’جن سے مل کرزندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ‘

انوکھی دنیا کا انوکھا باشندہ

سید شجاعت حسینی، حیدر آباد

 

پدم شری علی مینک فین، جنہوں نے سیلف لرننگ کے ذریعے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے
ذرا بتائیے، آپ کیا کہیں گے اس بزرگ کے بارے میں جو بحر عرب کی موجوں سے گھرے شاداب جزیروں سے نکل کر جنوبی ہند کی کسی انجان اور بے جان سرزمین کو اس عزم کے ساتھ مسکن بنالے کہ مجھے یہاں فطری زراعت (نیچرل فارمنگ) کرنی ہے، اور لطف یہ کہ کامیابی کی شان دار مثال بھی قائم کر دے؟ شاید یقین نہ ہو لیکن کچھ ایسے ہی چیلنجنگ کارناموں سے پرُ ہے اسّی سالہ بزرگ علی مینک فین کی فعال زندگی!
امسال پدم شری فہرست میں علی مینک فین کا نام دیکھ کر موصوف سے ہوئی دو سال پرانی گفتگو تازہ ہوگئی۔ اس طویل اور دل چسپ گفتگو نے ذہن میں یہ سوال پیہم کھڑا کیا کہ ایسی حیرت انگیز شخصیت سے سماج کیوں واقف نہیں اور سیلف لرننگ کا یہ مثالی جذبہ کیوں پذیرائی نہ پاسکا۔ بالآخر علم اور خدمت کے اس انوکھے جذبے نے امسال اعلیٰ ترین سویلین اعزاز (پدم شری) کی فہرست میں ’’زمینی سطح کی اختراع‘‘ زمرے کے تحت مقام پایا۔
دو ماہ بعد مینک فین صاحب عمر کی 83ویں منزل عبور کریں گے۔ ان کی حیرت انگیز زندگی کا تعارف چند الفاظ میں سمیٹنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ سیلف لرننگ کا ماڈل، ماحولیاتی تکریم (ایکو اسپریچوالیٹی) کا نمونہ، اختراعی دانش مند، ماہر لسانیات، عصری علوم کا خزانہ، اوشیانوگرافسٹ، انجینئر، ماہر فلکیات، ماہر زراعت، متبادل ٹیکنالوجی و طب کے ماہر، ماہر بحری حیوانات (میرین بائیولوجسٹ) فشریز، ماہر علوم جہاز رانی ایجوکیشنٹ وغیرہ وغیرہ ہیں۔ یہ ’’مختصر‘‘ تعارف اس اضافی وضاحت کے ساتھ کہ موصوف نے ابتدائی عمر میں اسکول کو خیر باد کہہ دیا تھا!
اس تعارف کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ دوستو آپ کی حیرت بجا، لیکن کیا کہیں کہ ممکنات کی دنیا تو اس سے بھی وسیع تر ہے۔ انفارمل لرننگ ہی نہیں، بلکہ سوچنے اور کر گزرنے والے تو اَن اِسکولنگ، سیلف لرننگ، ڈو اِٹ یورسیلف، نیچر اسکولنگ، اور آٹو ڈی ڈیکٹسزم کی سرحدیں پھلانگ رہے ہیں۔ فارمل ایجوکیشن کی تنگ وادیوں میں پلے بڑھے مجھ جیسے کئی لوگوں کے لیے ایسی اصطلاحات نری لاطینی ٹھہرتی ہیں۔
شاید میری باتیں اور اصطلاحات دونوں واضح ہو جائیں، اگر ہم اس حیرت انگیز شخصیت سے تفصیلی ملاقات کر لیں۔ چلیے ملتے ہیں۔ جناب مُراد گَنداورُو علی مینک فین سے۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
آپ نے وسائل کی دنیا سے دور لکش دیپ کے پُر فضا جزیرے مینی کوئے میں آنکھ کھولی تھی۔ بچپن میں اسکولی تعلیم کے لیے وہ کنور (کیرالا) ضرور آئے لیکن اسکول کی ابتدائی تعلیم کے دوران ہی انہیں یہ احساس ہوا کہ فارمل ایجوکیشن نہایت مصنوعی اور قدرتی صلاحیتوں کو دبانے والا بوجھل عمل ہے۔ اس بار سے چھٹکارا پانے میں انہیں دیر نہ لگی اور یہیں سے شروع ہوا سیلف لرننگ کا ایک طویل سفر!
