’’جسے دیکھو اسے گولی مار دو‘‘: میانمار کے دو سابق فوجیوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی تشدد کی تصدیق کی

میانمار، ستمبر 9: نیوز ایجنسی اے پی نے منگل کے روز انسانی حقوق کے ایک گروپ کے حوالے سے بتایا کہ میانمار آرمی کے دو سابق فوجیوں نے گواہی دی ہے کہ انھیں کمانڈنگ آفیسرز کی طرف سے ہدایت دی گئی تھی کہ اس گاؤں میں جہاں روہنگیا مسلم رہتے تھے ’’جسے دیکھو یا سنو اسے گولی مار دو۔‘‘

ان تبصروں کو فوجی اہلکاروں کی طرف سے اس بات کا پہلا عوامی اعتراف مانا جا رہا ہے کہ بدھ اکثریتی ملک میں روہنگیا مسلم برادری کے خلاف فوج کے زیرقیادت قتل عام، عصمت دری اور تشدد کے واقعات ہوئے تھے۔

فورٹیفائی رائٹس گروپ، جو میانمار پر توجہ مرکوز کرتا ہے، نے بتایا کہ ان دو افراد نے شمالی راکھین ریاست میں دیہاتیوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ اس گروپ نے مزید کہا کہ وہ گذشتہ ماہ ملک سے فرار ہوگئے تھے اور مانا جارہا ہے کہ انھیں ہالینڈ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی تحویل میں رکھا گیا تھا، جو نسلی برادری کے خلاف تشدد کی جانچ کر رہی ہے۔

دی نیویارک ٹائم کے مطابق دونوں فوجیوں کی گواہی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے ثبوتوں کی تصدیق کرتی ہے۔

اخبار کے مطابق ایک ویڈیو پیغام میں میو وِن تن نے کہا کہ 2017 کا حکم واضح تھا: ’’آپ جسے دیکھیں یا سنیں اسے گولی مار دیں۔‘‘ اسی طرح زاؤ نینگ تن نے کہا کہ ان کی بٹالین کو حکم دیا گیا تھا کہ ’’سب کو مار ڈالو، چاہے بچے ہوں یا بڑے۔‘‘

ان دونوں نے کہا ہے کہ انھوں نے احکامات کی تعمیل کی اور 30 سے زائد روہنگیوں کے قتل میں اور انھیں اجتماعی قبروں میں دفن کرنے میں بھی حصہ لیا۔

فورٹیفائی رائٹس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر میتھیو اسمتھ نے کہا ’’روہنگیا اور میانمار کے عوام کے انصاف کے لیے جاری جدوجہد میں یہ ایک یادگار لمحہ ہے۔ یہ میانمار کے پہلے مجرم ہوسکتے ہیں جن پر آئی سی سی [بین الاقوامی فوجداری عدالت] میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور عدالت میں ان کی گواہی ہو سکتی ہے۔‘‘

انسانی حقوق کے گروپ نے بتایا کہ ان دونوں سابق فوجیوں نے میانمار کی فوج کے 19 براہ راست مجرموں کے نام اور ان کے درجات بھی بتائے، جن میں وہ خود بھی شامل تھے اور ساتھ ہی ساتھ 6 سینئر کمانڈر بھی۔

معلوم ہو کہ نومبر 2019 میں گیمبیا نے میانمار کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ درج کیا تھا، جس میں اس نے روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف نسل کشی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کیس کی حمایت آرگنائزیش فار اسلامک کوآپریشن کی 57 رکنی تنظیم کے علاوہ کینیڈا اور ہالینڈ نے بھی کی۔

اس سال جون میں بین الاقوامی عدالت نے میانمار کو حکم دیا تھا کہ وہ مظلوم روہنگیا مسلم کمیونٹی کے تحفظ کے لیے عارضی اقدامات کرے۔