عام کر دیا۔
جگن موہن ریڈی کا تین دارالحکومتوں کا منصوبہ جس میں شہر کرنول کو عدالتی دارالحکومت، وشاکھاپٹنم کو محکمہ جاتی (Revenue) دارالحکومت اور امراوتی کو قانون سازی کا دارالحکومت بنانا شامل ہے۔ عدالت نے اس پر بھی روک لگادی۔ ہائی کورٹ میں تقریباً 90 درخواستیں ہیں جن میں ریاستی حکومت کے تین دار الحکومتوں کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے اور عدالت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس فیصلے پر روک لگائے۔ ان درخواست گزاروں میں کئی کسان انجمنیں اور کچھ تلگودیشم رہنما بھی شامل ہیں۔
ایک اور مسئلہ میں بھی ہائی کورٹ نے موجودہ حکومت کے فیصلہ پر روک لگاتے ہوئے این رمیش کمار کو ریاستی الیکشن کمشنر کی حیثیت سے بحال کرنے کی ہدایت کی۔ بعد میں حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس پر سپریم کورٹ نے حکومتی فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹ کی ہدایت کو برقرار رکھا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جگن موہن ریڈی سابقہ حکومت کے تقرر کردہ کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کو برقرار رکھنا نہیں چاہتے۔ ان کا اور ان کی پارٹی کا خیال ہے کہ یہ سارے کے سارے چندرا بابو نائیڈو کے طرف دار ہیں۔ این رمیش کمار نے کوویڈ۔19کا حوالہ دیتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جگن موہن ریڈی چاہتے تھے کہ بلدیاتی انتخابات فوری طور پر منعقد ہوجائیں۔ اسی طرح ریاستی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے یہ طے کیا تھا کہ تمام ہی سرکاری اسکولوں میں جماعت اول تا ششم انگریزی ذریعہ تعلیم کو لازم کردیا جائے۔ اس حکم نامہ کو بھی ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا۔ عدالت نے ریاستی حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی اور متعدد دفعات کی خلاف ورزی کرنے والا فیصلہ قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ ریاستی حکومت کے اس فیصلے سے قانون حقِ تعلیم کی بھی کھلی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن اسے وہاں بھی راحت نہیں مل سکی کیونکہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے سے انکار کردیا۔
جسٹس این وی رمنا نے ججوں پر بہتان تراشی کو گپ بازی سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس طرح کی بے سر وپا باتوں کو سوشل میڈیا پر پھیلانا اور اسے عام کرنا قابلِ مذمت حرکت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’چونکہ جج اپنا دفاع کرنے اور اپنی مدافعت میں کچھ کہنے سے اپنے آپ کو روکتے ہیں اس لیے لوگ انہیں آسانی سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں لقمہ تر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ججوں کے خلاف حملوں میں اچانک اضافے اور ان پر الزام تراشیوں کو عام کرنے میں سوشل میڈیا کا بڑا عمل دخل ہے۔
جسٹس رمنا نے کہا کہ عام طور پر لوگوں میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جج اپنے گھروں میں عیش و آرام کی زندگی گزارتے ہیں۔ ’’میرے اپنے تجربے کے مطابق جج کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے حقیقت لوگوں کے سمجھنے سے بالکل مختلف ہے۔ ہم میں سے کئی بہترین جج ہیں جو پابندیوں اور تعلقات کے مابین پھنس ہوئے ہیں پھر بھی ہم تنقید کے نرم اہداف بن چکے ہیں اور ہمارے یہ مسائل سوشل میڈیا اور ٹکنالوجی کے پھیلاؤ کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں‘‘۔
جسٹس رمنا ریٹائرڈ جج جسٹس آر بھانومتی کی کتاب ’’عدلیہ، جج اور انتظامیہ‘‘ کی رسم اجرأ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ موجودہ دور میں پیشہ جج کسی دوسرے پیشے کی طرح بے مثال قربانیوں کا تقاضہ کرتا ہے اور اسی لیے ہمیں اس پیشے میں قربانی دینے کی ضرورت بھی ہے کیونکہ ملک کا مستقبل مستحکم اور آزاد عدلیہ پر ہی منحصر ہے‘‘۔