دکن کرانیکل (مورخہ 18 مارچ 2018) کے ایک مضمون میں انہیں بجا طور پر غیر روایتی یونیورسٹی (دی ان کنونشنل یونیورسٹی آف یونیورس) قرار دیا گیا ہے۔ آئیے اس ’’یونیورسٹی‘‘ کے شعبوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
شعبہ بحری علوم و بحری حیاتیات
غالباً اس یک نفری یونیورسٹی کا یہ سب سے بڑا شعبہ ہے۔ موصوف نے زمین کے جس چھوٹے ٹکڑے پر آنکھ کھولی وہ چاروں اطراف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سمندری کیفیات ان کی دل چسپی کا پہلا میدان بنیں۔ وہ سمندری جزیروں کی ساحلی زندگی کو فطرت سے قریب تر سمجھتے ہیں۔ کئی سال قبل معروف مرین بائیولوجسٹ ڈاکٹر ایس جونس کی جب مینک فین صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ ان کی اعلیٰ سطحی بحری تحقیقات جان کر بہت متاثر ہوئے۔ اپنی کتاب Fishes of the Laccadive Archipelago میں مینک فین صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں This young man has been such a great help and encouragement for me in my studies that I am greatly indebted to him.
اس کے بعد مینک فین صاحب نے بحری حیوانیات سے متعلق حکومت ہند کے سب سے بڑے اور معروف ادارے سی ایم ایف آر آئی (Central Marine Fisheries Research Institute of India) جوائن کیا اور بطور فیلڈ اسسٹنٹ خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد بحری حیاتیات (مرین لائف) پر ان کی تحقیقات کا طویل سلسلہ چل پڑا۔ 400 سے زائد انواع کی تحقیق انہوں نے انجام دیں۔ ان کی ان تحقیقات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر جونس لکھتے ہیں کہ بحری حیاتیات کے تئیں مینک فین کی دل چسپی بے مثال ہے۔
آپ کی تحقیق مینک فین ابودفدف کو نہ صرف عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا بلکہ اس دریافت کو مینک فین کے نام سے منسوب بھی کیا گیا۔
اوشیانوگرافی کے صف اول کے سائنس داں ڈاکٹر ایس زیڈ قاسم (بھارت کی انٹارکٹیکا مہم کے قائد، پدم بھوشن اعزاز سے سرفراز) مینک فین کی صلاحیتوں پر حیرت اور بے پناہ اعتماد کا اظہار کرتےتھے۔ اسی سبب انہوں نے اپنے کئی پروجیکٹ مینک فین صاحب کے حوالے کیے جن کی کامیاب تکمیل کا حق بھی انہوں نے ادا کیا۔ موصوف نے ملک کی سرکردہ یونیورسٹیوں میں علمی مقالے بھی پیش کیے۔ جواہر لال یونیورسٹی کے بشمول کئی معروف اداروں میں آپ نے لیکچر دیے۔
جزیرے کیسے بنتے ہیں (Island Formation) پر ان کی تحقیق دل چسپ ہے۔ کورل جزیرے کیسے بنتے ہیں۔ تازہ پانی کو تھامنے کی صلاحیت ان میں کیسے نمودار ہوتی ہے۔ کیسے وہ ایک ایک بوند کو سنبھالتے ہیں وغیرہ۔ لکش دیپ کا مرین میوزیم انہیں کی تحقیقات سے مرصع ہے۔ دی مین ان ملین ڈاکیومنٹری میں اس کی تفصیلات دکھائی گئی ہیں۔
شعبہ بحری انجینئرنگ
