’جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں‘
’قانون کی حکمرانی اور بے باک صحافت مستحکم جمہوریت کی ضامن‘
( دعو ت نیوز ڈیسک)
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کے بے لاگ تبصرے، حکومت اور جانب دار میڈیا کو دکھایاآئینہ
’’کسی قوم میں قانون کی حکمرانی نہ ہو تو وہاں لا قانونیت اور افراتفری کا راج ہوتا ہے‘‘۔ یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے چیف جسٹس روٹری کلب آف وجئے واڑہ(Chief Justice Rotary Club of Vijayawada) کے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پروگرام میں ’جمہوریت میں قانون کی حکمرانی‘ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ چیف جسٹس کے اس بیان کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب حالیہ چند برسوں میں این ایس اے اور یو اے پی اے کے بے جا استعمال، پولیس اور سیاسی لیڈروں کے قانون کو گھر کی لونڈی سمجھنے، پارلیمنٹ سے بغیر بحث ومباحثہ کے قوانین کو منظور کروالینے اور واپس لینے جیسے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے مزید کہا کہ ’’قانون کی حکمرانی جمہوریت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔اس ملک میں لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں سے تک محروم ہیں اور کئی بیماریوں، بے روزگاری اور دیگر مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں تعلیم دینے، انہیں ان کے حقوق دینے اور ان کے بنیادی مسائل حل کو کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’عام شہریوں کو قانونی نظام کو سمجھانے کی ضرورت ہے، عدالتوں کو قوانین کو ویدوں کی طرح پیش نہیں کرنا چاہیے جو عام شہری کی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں۔ قوانین اور طریقہ کار کو عوام کے لیے آسان بنانے کی اشد ضرورت ہے، تبھی ہم عام شہری کے قریب آسکیں گے’’۔
اس سے پہلے 23اکتوبر 2021 کو بھی انہوں نے قانون کاآئینہ دکھایاتھا۔بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے ایڈیشنل کورٹ کامپلکس کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں کہاتھا کہ بھارت میں عدالتیں ابھی بھی خستہ حال ڈھانچے میں کام کرتی ہیں، جس سے انہیں اپنے کام کو پر اثر طریقے سے کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے نظام انصاف کی مضبوط بنیاد کو ملک کی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’قانون کی حکمرانی کے ذریعہ کسی بھی معاشرے کے لیے عدالتیں انتہائی اہم ہیں۔ عدالتیں صرف اینٹ اور مٹی سے بنی عمارتیں نہیں ہوتیں، یہ انصاف کے حق کی آئینی ضمانتوں کو زندہ کرتی ہیں۔ ‘‘
جانب دار میڈیا پر نشانہ
ایک ایسے وقت میں جبکہ ہر طرف جانب دار میڈیا کی چیخ پکار مچی ہوئی ہے، درباری اینکروں کی لائن لگی ہوئی ہے اور حکومت کی قصیدہ خوانی میں مقابلہ آرائی ہے، گزشتہ کچھ عرصے سے چیف جسٹس این وی رمنا ملکی میڈیا کے کردار پر مسلسل سوالات اٹھا رہے ہیں۔
حال ہی میں ممبئی پریس کلب کی جانب سے ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعے منعقدہ ’ریڈ انک ایوارڈز‘ تقریب میں انہوں نے خبروں میں نظریاتی تعصب کی آمیزش کے رجحان کے متعلق کہا تھا کہ حقائق پر مبنی رپورٹس میں رائے دینے سے گریز کیاجانا چاہیے۔ایک صحافی جج کی طرح ہوتا ہے، اسے اپنے نظریے اور عقیدے کو بالائے طاق رکھ کر اور کسی سے متاثر ہوئے بغیر صرف حقائق بیان کرنا چاہیے اور حالات کی حقیقی تصویر پیش کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے اس لیے اسے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے حقیقت پر کھری اترنے والی رپورٹنگ کرنا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک صحت مند جمہوریت، آزاد اور بے باک صحافت سے ہی ترقی کرسکتی ہے۔
اس قبل این وی رمنا نے ملک میں غائب ہونے والی تحقیقاتی صحافت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
15 دسمبر 2021 کو سینئر صحافی سدھاکر ریڈی اُدومولا کی کتاب بلڈ سینڈرز۔ دی گریٹ فارسٹ ہیسٹ(Blood Sanders – The Great Forest Heist) کے اجراء کی تقریب میں چیف جسٹس نے کہا تھا ’’ایک ایسے شخص کے طور پر جس کا پہلا کام صحافت سے جڑا تھا، موجودہ میڈیا پر کچھ اظہار خیال کرنے کی آزادی رکھتا ہوں۔ بدقسمتی سے تحقیقاتی صحافت (investigative journalism) کا تصور میڈیا کے کینوَس سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔ کم از کم بھارت کے تناظر میں تو یہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو بڑے بڑے گھوٹالوں کو بے نقاب کرنے والے اخبارات کا بے تابی سے انتظار کیا کرتے تھے اور اخبارات نے ہمیں کبھی مایوس نہیں کیا۔
