جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کی ’جمہوریت کانفرنس‘

امریکہ کا ماضی آمریت نوازی سے داغدار لیکن دنیا کو جمہوری اقدار کی دہائی

مسعود ابدالی

کیا مقصد صرف شاہی مملکتوں اور حریف ملکوں کو نیچا دکھانا ہے؟
امریکی صدر جوبائیڈن کی طلب کردہ دو روزہ ”Summit for Democracy” یا سربراہی کانفرنس برائے جمہوریت، 10 دسمبر کو ختم ہوگئی۔کورونا وبا کی بناپر یہ بیٹھک سمعی و بصری رابطے یعنی virtualہوئی، چنانچہ اسے ’ورچُول سمٹ‘ کہا جارہا ہے۔
اس اجلاس کے لیے 110 سے زیادہ ملکوں کو دعوت دی گئی تھی۔ منتظمین کے مطابق کانفرنس کا مقصد چونکہ جمہوریت کے استحکام اور اسے مزید فروغ دینے کے لیے سوچ بچار کرنا تھا اس لیے صرف انھیں ممالک کو مدعو کیا گیا جن کا جمہوریت کے لیے عزم شک و شبہات سے بالاتر ہے۔ اس بنا پر چین، روس، بنگلہ دیش، سنگاپور، سری لنکا، ویتنام، تھائی لینڈ اور برونائی کو دعوت نامے نہیں بھیجے گئے۔امریکا کے روایتی مخالف، ایران ، شمالی کوریا، کیوبا اور وینزوییلا کے ساتھ نیٹو (NATO) اتحادی ترکی اور ہنگری بھی مدعوئین کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔ مشرق وسطیٰ سے صرف اسرائیل اور عراق کو دعوت د گئی جبکہ امریکا کے قریب ترین اتحادی سعودی عرب، بحرین، کوئت، قطر اور متحدہ عرب امارات کو اجلاس سے دور رکھا گیا۔ وسط ایشیا کے کسی ملک کو مدعو نہیں کیا گیا۔ امریکا کے قریب ترین دوست جنرل السیسی بھی دعوت نامے سے محروم رہے اور ایسا ہی حال امریکا کے نئے دوستوں یعنی مراکش کے شاہ محمد پنجم اور تیونس کے جناب قیس سعید کا ہوا۔ الجزائر اور لیبیا بھی نہیں بلائے گئے، گویا سارا شمالی افریقہ اجلاس سے باہر تھا۔ جنوبی ایشیا سے بھارت، پاکستان، مالدیپ اور نیپال کو دعوت نامے ارسال کئے گئے۔
امریکی وزارت خارجہ نے ’عزمِ جمہوریت‘ کے عنوان سے شرکت کی جو کسوٹی وضع کی تھی اسکی وضاحت نہیں کی گئی لیکن مدعو نہ کئے جانیوالے بعض ممالک کے بارے میں جو وجوہات سامنے آئی ہیں، وہ کچھ اسطرح ہیں:
روس اور چین کا سیاسی نظام مغرب کے مروجہ جمہوری نظام سے مطابقت نہیں رکھتا اس لیے ان دو نوں کیساتھ کمیونسٹ فلسفے پر یقین رکھنے والے کیوبا اور بیلاروس کو بھی نہیں بلایا گیا۔ تائیوان کو دعوت دی گئی لیکن دعوت نامے پر اس کے سرکاری نام یعنی ریپبلک آف چائینا کے بجائے تائیوان لکھا گیا۔ یہ بیجنگ کی چینِ واحد (One China)پالیسی کے احترام کی ایک کوشش تھی یعنی ’ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو‘۔
ترکی کو صدر ایردوان کے ’آمرانہ روئیے‘ کی بنا پر دعوت نامے سے محروم رکھا گیا۔ ترک صدر سے ان کے فرانسیسی ہم منصب، سابق اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اور جو بائیڈن کی نفرت انگیز مخاصمت خاصی پرانی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکی صدر صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ ترکی میں تبدیلیِ قیادت (Regime Change)انکی دیرینہ خواہش ہے۔ اس پر واشنگٹن کے ایک ترک سفارتکار نے غیر سرکاری گفتگو کے دوران بڑا عمدہ تبصرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے لیے ترکی کے عزم پر وہ لوگ شک کا اظہار کررہے ہیں جہاں 2020 کےانتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 66 فیصد تھا،جبکہ 2018 کے عام انتخابات میں 86.2ترکوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔
بنگلہ دیش کو مدعو نہ کئے جانے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ 2018 میں انتخابات کے مشاہدے کے لیے جانیوالے مغربی دنیا کے تقریباً تمام مبصرین (poll watchers)نے نتائج پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور سوائےبرطانوی مانیٹروں کے سب نے بدترین دھاندلی کی شکایت کی تھی۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور انکی اتحادی جاتیو پارٹی کے علاوہ کسی بھی جماعت اور آزاد امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کی آزادی نہیں تھی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش خلاف قانون قراردیدی گئی اور حزب اختلاف کی رہنما خالدہ ضیا جیل میں تھیں۔ووٹنگ والے دن پولنگ اسٹیشنوں سے حزب اختلاف کے ایجنٹوں کو نکال دیا گیا تھا۔
