جنگ کی آیات پر اعتراض ذہنی دیوالیہ پن کی دلیل !
قتل کے احکامات کا تعلق فرد سے نہیں اسلامی ریاست سے ہے
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ہر ملک میں منسٹری آف ڈیفنس قائم ہے اس کے تحت تربیت یافتہ فوج رکھی جاتی ہے جو ہمہ وقت سرحدوں کی حفاظت اور دشمن کے حملہ کی صورت میں جنگ کے لیے تیار رہتی ہے۔ کوئی شخص کہے کہ منسٹری آف ڈیفنس کی ضرورت نہیں فوج کو ختم کردینا چاہیے اس لیے کہ اسے دیکھ کر عام لوگوں پر دہشت طاری ہوتی ہے تو ہر کوئی یہی کہے گا کہ ایسے شخص کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے اس کا علاج کرانا چاہیے۔
بین الاقوامی سطح پر اسلحہ کی انڈسٹری ترقی پر ہے۔ جنگی جہاز، آب دوز کشتیاں، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، راکٹ، میزائل اور دیگر انتہائی خطرناک اسلحے بنائے جا رہے ہیں۔ ہر ملک زیادہ سے زیادہ ان کو حاصل کرنا اور ان کے ذریعے اپنے دفاع کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ کوئی شخص کہے کہ اسلحہ کی انڈسٹری کو ختم کر دینا چاہیے اور تمام ممالک کو اپنے یہاں موجود جنگی اسلحہ کو تباہ کر دینا چاہیے، اس لیے کہ یہ امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں تو ہر کوئی ایسے شخص کو بے وقوف کہے گا اور اس کی عقل پر ماتم ہی کرے گا۔
تمام مذاہب امن، خیر سگالی اور بھائی چارہ کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان میں حق کا ساتھ دینے اور باطل کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مظلوموں کی حمایت کرنے اور ظالموں سے بدلہ لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس بنا پر ان کی کتابوں میں امن کی تلقین کی ساتھ جنگ کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ امن آئیڈیل چیز ہے اور جنگ بہ درجہ مجبوری گوارا کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ تمام مذہبی کتابوں میں صرف امن و آشتی کی باتیں باقی رہنے دینا چاہیے اور ان سے جنگ کا تذکرہ نکال دینا چاہیے تو ہر کوئی ایسے شخص کو باؤلا کہے گا اور اس کی خرافات کو دیوار پر دے مارے گا۔
چند دنوں قبل ایسے ہی ایک منچلے نے کچھ بے سروپا باتیں قرآن مجید کے بارے میں کہی ہیں۔ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ قرآن میں چھبیس (26) آیتیں ایسی ہیں جن میں جنگ و جدال کی باتیں کہی گئی ہیں، دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ آیتیں فرقہ وارانہ منافرت اور مذہبی دوری پیدا کرتی ہیں اس لیے انہیں قرآن سے نکال دینا چاہیے۔ آگے بڑھ کر اس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ آیتیں اصل قرآن کا حصہ نہیں ہیں بلکہ پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے انتقال کے بعد جب قرآن کو مرتّب و مدوّن کیا جارہا تھا تب یہ آیتیں اس میں داخل کر دی گئی تھیں۔ یہ دعویٰ کسی سنجیدگی کا مظہر نہیں ہے اور نہ اس کے پیچھے عقل و منطق اور تاریخ کے دلائل ہیں اس لیے انہیں رد کرنے کے لیے کسی مغز ماری کی ضرورت نہیں۔ البتہ قرآن میں مذکورہ آیات کے سلسلے میں صحیح موقف کیا ہے اور سیاق و سباق کی روشنی میں ان آیات کا مفہوم کیا ہے؟
اس ضمن میں چند باتیں عرض کی جا رہی ہیں :
(۱) اسلام کا دو ٹوک اعلان ہے کہ مذہب کے معاملے میں کسی پر زور زبردستی نہیں کی جائے گی۔ (البقرۃ :۲۵۶) اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تم اپنا کام کرتے رہو۔ جو لوگ ایمان نہیں لا رہے ہیں انہیں زبردستی دائرہ ایمان میں داخل کرنا تمہارا کام نہیں۔(یونس:۹۹)
(۲) یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں جو لوگ طاقت ور تھے انہوں نے مذہب کے معاملے میں آزادی کا حق تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے کم زوروں کو طرح طرح سے ستایا اور ان پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کی یہاں تک کہ ان کم زوروں نے اپنا دین بچانے کے لیے پہلے قریب کے ایک ملک حبشہ ہجرت کی بعد میں دوسرے شہر مدینہ چلے گئے۔ وہاں بھی اِن لوگوں نے انہیں چین سے رہنے نہ دیا بلکہ ان کا جینا دوبھر کیے رکھا اور ان پر جنگ مُسلّط کی۔