اس چلتی پھرتی یونیورسٹی کا یہ سب سے حیرت انگیز شعبہ ہے۔ آئرش جہاز راں ٹم سیورین (Tim Severin) نے 1981 میں سند باد کے سفر کا عملی تجربہ دہرانا چاہا۔ لیکن اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ جہاز کا سند بادی ماڈل تیار کرے جو واقعتاً اس تجربے کو دہرا سکے۔ علی مینک فین نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ عمان پہنچ گئے۔ ایک سال کی کڑی محنت کے بعد وہ 27میٹر لمبی کشتی ’’سحر‘‘ بنانے میں کامیاب ہوگئے جو بارہویں صدی کے عرب تجار کی کشتیوں کا عین نمونہ تھی۔ جہاز کی تعمیر میں دھات کا استعمال نہیں ہوا بلکہ لکڑی اور رسیوں کے سہارے اسے بنایا گیا ہے۔ اس حیرت انگیز جہاز کی تصویریں ٹم سیورین کے توسط سے عام ہیں۔ اس جہاز نے عمان تا چین تقریباً دس ہزارکلو میٹر طویل سفر طے کر کے ریکارڈ بنایا۔ اس حیرت انگیز جہاز اور اس کے سفر کی روداد ٹم سیورین نے اپنی کتاب سندباد وائج (Sindbad Voyage) میں بیان کی ہے۔ عمان کے میوزیم میں سحر گزشتہ چالیس سال سے کھڑا اس مہم جوئی کی حیرت انگیز داستان سنا رہا ہے۔ ڈگری یافتہ انجینئرذرا موصوف کی تکنیکی سیلف لرننگ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ آپ نے اپنی ڈیزائن کردہ اور تیار کردہ بائیک پر تمل ناڈو سے دہلی تک کا سفر کیا۔ عام سی نظر آنے والی اس ’’بائیک‘‘ کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ بائیک عام پٹرول گاڑیوں کے مقابلے بہتر ہے۔
عزیز دوست کے کے سہیل کی مینک فین صاحب سے رفاقت بڑی پرانی ہے۔ انہیں کے توسط سے میں نے مینک فین صاحب سے رابطہ کیا تھا۔ حالیہ گفتگو میں سہیل صاحب نے اپنے مشاہدے پر مبنی ایک دل چسپ واقعہ سنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ شپ بلڈنگ کے ایک بڑے ادارے میں کچھ شاہی گھرانوں کے لیے رائل یاٹس بنانے کا کام جاری تھا۔ ایک بظاہر اچھے جہاز کو دیکھ کر وہ ٹھہر گئے اور انجینئروں کو بلا کر ایک غیر مرئی نقص کی طرف اشارہ کیا۔ مختلف سائنسی دلائل کے حوالے سے یہ کہا کہ عام حالات میں تو یہ ٹھیک چلے گا لیکن طوفان میں پھنس جانے کی صورت میں ایک خاص زاویے سے جھک جائے گا اور حادثے کا شکار ہو جائے گا۔ انجینئرحیرت زدہ ہوگئے اور انہوں نے اپنی تکنیکی تحقیق کا آغاز کیا۔ اور کچھ دنوں بعد شکریے کے ساتھ اطلاع دی کہ آپ کا مشاہدہ بالکل صحیح تھا۔ ہم نے اسے درست کرلیا ہے۔ اگر یہ نقص باقی رہتا تو بڑا نقصان ہوتا۔
شعبہ زرعی و ماحولیاتی سائنس
یہ ہے اس حیرت انگیز یونیورسٹی کا ایک اور شعبہ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ماحول میں توازن کی صلاحیت ہوتی ہے اور وہ اپنا کام خود کیے جاتا ہے بشرطیکہ ہم اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔ باندھوں کے ذریعہ ندیوں کا بگاڑ، کچرے کے انبار کے ذریعے تالابوں کی بربادی، دھویں کے ذریعے فضا کی تباہی وغیرہ بگاڑ کی وہ صورتیں ہیں جن کو درست کرنے کے لیے باتوں کی نہیں بلکہ ایکشن کی ضرورت ہے۔ وہ فطری زراعت کے قائل ہیں۔ اس کا عملی ماڈل پیش کرنے کے لیے انہوں نے وہ حیرت انگیز قدم اٹھایا جس کا ذکر اس مضمون کے تمہیدی پیرا میں کیا گیا ہے۔