سری لنکا پر مسلم، مسیحی اور دوسری اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کا الزام ہے۔ کورونا کے مرض میں جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کی لاشوں کو مذہبی روایت کے مطابق تدفین کے بجائے نذرِ آتش کیا گیا۔ حکومت کا موقف تھا کہ یہ قدم وبائی مرض کے پھیلاو کو روکنے کے لیے کیاجارہا ہے حالانکہ عالمی ادارہ صحت (WHO)نے بہت صراحت کے ساتھ کہا تھا کہ لاشوں سے اس مرض کے پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں اور ہندوستان و یورپ سمیت ساری دنیا میں کورونا سے وفات پانے والے افراد کی تدفین ان کی مذہبی روایات کے مطابق ہورہی ہے۔تیونس، پارلیمان معطل کرنے کی وجہ سے معتوب ٹہرا۔ سنگاپور، ویتنام، تھائی لینڈ اور شمالی افریقہ کے ممالک شہری آزادیوں پر پابندی کے باعث دعوت ناموں سے محروم رہے۔ چچا سام کے عرب اتحادیوں نے ملوکیت اور مطلق العنانیت کی قیمت ادا کی۔
حیرت انگیز بات کہ عالمی اہمیت کی اس تقریب کو امریکی ذرائع ابلاغ نے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی، حتیٰ کی صدر کے خطاب کو بھی کئی ٹیلی ویژن اسٹیشنوں نے براہ راست نہیں دکھایا۔ اجلاس کےآخری دن امریکی ریاست کنٹکی (Kentucky)بدترین طوفانی بگولوں کا نشانہ بنی جس میں سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے اور 200 میل کا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، چنانچہ اختتامی اجلاس کو پریس کوریج ہی نہ مل سکی کہ ہر جگہ کنٹکی اور اس سے متصل ریاستوں کی تباہی کا ذکر تھا۔
کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جمہوری حکومتوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ رہا ہے اور جمہوریت کے لبادے میں اشرافیہ، ووٹ کے ذریعے حاصل ہونے والے اختیارات اور اثر ورسوخ کو ذاتی و خاندانی مفادات کے لیے استعمال کررہی ہے۔صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی جگہ آمریت کے حامی عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں کہ جابرانہ طرز حکومت اور سخت اقدامات سے ہی آج کے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو درپیش آزمائشوں کے مقابلے کے لیے حوصلہ مند میرانِ میداں یا چیمپینز کی ضرورت ہے۔ صدر بائیڈن کے نزدیک درست جمہوری نظام وہی ہے جس کا تصور ابراہام لنکن نے 1861 میں اپنی دوسری مدتِ صدارت کا حلف اٹھاتے وقت دیا تھا ’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘۔ امریکی صدر نے کہا کہ اس نعرے کو اسکی روح کے ساتھ زندہ و تابندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر بائیڈن نے جذباتی انداز میں کہا کہ جمہوریت ساکت و جامد نظام نہیں بلکہ یہ ہر دم رواں، پیہم دواں جدوجہد ہے۔ امریکا کے پاس ’اعلان آزادی‘ اور دوسری مقدس دستاویزات موجود ہیں جن کو پڑھ کر بانیانِ ریاست کے تصورات، ایک جامع طرزِ حیات کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتے ہیں جنھیں دونکات میں سمویا جاسکتا ہے:
•بلا امتیاز رنگ و نسل، قومیت و شہریت، مذہب اور جنس سب انسان برابر ہیں
زندگی، آزادی اور خوشی کی تلاش سب کا حق ہے۔