مشہور و سینئر سپریم کورٹ وکیل دوشینت دیوے نے کہا کہ ’’میں خط کے ذریعہ لگائے گئے الزامات کی سچائی یا تصدیق نہیں کرسکتا لیکن یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ایک آئینی اتھارٹی کسی دوسرے اتھارٹی کے خلاف باضابطہ شکایت کرتی ہے جس میں اس طرح کے سنگین الزامات عائد ہوتے ہیں تو اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ جن معاملات میں الزام عائد کیا گیا ہے ان کی بہ آسانی کسی بھی آزاد ادارے کے ذریعہ جانچ کی جاسکتی ہے جس کی تقرری چیف جسٹس کر سکتے ہیں۔ دوم یہ کہ عدلیہ پر یہ واجب ہے کہ قوم کو بتائے کہ عائد کردہ الزامات صحیح ہیں یا غلط‘‘۔
یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کے معاملات میں عدلیہ کا وقار بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ کیا ان تمام کیسیس میں عدالت کے فیصلے صحیح ہیں یا حکومت حق پر ہے؟ اول یہ کہ تکنیکی طور پر جگن موہن ریڈی کا چیف جسٹس کو خط لکھنا اور بعد میں اسے عام کرنا صحیح نہیں تھا۔ جگن موہن ریڈی نے بطور وزیر اعلٰی کی حیثیت سے خط لکھا تھا نہ کہ عام شہری کی حیثیت سے؟ ایک ایسے نظام میں جہاں عدلیہ اور حکومت الگ الگ ادارے ہوں، دونوں کے اختیارات الگ الگ ہوں، ایسی صورت میں انہیں چاہیے تھا کہ وہ گورنر کو خط لکھتے نہ کہ راست طور پر چیف جسٹس آف انڈیا کو؟ گورنر کا اختیار ہے کہ وہ اس خط کو صدر جمہوریہ کو بھیج دیں جنہیں ججوں کی تقرری کا اختیار بھی حاصل ہے۔ صدر جمہوریہ یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا اس خط کو اپنے تبصروں کے لیے چیف جسٹس کو بھیجنا چاہیے یا نہیں؟
دوم یہ کہ خط پریس کو نہیں جاری کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس میں ایک بر سر خدمت جج کے متعلق الزامات ہیں اور جب کوئی جج برسرِ خدمت ہوتا ہے تو اسے خود سے اپنی صفائی دینے کا موقع نہیں ہوتا، اسے میڈیا کو راست مخاطب کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تو جگن موہن ریڈی نے اپنے خط کو میڈیا میں شائع کیوں کروایا؟ جب یہ بات واضح ہے کہ چیف جسٹس خود سے اس کا کوئی تدارک نہیں کرسکتا کیوں کہ خط میں کی جانے والی شکایات اور الزامات سے متعلق فیصلہ کرنے کا چیف جسٹس کو اختیار نہیں ہے۔ پھر اس معاملے کو ان تک لے جانے کی کیا وجہ ہے معلوم نہیں جبکہ اسے عام کرنے کی بھی کوئی توجیہ نظر نہیں آتی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس طرح کے الزامات لگا کر جسٹس رمنا پر دباؤ بنایا جارہا ہو؟ کیوں کہ سپریم کورٹ کی ایک بینچ جس کی سربراہی جسٹس رمنا کر رہے ہیں جو اسمبلی و پارلیمنٹ کے ارکان کے مجرمانہ مقدمات کی سماعت کر رہا ہے۔ اس فہرست میں کئی نامور قانون سازوں کے نام شامل ہیں جس میں جگن موہن ریڈی کا نام بھی ہے۔ کیا الزامات لگانے کی وجہ یہی تو نہیں ہے؟ ایک اور نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ وہ آئندہ کچھ مہینوں میں چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے پر فائز ہونے والے ہیں کیا اس طرح کے الزامات لگا کر انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی ہے ؟
عدلیہ اور ججوں پر الزامات سے نہ صرف ان کی خدمات متاثر ہوں گی بلکہ جمہوریت پر بھی کاری ضرب لگے گی کیوں کہ عدلیہ ہی دستور اور شہریوں کے حقوق کی محافظ ہے۔ آزاد عدلیہ صرف ججوں کا حق ہی نہیں ہے بلکہ یہ عوام کا بھی بنیادی حق ہے کہ عدلیہ آزادانہ طور کام کرے۔ اگر یہ صاف و شفاف طریقے سے کام کرتی ہے تو جمہوریت مضبوط ہوگی اور اگر مضبوط، آزادانہ وخود مختارانہ حیثیت میں کام کرنے میں ناکام ہوتی ہے اور کسی کے دباؤ میں کام کرتی ہے تو ایسی صورت میں جمہوریت بھی نا کام ہو جائے گی اور عوام بھی انصاف سے محروم ہوجائیں گے۔ عدلیہ کی مضبوطی خود عدلیہ کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کس طرح مضبوط کرے۔
***

جگن موہن ریڈی نے راست طور پر عدلیہ کو مورد الزام ٹھہرایا اور چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے کو ایک سنسی خیز خط لکھتے ہوئے جسٹس رمنا کے خلاف بدعنوانی، رشوت ستانی اور متعصب ہونے کا الزام لگا دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ جسٹس رمنا اور سابق سی ایم چندرا بابو نائیڈو نے مل کر ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ جسٹس رمنا مبینہ طور پر ٹی ڈی پی حکومت کی بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو سے قربت کی وجہ سے وہ ٹی ڈی پی کا تحفظ کر رہے ہیں اور ریاست میں عدالتی عمل کو متاثر کر رہے ہیں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020