لکش دیپ سے سیکڑوں کلومیٹر دور تمل ناڈو کے بنجر علاقے میں وہ اپنی بیٹی اور نواسیوں کے ساتھ چلے آئے۔ شہر ویلور کے قریب ندی اور تالاب سے دور ایک بالکل بنجر زمین کا انتخاب کیا۔ ان کے مطابق انسان کی ذات (self) اور ماحولیات دو متضاد اجزا نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے ہیں۔ اسی بنجر مقام پر ایک چھوٹی سی کٹیا بنائی۔ یہیں رہتے ہوئے انہوں نے بے آباد اور بے جان زمین پر زراعت کے ایک نئے تجربے کا آغاز کیا جسے وہ ’’ڈو نتھنگ فارمنگ‘‘ کہتے ہیں۔ کام کا آغاز واٹر ہارویسٹنگ سے کیا۔ مصنوعی تالاب سے کچھ رونق آئی۔ فلسفہ یہ ہے کہ آپ کو کچھ نہیں کرنا ہے۔ انسان دخل نہ دے تو فطرت اپنا کام خود انجام دیتی ہے۔ سب سے پہلے مصنوعی تالاب کنارے پرندوں کے غول کا استقبال ہوا۔ جب پرندوں کی تعداد بڑھی تو انہیں کے پروں کے ذریعے بیجوں کا تبادلہ ہوتا ہے، سیڈنگ بھی ہوتی ہے، مزید ماحولیاتی تبدیلیاں بتدریج ہوتی ہیں اور اس طرح علاقہ آہستہ آہستہ سرسبز و شاداب ہو جاتا ہے۔ ’’ڈو نتھنگ فارمنگ‘‘ کا فلسفہ انہوں نے 4 سال میں حقیقت کر دکھایا۔وہ اپنے 15 ایکڑ وسیع کھیت اور گھر کی بجلی کی ضروریات اس ایکو فرینڈلی پاور پلانٹ سے پوری کرتے ہیں جس کا ڈیزائن، تعمیر اور تنصیب انہوں نے اپنے ہاتھوں سے انجام دیں۔ وہ سمجھاتے ہیں کہ غیر ضروری چیزوں کا استعمال کیے بغیر صرف ماحولیات پر انحصار کرتے ہوئے کیسے بہتر زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ (Organic Farming Association of India (OFAI اپنے پورٹل پر مینک فین صاحب کا تعارف آرگینک فارمنگ کی کامیاب ہمہ جہت شخصیت کی حیثیت سے کراتی ہے۔
شعبہ لسانیات
مین لینڈ اور اردو سماج سے سیکڑوں کلو میٹر دور جزیروں میں زندگی بسر کرنے والے شخص سے صاف ستھری اردو میں گفتگو سننا میرے لیے ایک دل چسپ تجربہ رہا۔ میں نے مینک فین صاحب سے دریافت کیا کہ اتنی زبانیں آپ نے کیسے سیکھ لیں؟ کہنے لگے کہ چند اہم زبانیں سیکھ لیں باقی سب انہیں سے ماخوذ ہیں، اور سیکھنا آسان ہے۔ مثلاً لاطینی سیکھ لیں آپ کے لیے تمام یورپی زبانیں آسان ہو جائیں گی۔ سنسکرت سیکھ لیں تو ہندوستانی زبانیں آپ کی ہو جائیں گی، اور عربی سیکھ لیں تو مشرق وسطیٰ کا لسانی محاذ سر ہو جائے گا۔ مینک فین صاحب نے تو بڑی ہی آسانی سے فارمولا بتا دیا۔ میں سوچ رہا تھا کیا واقعی اس فارمولے کو ڈی کوڈ کرنا اتنا آسان ہے؟ آج سائبر دنیا میں بیٹھ کر ہمیں یہ کام آسان نہیں لگتا، مینک فین صاحب نے صرف کتابوں اور ریڈیو کے سہارے کئی سال قبل یہ محاذ سر کرلیا۔ اس یونیورسٹی کا یہ شعبہ معیار اور مقدار کے لحاظ سے مالا مال ہے۔ جہاں تین براعظموں کی اہم زبانوں کا دبدبہ ہے۔ موصوف وہ ماہر لسانیات ہیں جنہیں کل 14 قومی اور بین الاقوامی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ (مہال، انگریزی، ہندی، ملیالم، تمل، اردو، عربی، لاطینی، فرانسیسی، روسی، جرمن، فارسی، سنسکرت اور سنہالی)۔ سی ایم ایف آر آئی(سنٹرل مرین فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر دیوراج انہیں اپنا گرو قرار دیتے ہیں کہ مینک فین صاحب نے انہیں فرانسیسی اور روسی زبانیں سکھائیں۔
شعبہ فلکیات (ایسٹرو فزکس)
سیلف لرننگ کے اس دل چسپ سفر کا وہ مرحلہ بھی بڑا دل چسپ اور حیرت انگیز ہے جس کا تعلق علم فلکیات سے ہے۔