صدر بائیڈن نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ہر معاشرہ جمہوریت کی تعریف اپنے انداز میں کرتا ہے اور ہمیں یہ حق تسلیم کرنا ہوگا۔ساری انسانیت کا ایک نکتے پر اتفاق ممکن نہیں اور آزادانہ مشاورت جمہوریت کی روح ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ سانجھی جمہوری اقدار ہماری قوت کا راز اور اتحاد کی بنیاد ہے اور ان مقدس اقدار کے تحٖفظ اور بالادستی کے لیے ہمیں مل کر جدوجہد کرنی ہوگی جن میں انصاف کی ضمانت، قانون کی حکمرانی، آزادیِ اظہارِ رائے، مذہب و عقیدے کی آزادی اور ہر فرد کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ شامل ہے۔
اس موقع پر امریکی صدر نے بدعنوانی کی موثر بیخ کنی کا عزم بھی ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں قومی خزانے میں نقب زنی کے مرتکب افراد کو بے نقاب کرنے والے صحافیوں، دانشوروں، اساتذہ اور مشتبہ سرگرمیوں پر خطرے کی گھنٹی بجانے والے Whistle Blowers کو تحفظ دینےکی ضرورت ہے، وہیں چوری کئے گئے کالے دھن کو اجلا کرنے والی محفوظ پناہ گاہیں بھی ختم ہونی چاہئیں۔
یہ تو تھی اس کانفرنس کی روداد۔ سوال یہ ہے کہ اس بیٹھک سے جمہوریت کے استحکام اور انسانی حقوق کے فروغ میں کیا مدد ملے گی؟ اسکا آسان اور مختصر جوب یہ ہے کہ ’ورچول سمٹ‘ نشستند، گفتند اور برخواستند سے زیادہ کچھ نہ تھی۔
کانفرنس میں صدر بائیڈن اور ان کے یورپی حلیفوں نے تعصب اور نسلی امتیاز کے خلاف بہت رقت آمیز تقریریں کیں۔ یادش بخیر گزشتہ برس دسمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد A/75/237پیش کی گئی، جس کا متن کچھ اسطرح تھا:
اقوامِ عالم، نسل پرستی، نسلی امتیاز، غیرملکیوں سےخوف (Xenophobia)اور عدم رواداری کےخاتمے کے لیے ٹھوس کارروائی اور اقدامات کے جامع نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں۔
یہ قرارداد 14 کے مقابلے میں 106 ووٹوں سے منظور ہوئی،44 ارکان رائے شماری کے دوران غیر جانبدار رہے۔ امریکا ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، اسرائیل، فرانس، جرمنی اور نیدرلینڈ (ہالینڈ) نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ باقی یورپی ممالک غیر جانبدار رہے۔ جب عمل کا یہ عالم ہو تو لچھےدار تقریر کس کام کی؟
جمہوریت پر امریکا بہادر کے شب خون کے تاریخ کئی دہائیوں ہر محیط ہے۔
ایران کے پہلے منتخب وزیراعظم محمد مُصدِّق کا 1953میں سی آئی اے اور برطانوی محمکہ سراغرسانی کی مدد سے تختہ اُلٹا گیا
سی آئی اے کے تعاون سے 1973میں چلی کے منتخب صدر سلواڈور آئندے کی منتخب حکومت ختم کی گئی۔ فوجی کارروائی کے دوران صدر آئندے ہلاک کردئے گئے۔
الجزائر میں 1990کے انتخابی نتائج کو منسوخ کر کے فوجی جنتا نے مارشل لا لگادیا۔ ان انتخابات میں اسلامی سالویشن فرنٹ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ غیر جانبدار حلقوں کا دعویٰ ہے کہ الجزائری جرنیلوں نے یہ کارروائی امریکا، برطانیہ اور فرانس کی ایما پر کی۔ اس کے نتیجے میں جنم لینے والی خانہ جنگی میں ایک لاکھ شہری مارے گئے۔
2013 میں مصری تاریخ کے واحد منتخب صدر محمد مورسی کا تختہ الٹا گیا۔ اس کارِ خیر میں جنرل السیسی کو امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل تھی۔
پانچ برس پہلے جولائی 2016 میں ترکی کی منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت برپا کی گئی۔ تر ک محکمہ سراغرسانی کا کہنا ہے کہ سازش کا جال سی آئی اے نے بُنااوراستنبول کے شہری علاقوں پر بمباری کرنے والے باغی طیاروں نے انسرلیک (Incirlik)نیٹو اڈے سے اڑان بھری تھی۔
اور ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تیونس میں منتخب پارلیمان کو معطل کردیا گیا۔ اس کارروائی کے پیچھے بھی انھیں پردہ نشینوں کے نام ہیں۔
صدر بائیڈن نے بہت فخر سے فرمایا کہ وہ شفاف حکمرانی، ذرایع ابلاغ کی آزادی، جمہوری اقدار کے فروغ، انتخابی اصلاحات اور ووٹنگ کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال پر ایک عالمگیر مہم چلانےکا ارداہ رکھتے ہیں جس کے لئے وہ امریکی کانگریس (پارلیمان) سے 22 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی درخواست کریں گے۔
