ذیشان آزاد
ملک کے وزیراعظم کو ایک کام بخوبی آتا ہے اور وہ ہے اپنے آپ کو سرخیوں میں سجائے رکھنا۔ وہ کچھ ایسا کام کر دیتے ہیں کہ جس سے لوگ حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ سوشل میڈیا کی دنیا کو خیر آباد کہنے والے ہیں، پھر کیا تھا مین اسٹریم میڈیا ہمیشہ کی طرح مودی ،مودی کرنے لگا، تصورات کی دنیا قائم ہوگئی، امکانات کے محلات تعمیر ہونے لگے، سوال وجواب کا دور چلنے لگا، ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ٹویٹر واٹس ایپ فیس بک کا کوئی متبادل آجائے گا، ایک نئے پلیٹ فارم کا آغاز ہوگا، میڈیا کی ہیڈ لائنز تیار ہونے لگیں، کیا ہے پی ایم مودی کا ماسٹر پلان؟ کیا ٹویٹر واٹس ایپ اور فیس بک پر لگے گی پابندی؟ کیسے جڑیں گے وزیراعظم عوام سے؟ اور بھی بہت سارے ہیڈ لائنز کے پنچ مارے جانے لگے۔ لیکن دوسرے ہی دن خود پی ایم نے سوشل میڈیا کو ترک کرنے والے راز سے پردہ اٹھا دیا۔ پی ایم نے دوسرا ٹویٹ کیا اور اس میں لکھا کہ وہ عالمی یوم خواتین کے موقع پر اپنے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو خواتین کے نام وقف کریں گے اور اس طرح سے وزیراعظم نے جہاں مین اسٹریم میڈیا کو الجھائے رکھا وہیں خواتین کے نام سوشل میڈیا کو وقف کرنے کے عمل کو جذبات سے جوڑ دیا۔یہ وہی وزیر اعظم ہیں جو اپنی والدہ سے ملاقات کرنے کے لیے بھی جاتے ہیں تو میڈیا کو ساتھ لے کر جاتے ہیں، دن بھر وزیراعظم کی اپنی والدہ سے ملاقات کی رپورٹنگ میڈیا پر چلتی رہتی ہے، گویا ماں بیٹے کی ملاقات نہ ہوئی ایک سرکاری کام ہوا۔
پی ایم مودی جب فیس بک کے بانی مارک زکربرگ سے ملے تو انہوں نے اپنی والدہ کی درد بھری کہانی سنائی اور کیمرے کے سامنے رونے لگے۔
۷مارچ کو وزیر اعظم ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے Pradhan Mantri Bhartiya Janaushadi Pariyojana کے استفادہ کنندگان سے مخاطب تھے، ملک کی کئی ریاستوں سے لائیو پی ایم مودی سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے افراد جڑے ہوئے تھے، استفادہ کنندگان اپنی روداد سنا رہے تھے، وہ بتا رہے تھے کہ انہوں نے اس اسکیم سے کس طرح فائدہ اٹھایا، کوئی بتا رہا تھا کہ اسکیم سے کئی ہزار روپے کی بچت ہوئی، تو کوئی اس اسکیم کی پہنچ گاوں تک ہونے کی گزارش کر رہا تھا، اسی دوران دہرادون کی دیپا شاہ وزیراعظم سے ہمکلام ہوئیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی خدا کو نہیں دیکھا لیکن وزیر اعظم کی شکل میں وہ خدا کو دیکھ سکتی ہیں۔ بس پھر کیا تھا پی ایم مودی اچانک جذباتی ہوگئے، انہوں نے اپنا سر جھکا لیا ان کی آنکھیں تر ہونے لگیں کچھ دیر تک خاموش رہے۔ اور اب باری آئی میڈیا کی، میڈیا کی باچھیں کھل گئیں اس کو زبردست مواد مل گیا، ہر چینل پر وہی روتا ہوا چہرہ، وہی خداؤں کی باتیں، وہی جذباتی لمحہ، وہی آنکھوں کا تر ہونا، وہی تھوڑی دیر کی خاموشی، گویا وزیر اعظم کلیم عاجز کی زبانی کہہ گئے ہوں۔
یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے
مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے
لیکن اسی وقت میرے ذہن میں کئی باتیں گردش کرنے لگیں۔ اگر وزیراعظم اتنے ہی جذباتی ہیں، انسانیت کا اتنا ہی درد رکھنے والے ہیں تو دلی فسادات پر ان کی آنکھیں تر کیوں نہیں ہوئیں 50سے زیادہ لوگوں کی موت پر ان کا دل چھلنی کیوں نہیں ہوا؟ وزیر اعظم ویران گھروں کو اجڑی بستیوں کو دیکھنے کب جائیں گے؟ بیواؤں یتیموں اور مظلوموں کا حال کب دریافت کریں گے؟
یوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آؤ اس وقت کہ جس وقت پکارے جاؤ
ہو سکتا ہے وزیر اعظم ایک دو مہینے بعد عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہیں گے کہ دشمنی مجھ سے ہے تو مجھے مارو لیکن فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر آنچ نہ آنے دو،،، پھر وزیر اعظم کا جذباتی ویڈیو میڈیا پر چلے گا، ان کا یہ ویڈیو بار بار چلایا جائے گا، وزیر اعظم کا ’’انسانیت نواز‘‘ اور’’ہمدردانہ‘‘ رویہ سب کے سامنے لایا جائے گا اور گودی میڈیا اس کام میں پیش پیش رہے گا۔