علم فلکیات کے سائنسی راز، ستاروں اور سیاروں کی حیرت انگیز ترتیب کے حقائق، قمری کیلنڈر کی تجدید کے پیچیدہ فارمولے، اس کیلنڈر کی ری ڈیزائننگ کی کوششیں، چاند کے ذریعہ فلکیاتی تحسیبات، قمری کیلنڈر کی سائنسی ترتیب کے لیے رابطہ عالم اسلامی اور اسلامی ممالک کے علما و دانش وران سے مذاکرات اور اس مقصد کے تحت پیہم سفر۔ اپنے لیپ ٹاپ پر ان تمام تحقیقات کا مستقل تجزیہ اور ترتیب وغیرہ۔ مینک فین صاحب کی دل چسپی کا محور آج کل یہی تحقیقات ہیں۔ دوران گفتگو انہوں نے بہت تفصیل سے سمجھایا کہ ان کے بقول کیسے ہم ایک غلط پریکٹس اپنائے ہوئے ہیں اور اسی پر مطمئن ہیں جب کہ رب کائنات نے روز اول ہی سے ہمارے سر پر چاند اور سورج کی شکل میں انتہائی درست کیلنڈر اور گھڑیاں سجا رکھی ہیں۔ دوران گفتگو قرآنی حوالوں سے مینک فین صاحب چاند کی منازل کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن قمری کیلنڈر اور قبلہ کے تعلق سے ان کے تصورات پر اسلامی فلکیات اور ہلالیات کے کئی معروف و مستند عالمی ماہرین (ڈاکٹر خالد شوکت، پروفیسر عمر افضل اور پروفیسر محمد الیاس وغیرہ) کو سخت اعتراض ہے۔ ان کے خیالات کو وہ غلط قرار دیتے ہیں۔ اس موضوع پر رویت ہلال کے خط منحنی (Lunar Visibility Curve)کے حوالے سے مینک فین صاحب اور کے کے سہیل صاحب کے مابین ایک دل چسپ گفتگو یو ٹیوب پر سنی جاسکتی ہے۔
مینک فین صاحب ان تمام علوم کے علاوہ علم جغرافیہ اور علم فلکیات میں ایک خاص مہارت ہی نہیں بلکہ اپنی تحقیقات کی بنیاد پر چیلنجنگ نظریات بھی رکھتے ہیں۔ آپ ایک خطیب بھی ہیں اور دینی علوم پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ آپ کا ماننا ہے کہ انٹرنیشنل ٹائم لائن کے پرے قبلہ کا رخ بھی بدل جانا چاہیے۔ ان کے پاس اس نظریے کے حق میں دلائل بھی ہیں کہ اس پریکٹس کے سبب کیسے زمین کے ایک نقطہ پر نمازیوں کے ایک دوسرے کی پشت پر (بیک ٹو بیک) صف بندی کا امکان ہو جاتا ہے۔ میقات القبلہ ان کی تحقیقات کا ایک اہم موضوع ہے۔
شعبہ طب و بحری ادویات
مینک فین صاحب اپنے طبی اصول اور ادویات کی دریافت کے لیے بھی جانے جاتے ہیں ۔ 82 سال کی عمر میں جوانوں جیسی فعال زندگی اور تیز ذہن کسی عجوبے سے کم نہیں۔ ان کے نزدیک ان کی صحت کا راز کم کھانا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ یہی اسلامی اصول بھی ہے۔ بسیار خوری بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔ وہ ایلوپیتھک میڈیسن سے بھی بڑی حد تک اجتناب کرتے ہیں اور بحری ادویات (سی میڈیسن) پر اعتماد کرتے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانو گرافی گوا میں انہوں نے بحری ادویات (میڈیسن فرام دی سی) کے موضوع پر اپنی تحقیق پیش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندرصرف غذا ہی نہیں بلکہ طبی ضروروتوں کی تکمیل بھی کرتا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق بحری ماحولیاتی نظام میں موجود مونگے (کورل ریف) اور اس سے منسلک نباتات اورمچھلیاں زبردست طبی فوائد رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں کہنہ امراض کا علاج منتخب مچھلیوں کے ذریعے کرنے کے ان کے تجربات بھی بڑے دل چسپ ہیں ۔