(۳) ایمان والوں کو حکم دیا گیا کہ جو تم سے جنگ کرے تم بھی ان سے جنگ کرو البتہ تم زیادتی کرنے سے بچو۔ (البقرۃ:۱۹۰) انہیں کہا گیا کہ جیسے تمہارے دشمن مل جل کر تم سے جنگ کرتے ہیں اسی طرح تم بھی متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرو۔(التوبۃ:۳۶)
(۴) قرآن کہتا ہے کہ جنگ کا مقصد فتنہ و فساد کا خاتمہ ہے۔(البقرۃ:۱۳۹ ، الانفال:۹۳) ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے والوں کو ملک میں دندناتے پھرنے کی اجازت نہیں اس لیے اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ مسلسل ظلم برداشت کرنے کی ضرورت نہیں، ظالموں کا مقابلہ کرو۔(الحج:۳۹) اسی طرح دوسرے مردوں، عورتوں اور بچوں پر ظلم ہورہا ہو تو ان کی مدد کے لیے آگے آؤ ۔(النساء:۷۵)
(۵) ایک اہم بات یہ ہے کہ جنگ کے یہ احکام اسلامی ریاست کو دیے گئے ہیں۔ اسلامی ریاست قائم ہو تو وہ اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے سیاسی معاملات میں فیصلہ کرے گی۔ وہ طے کرے گی کہ اسے صلح کو ترجیح دینی ہے یا جنگ کو؟ اور جنگ کرنی ہے تو کب کرنی ہے اور کب تک کرنی ہے؟ قرآن میں جنگ کی جتنی آیات ہیں ان کا خطاب مسلم عوام سے نہیں ہے۔ انہیں کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو جہاں پائیں قتل کر دیں اور انہی جیتا نہ چھوڑیںبلکہ یہ ساری ہدایات اسلامی ریاست کے لیے ہیں۔ اسے ان پر عمل کی اجازت دی گئی ہے۔
(۶) عام حالات کا حکم الگ ہوتا ہے اور جنگ کے حالات کا حکم بالکل الگ۔ جنگ کے دوران فوج کو حکم دیا جاتا ہے کہ دشمن کی فوج کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ اس کا اسلحہ تباہ و برباد کر دے۔ جس فوجی کو پکڑ لے اسے گرفتار کر لے۔ جنگ کے دوران کم زوری دکھانا اور دشمن کو رعایت دینا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔ لیکن عام حالات میں وہ چیزیں روا نہیں ہوتیں جو جنگ کے دوران جائز ہوتی ہیں۔
(۷) عام حالات میں دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اہل ایمان کے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں؟ اس کا تذکرہ سورہ الممتحنہ، آیت ۸ میں کیا گیا ہے۔
فرمایا گیا:
’’ اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ یہ ہے قرآن مجید میں جنگ کی آیات کی حقیقت اور ان کا صحیح پس منظر۔ اس بنا پر بلا سوچے سمجھے ان آیات کو منافرت پھیلانے والی کہنا اور انہیں قرآن سے نکالنے کا مطالبہ ذہنی دیوالیہ پن پر دلالت کرتا ہے۔ ملک کی عدالتِ عظمیٰ کو چاہیے کہ شر انگیزی پر مبنی مفادِ عامہ کی اس عرضی کو پہلی فرصت میں خارج کر دے۔
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کے شعبہ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ہیں) Mob:9582050234
***
تمام مذاہب امن، خیر سگالی اور بھائی چارہ کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان میں حق کا ساتھ دینے اور باطل کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ مظلوموں کی حمایت کرنے اور ظالموں سے بدلہ لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس بنا پر ان کی کتابوں میں امن کی تلقین کی ساتھ جنگ کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ امن آئیڈیل چیز ہے اور جنگ بہ درجہ مجبوری گوارا کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ تمام مذہبی کتابوں میں صرف امن و آشتی کی باتیں باقی رہنے دینا چاہیے اور ان سے جنگ کا تذکرہ نکال دینا چاہیے تو ہر کوئی ایسے شخص کو باؤلا کہے گا اور اس کی خرافات کو دیوار پر دے مارے گا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا 70 مارچ 2021