جمہوریت کے حوالے سے واشنگٹن کے اخلاص کے بارے میں جو چند مثالیں ہم نے پیش کی ہیں انھیں دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ ووٹنگ مشین اور جدید ٹیکنالوجی کے لیے مختص رقم چھوٹے ممالک میں فدویانہ قیادت اور انتخابات میں مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے استعمال ہوگی۔
اس نشست میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی کمی محسوس کی گئی۔ صحافتی حلقے توقع کررہے تھے کہ خانصاحب کرپشن اور ملک کی چوری کی دولت کو برطانیہ میں تحفظ فراہم کرنے کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کریں گے لیکن پاکستان اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں سرکاری موقف تو یہ ہے کہ پاکستان بڑی طاقتوں کے باہمی تناو اور کشمکش سے خود کو الگ رکھنا چاہتا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد فروغِ جمہوریت سمیت تمام معاملات پر امریکا سے رابطے میں ہے اوراس سلسلے میں دونوں ملک جلدہی ملاقات کریں گے۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ کانفرنس سے ایک ہفتہ قبل چینی وزیرخارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے بات کی تھی۔ فون پر گفتگو کے دوران چینی حکومت نے شاہ محمود قریشی کو کانفرنس کے بارے میں بیجنگ کے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ چین کا کہنا تھا کہ امریکا دنیا کے کئی ملکوں میں جمہوری بندوبست کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہےا ور واشنگٹن اُس ’جمہوریت‘ کو فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے جس سے اس کے مکروہ مفادات و اقدامات کو تحفظ مل سکے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق چینی وزیرخارجہ نے شاہ صاحب کو یقین دہانی کروائی تھی کہ انکا ملک خارجہ امور اور اقوام عالم سے تعلقات کے باب میں پاکستان کی آزادی وخودمختاری کا احترام کرتا ہے لہذا کانفرنس میں پاکستان کی شرکت یا عدم شرکت سے پاک چین تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم ورچول سمٹ سےلاتعلقی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کو چین کا ’ آہنی بھائی‘ قراردیا ہے۔ دوسری طرف وہائٹ ہاوس نے پاکستان کی جانب سےشرکت سے معذرت پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ہم کانفرنس میں شرکت نہ کرنے والے ملکوں سے جمہوریت کو مضبوط کرنے، انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دینے اور بد عنوانی کے خاتمے پر بات چیت جاری رکھیں گے۔ (حوالہ: وائس آف امریکا)
افغانستان کے مسئلے پر صدر بائیڈن نے عمران خان کو اس حد تک نظر اندازکیا کہ انھیں ایک رسمی فون کال تک نہ کی اور بہت ممکن ہے کہ امریکی صدر کی اس سرد مہری کے جواب میں کپتان نے آن لائن نہ آنے کا فیصلہ کیا ہو۔
ہندوستان کے صحافتی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ منگل کی رات ایک اعلیٰ چینی سفارت کار کی ٹیلی فون کال نے پاکستان کے انکار میں کردار ادا کیا اور دوسرے دن یعنی 8 دسمبر کو اسلام آباد نے کوئی وجہ بتائے بغیر خود کو ’سمٹ فار ڈیموکریسی‘ سے الگ رکھنے کااعلان کردیا۔
یہ درست کہ عمران خان نے کانفرنس میں شرکت نہ کرکے اقوام عالم کے سامنے کرپشن کے خلاف اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ضائع کردیا لیکن سمٹ برائے جمہوریت کا برائے نام بھی جمہوریت سے کوئی تعلق نہ تھا۔امریکا کی عسکری قوت، سراغرسانی کی صلاحیت اور سیاسی و اقتصادی اثرورسوخ نے دنیا بھر میں آمریت کے فروغ اور عوامی امنگوں کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ سلسلہ گزشتہ 68 سال سے جاری ہے اور اس رویئے میں تبدیلی کا بظاہر کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 تا 25 دسمبر 2021