جشن یوم آزادی محاسبے کا دن ہے
نفرت کی سیاست آزادی کے مقاصد میں حائل ۔ جناب ملک معتصم خان سے بات چیت
وسیم احمد
ملک میں یوم آزادی کا جشن انتہائی تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ اس جشن کی اصل روح کیا ہے اس پر گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نیشنل سکریٹری جناب ملک معتصم خاں نے کہا ’’یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہر سال ہم اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں یہ اقوام عالم کا مزاج ہے اور ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ مگر یہ جشن آزادی محض ایک رسم نہ رہ جائے اس کے لیے ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ گزشتہ 74 سالوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اپنی قومی پیش رفت، ترقی و بہبود کی رفتار، آزادی کے ممکنہ ثمرات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی سالمیت کی بقاء کے تئیں کی جانے والی کوششوں کا محاسبہ کرنے کا نام جشن آزادی ہے۔ ہمارا اپنا دستور ہے، ہماری منتخب کردہ حکومت ہے اور نظامِ حکومت جمہوری ہے جس میں سب کو برابری کا حق دیا گیا ہے۔ یقیناً ہم نے قابض برطانیہ سے آزادی حاصل کرلی ہے ہر شخص کو کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ آزادی سے ہمیں جینے کا اصل احساس ملا ہے مگر کیا واقعی یہی آزادی ہے جس کے لیے ہمارے آباء و اجداد نے جدوجہد کی تھی؟ آزاد ملک کے لیے ہمارے اسلاف نے جو قانون و دستور بنایا تھا کیا اس کی اصل روح آج باقی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ آج آزادی کا اصل مقصد ہی پس پشت چلا گیا ہے، دستور کی روح کمزور پڑگئی ہے اس کی جگہ فاشزم ابھرتا نظر آ رہا ہے۔ حقیقی آزادی تب ہی کہی جاسکتی ہے جب ہم پورے ہندوستان اور اس میں بسنے والے تمام طبقات کو اس راستے پر لے کر چلیں جس پر چلنے کا تقاضہ ہمارا دستور کرتا ہے۔ آزادی نے ہمیں جو خود مختاری دی تھی وہ کسی ایک مخصوص طبقے، نسل یا خطے کے لیے نہیں تھی بلکہ سب کو یکساں ترقی کے مواقع اور مساوات کا حق دیا تھا۔ آزادی، انصاف، حقوق و بھائی چارگی اور مساوات کو دستور میں بنیادی حیثیت دی گئی تھی مگر آج عملی طور پر یہ سب کمزور نظر آرہا ہے۔ آزادی کے ستر سال گزر جانے کے باوجود ہمارا ذہن انگریزوں کے بچھائے ہوئے جال سے نجات نہیں پا سکا ہے۔ فرقہ پرستی کی شکل میں ہم آج بھی اپنے دستور اور آزادی کے لیے کی جانے والی جدو جہد کے خلاف نقش بنا رہے ہیں۔ فرقہ پرستی، ہندو-مسلم، دلت برہمن، زبان و مذہب، نسل اور صوبہ کے نام پر نفرت کی نحوست سے ہم باہر نہیں آسکے ہیں۔ عدم مساوات، مذہبی، لسانی، طبقاتی اور سیاسی تفریق کا دبدبہ ہمارے ذہن و دل پر حاوی ہے۔ ظاہر ہے یہ آزادی کے مقاصد کے خلاف ہے۔ جدوجہد آزادی کے معماروں نے ہندوستان کو جس راہ پر گامزن کرنے کا خواب دیکھا تھا اس راہ سے ملک ہٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال ہے کہ کیا ملک کا خواب پورا ہوگیا؟ ہرگز نہیں! بلکہ یہ خواب اسی وقت پورا ہوگا جب پورا ہندوستان ترقی کرے گا، پسماندہ طبقات کو ترقی کے عمل میں مساوات کی بنیاد پر شامل کیا جائے گا۔ عدم مساوات اور طبقاتی تفریق کی وجہ سے ملک کمزور ہو رہا ہے ۔مسلمان اور پچھڑے طبقات اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف طویل عرصے سے نبرد آزما ہیں۔ انہیں آج بھی سماجی تفریق کا سامنا ہے۔ البتہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کی مطابق مسلمانوں سے دلتوں کی حالت قدرے بہتر ہے۔ مسلمان جو کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں، تعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے وہ اب بھی ملک میں سب سے پیچھے ہے۔ ادھر کچھ برسوں میں ان کے ساتھ مذہبی تفریق کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا اور اصل میڈیا میں قوم پرستی کی لہر جاری ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات پوسٹوں اور تبصروں کا ایک منظم سلسلہ رواں ہے۔ مسلمانوں کی یہ حالت حکومتوں کی عدم توجہ کی وجہ سے بنی ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو آزادی کے بعد سے ہی یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ البتہ 2014ء کے بعد اس میں شدت آئی ہے اور مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ مذہبی تشدد کو ہوا دینے کے پیچھے سامراجی سوچ رکھنے والی کچھ ذہنیتیں ہیں جو ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے زعم میں مخصوص طبقے کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ یہ سامراجی سازشوں کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ ان سے پاکستان جانے کی بات کرتے ہیں، وہ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ تقسیم کے وقت یہاں کے مسلمانوں نے بائی چوائس اس ملک کو اختیار کیا تھا اور پاکستان کے بجائے ہندوستان کا انتخاب کیا تھا۔ جب ملک کا آئین بنا تو اس میں انہیں سب کے برابر حقوق دیے گئے۔ فرقہ پرست ذہنیت کے افراد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس وقت ملک انتہائی زبوں حالی سے گزر رہا ہے۔ پریشان سب ہیں، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب کے ساتھ مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ روزگار کے فقدان اور اقتصادیات کی گراوٹ نے سب کو متاثر کیا ہے جس کے شکار سب ہوئے ہیں اور سب اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ البتہ غیر مسلم روزگار اور معیشت کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو مسلمان اس کے ساتھ ایک اور یعنی اپنے وجود کو باقی رکھنے کی لڑائی بھی لڑ رہے ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف جو نفرت کی فضا بنائی گئی ہے اس کی وجہ سے میں ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں میں فکر مندی اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ آزادی کے جو اصل مقاصد تھے انہیں حاصل کرنے میں ہم ہنوز ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس ماحول سے باہر نکلنے کے لیے مسلمانوں کو اعتماد میں لینا ہوگا اور اتحاد باہمی کے ساتھ اس مایوس کن صورتحال کا مقابلہ کرنا ہوگا‘‘۔
ملک میں اس وقت مسلمانوں کے خلاف جو لہر چل رہی ہے وہ کم و بیش آزادی کے بعد سے ہی شروع ہو چکی تھی، حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے اس کی جڑ اب مضبوط ہوگئی ہے مسلمان اس کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایسے حالات میں انہیں مظلومیت سے باہر نکلنے کے لیے خود کو قائدانہ کردار میں آگے آنا چاہیے۔ اگرچہ اس کردار کو ادا کرنے میں انہیں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا مگر انہیں حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ جناب ملک معتصم خاں نے برادران وطن کو یہ پیغام دیا کہ ’’وہ طبقاتی اور نسلی تفریق کو مٹا کر ملک کی تمام برادریوں کو ساتھ لے کر چلیں، نفرت کی سیاست کو چھوڑ دیں، ایسی سیاست ملک کو شدید نقصان پہنچاتی ہے اور ملک کو آزادی کے مقاصد سے دور کرتی ہے۔ مسلمان اسی زمین سے پیدا ہوئے ہیں اور یہیں رہیں گے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے باوجود عوامی جمہوریہ ہندوستان کو منتخب کیا ہے۔ لہٰذا ایک طبقے کے دوسرے طبقوں پر فوقیت کا رجحان مٹ جانا چاہیے، ملک کی معروف روایات اور یکجہتی کو مضبوط کریں اوراتحاد باہمی سے آزادی کے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ دوسری طرف انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ جمہوریت کے مفہوم کو سمجھیں، اس کے اقدار کو آگے بڑھائیں، آزادی کے مقاصد اور اپنے اسلاف کی قربانیوں کا خیال رکھیں اور اعلیٰ مقاصد کے لیے جدو جہد کریں اور دستور ہند کے تقاضوں کے مطابق سماجی ہم آہنگی اور مضبوط ہندوستان بنانے کے کردار پر عامل رہیں۔
حقیقی آزادی تب ہی کہی جاسکتی ہے جب ہم پورے ہندوستان اور اس میں بسنے والے تمام طبقات کو اس راستے پر لے کر چلیں جس پر چلنے کا تقاضہ ہمارا دستور کرتا ہے۔ آزادی نے ہمیں جو خود مختاری دی تھی وہ کسی ایک مخصوص طبقے، نسل یا خطے کے لیے نہیں تھی بلکہ سب کو یکساں ترقی کے مواقع اور مساوات کا حق دیا تھا