پیغام عمل
82 سالہ مرد دانش کی سیلف لرننگ اسپرٹ، انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے بہتے دریا کے کنارے بیٹھے نوجوانوں کے لیے کئی خاموش پیغامات کی سوغات ہے۔
• ڈو نتھنگ فارم کا تصور خوب ہے۔ وہ کہتےہیں کہ بڑے درخت اور ناریل کے پیڑوں کو پانی فراہم کرنا ضروری نہیں۔ اگر پانی فراہم کرنا ہو تو درختوں سے دور کسی مقام پر پانی ڈالیں۔ اس تکنیک کی حکمت یہ ہے کہ پیڑ کی جڑیں دور تک پھیل کر پانی خود تلاش کرلیتی ہیں اور اپنا مقام خود بنالیتی ہیں۔ اگر جڑیں دور تک گہرائی میں پھیلی ہوں تو درخت زیادہ مضبوط اور صحت مند ہوگا۔ ڈو نتھنگ فارم کی یہ حکمت زندگی میں شارٹ کٹ ڈھونڈھنے والوں کے لیے ایک خاموش نصیحت بھی ہے، وہ یہ کہ وسائل کی آسان فراہمی سست اور کم زور بنا دیتی ہے۔ خواہ درخت ہوں یا انسان۔ اس کے مقابلے میں کھوج کے ذریعے منزل تک رسائی جستجو کا جذبہ مضبوط شخصیت کا سبب ہوتا ہے۔
• مینک فین صاحب کے نظریات سے قطع نظر ان کا سیلف لرننگ کا سفر اور انوکھے تجربات اس قابل ہیں کہ پذیرائی ہو۔ ہماری دھرتی پر نجانے کتنے گم نام ہیرے پائے جاتے ہیں جنہیں اپنی صلاحیتوں کا شعور ہی نہیں۔ اسی کیفیت کو مختار مسعود ’’حیات بے مصرف کا ماتم‘‘ کہتے ہیں۔ مینک فین صاحب کی ہمہ جہت شخصیت اس بات کی دلیل ہے کہ رب کائنات کی بارگاہ سے صلاحیتیں مکمل انصاف کے ساتھ بٹتی ہیں۔ اب یہ انسان کا ظرف ہے کہ وہ اس انصاف کی قدر کرتا ہے یا کھلواڑ۔
• سہیل صاحب نے اپنی پہلی ملاقات کا دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جب وہ جونیر کالج کے طالب علم تھے اور اسٹرونومی میں خاص دل چسپی تھی۔ اسی موضوع پر چند سوالات پوسٹ کارڈ پر لکھ کر انہوں نے مینک فین صاحب کو بھیجے۔ موصوف نے جواب کے ساتھ یہ لکھا کہ آپ کے سوال بہت اچھے ہیں میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ ایک دانا بزرگ کی کسر نفسی اور نو عمر طالب علم کے تئیں شفقت اور حوصلہ افزائی کی ایسی مثال ملنا بڑی مشکل ہے۔ اس کے بعد ایک چھوٹا سا بیگ لیے اس سترہ سالہ لڑکے سے ملنے وہ اس کے گھر کنور چلے آئے۔ اس کے بعد موصوف سے پیہم رابطے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ مینک فین بہترین استاد اور بہترین طالب علم ہیں۔ ان کے اندر سیکھنے اور سکھانے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ امیوزمنٹ اور تجسس ان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ سیکھنے کا جذبہ ہو تو ایک نو عمر بچہ بھی ان کا اچھا دوست بن سکتا ہے۔ سیکھنے اور سکھانے کا یہ جذبہ ہمارے بزرگوں اور طلبا دونوں کے لیے کئی خاموش پیغام رکھتا ہے۔