ماضی میں ہم نے گھپلوں اور بددیانتی کے بارے میں اخباری رپورٹس دیکھی ہیں جن کے سنگین اور اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایک دو کو چھوڑ کر مجھے حالیہ برسوں میں اس طرح کی کوئی رپورٹس یاد نہیں۔اس بیان کے دوران انہوں نے آزادانہ سوچ کی بھی وکالت کی۔ ملکی تناظر میں چیف جسٹس کی تشویش اور تجویز دونوں توجہ کے مستحق ہیں کیوں کہ صحافت کے میدان میں ملک کی شبیہ دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (Reporters Without Borders) کے مطابق ہمارا ملک صحافت کے لیے بد تر درجہ بندی والے ممالک میں شامل ہے۔ بھارت کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک تسلیم کیا جا رہا ہے۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے ذریعہ جاری کردہ 180 ممالک کے ‘ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس’ میں بھارت 142 ویں نمبر پر ہے۔ سال 2020 میں بھی اسے 142 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا، اس طرح صحافیوں کو فراہم کیے جانے والے ماحول میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی ہے۔ بھارت نے اپنے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس انڈیکس میں نیپال 106ویں، سری لنکا 127ویں اور بھوٹان 65ویں نمبر پر ہے۔
عدالت میں چیف جسٹس این وی رمنا کے ریمارکس
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نہ صرف کورٹ روم میں اپنے ریمارکس دیتے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً عوامی فورموں میں بھی ان کے اہم تبصرے سرخیوں میں جگہ پاتے ہیں۔ ان کے تبصرے بالخصوص عصر حاضر کے تقاضوں اور سنجیدہ مسائل پر ہوتے ہیں جن سے معنیٰ خیز بحث کا جنم لینا لازمی ہو جاتا ہے۔ یہاں پر قارئین کے لیے ہم چیف جسٹس این وی رمنا کے کورٹ میں دیے گئے چند ریمارکس پیش کریں گے جو حکومتوں کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہیں۔
یو اے پی اے کے غلط استعمال پر اظہار ناراضگی
مسٹر رمنا نے UAPA کے استعمال کے طریقہ پر اعتراض کیا تھا۔ تریپورہ میں فرقہ وارانہ واقعات پر مبینہ پوسٹس اور اشتعال انگیز تقاریر کے لیے کچھ لوگوں پر UAPA لگایا گیا تھا جس پر عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ سماعت کے دوران سی جے آئی کی بنچ نے تمام درخواست گزاروں کو گرفتاری سے تحفظ دیا تھا۔ درخواست پر سپریم کورٹ نے تریپورہ حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دونوں وکلاء اور صحافی کے خلاف تعزیری کارروائی نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ درخواست میں یو اے پی اے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اب عدالت یو اے پی اے کو بھی آئینی کسوٹی پر جانچے گی۔
ایم ایل اے اور ایم پی کے خلاف مقدمات واپس نہیں لیے جائیں گے
جب سپریم کورٹ میں ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز کے خلاف فوجداری کیس کو تیز کرنے کے معاملے کی سماعت ہوئی تو سی جے آئی این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے سماعت کی سست روی پر برہمی کا اظہار کیا۔ سی جے آئی رمنا نے سختی سے کہا تھا کہ متعلقہ ریاست کی ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر ایم پیز اور ایم ایل ایز کے خلاف کوئی کیس واپس نہیں لیا جائے گا۔ حالانکہ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ ایک طرف سماعتوں کی تیزی لانے کا مطالبہ ہو رہا ہے جب کہ دوسری طرف ججوں کی بھی کمی ہے۔ سپریم کورٹ نے تفتیشی ایجنسیوں اور ہائی کورٹ کے رویوں پر بھی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
پارلیمنٹ میں کم بحث پر بھی تشویش کااظہار
چیف جسٹس این وی رمنا نے قانون پاس کرنے سے پہلے پارلیمنٹ میں کم بحث پر تشویش کا اظہار کیا۔ یوم آزادی کے موقع پر سپریم کورٹ میں ترنگا لہرانے کے بعد چیف جسٹس نے ایوان میں ہونے والی بحث کے معیار پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بغیر مناسب بحث کے منظور ہونے والے قانون میں وضاحت نہیں ہوتی۔ قانون کی منظوری کے دوران بحث نہ ہونے کی وجہ سے ججز بھی ٹھیک سے نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ قانون بناتے وقت پارلیمنٹ کی روح کیا تھی۔
چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا تھا کہ جمہوریت میں اختلاف رائے اور جوابدہی دونوں بھی ضروی ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 09 جنوری تا 15 جنوری 2022