• حصول علم کا ابتدائی ذریعہ کائنات کا مشاہدہ ہے۔ لکش دیپ کے ساحلوں اور سمندر کی موجوں نے جناب علی مینک فین صاحب کو ابتدائی عمر میں جو سکھایا ان کے پائیدار نقوش نے انہیں ایک مستقل سیلف لرنر بنا دیا ہے۔ نیچر اسکولنگ کا راز انہوں نے 70 سال پہلے جان لیا تھا اور پچھلی کئی دہائیوں سے اپنے تحقیقی مقالوں کے ذریعے متبادل اسکولنگ کا عملی تصور یونیورسٹیوں اور اداروں میں جا جاکر سمجھا رہے ہیں۔ کیرالا کے وائناڈ شہر میں انہوں نے ڈی اسکولنگ کا عملی ماڈل پیش کیا اور کئی طلبا اس ماڈل سے منسلک ہوئے۔ ابتدائی عمر میں صرف کتابی علم چیزوں کی ایسی گہری سمجھ اور دل چسپی پیدا کرے، یہ بہت مشکل ہے۔ کتابوں سے لدی پھندی آٹھ گھنٹوں کی پرائمری اسکولنگ بھی اصلاح چاہتی ہے۔
• اسکول کالج کی اسناد کو بنیاد مانا جائے تو علامہ مینک فین کی قابلیت کہیں نہیں ٹھہرتی۔ ان کی اولاد نے بھی اسکولی تعلیم سے دور رہ کر بہت کچھ سیکھ لیا اور قابل ٹیچر بن گئے۔ کوئی مانے یا انکار کرے، سیلف لرننگ ایک مستند حقیقت ہے۔ اس کا اطلاق عصری و دینی علوم دونوں جگہ یکساں ہوسکتا ہے۔ زانوئے تلمذ کی حد بندیاں اہم سہی لیکن سب کے لیے یکساں لازمی نہیں ہو سکتیں۔ یہاں استثنا ضروری ہے۔ یونیورسٹیوں کی سند اور مدارس کی فراغت قابلیت کے آفاقی پیمانے نہیں ہو سکتے۔
• مینک فین صاحب نے اپنی سیلف لرننگ اور اپنے طویل عملی کیریئر میں انسانیت کی نفع رسانی اور ماحولیات کو مقدم رکھا۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے براہ راست فطرت سے سیکھا۔ کائنات کو دیکھنے کے اس انوکھے انداز نے انہیں گراس روٹ انوویشن کے اعزاز سے نوازا ۔ ہمارا تعلیمی نظام یہاں بڑا کم زور نظر آتا ہے۔ ماحولیات ہمیں پڑھائی ضرور جاتی ہے لیکن عملاً ماحول اجاڑنے کے مادی گر سکھائے جاتے ہیں۔ علی مینک فین صاحب کی سادہ اور عملی زندگی کا یہ سبق اہم ہے کہ ہمارا عملی کیرئیر بھی ماحول دوست اور نفع بخش ہو۔
• اولاوانا کے باسی آج کل حیران ہیں کہ ٹیلی وژن پر جس شخص کی دھوم مچی ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ سفید جبہ میں ملبوس وہ دبلا پتلا ہمسایہ ہے جسے وہ پہچانتےضرور ہیں لیکن شاید جانتے نہیں! حیرت ہوتی ہے کہ جہاں علم کا تکبر سر چڑھ کر بولتا ہو اسی دھرتی پر انکساری اور وقار کے ایسے نمونے بھی پائے جاتے ہیں۔ موصوف کی زندگی کا یہ پہلوان لوگوں کے لیے خصوصی درس ہے جو ڈگریوں اور دستار فضیلت کے مصنوعی تقدس سے سرشار لیکن ذوق نظر سے محروم ہیں۔
عطا ہوئی کسے سند نظر نظر کی بات ہے
ہوا ہے کون نامزد نظر نظر کی بات ہے
علی مینک فین صاحب کی صلاحیتیں اس سطح کی ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ یہ بھی اچھی بات رہی کہ مینک فین صاحب کو ڈاکٹر سید ظہور قاسم کے بشمول بڑے قدر شناس ڈائریکٹر ملے ورنہ جدید استحصالی نظام میں صرف ایڈمنڈ ہلیری سرخ رو کہلاتے ہیں، یہاں تینزنگ کو اس مقام پر رکھا جاتا ہے جہاں سے بھلانے میں آسانی ہو۔کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ اس نا انصافی پر صرف کارپوریٹ کی اجارہ داری نہیں بلکہ حکومتی ادارے، تنظیمیں، مدرسے سب کہیں نہ کہیں شامل ہیں۔
جو مالی جڑ کی قدر نہ جانے اس کا حق نہیں کہ پیڑ پر برگ و بار کی تمنا کرے۔
قدر مجھ رند کی تجھ کو نہیں اے پیر مغاں
توبہ کر لوں تو کبھی مے کدہ آباد نہ ہو
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021