جامعہ ملیہ کی وائس چانسلر کے خلاف محاذ آرائی
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کارروائی کی سخت نکتہ چینی کرنے والی وائس چانسلر نجمہ اختر کو اب عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان کو ہٹانے کا مطالبہ اس رکن نے کیا ہے جو ان کی تقرری کرنے والی سرچ کمیٹی میں شامل تھا، اس کے لیے اس نے صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کو خط لکھا ہے جس میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ دس جنوری 2019 کو سنٹرل ویجیلنس کمیشن یعنی سی وی سی نے نجمہ اختر کی تقرری کو ہری جھنڈی نہیں دی تھی۔ حالانکہ اس خط میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ سی وی سی نے کن وجوہات کی بنا پر اعتراض کیا تھا،لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب سی وی سی نے ہری جھنڈی نہیں دکھائی تھی تو پھر نجمہ اختر کی تقرری کیسے عمل میں آئی؟
سی وی سی کے اعتراض کے ایک سال بعد کیوں ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے؟اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ جنہوں نے تقرری کی تھی وہی اب انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟ان سوالوں کے جوابات اس خط میں تو نہیں ہیں لیکن اس سے پہلے جامعہ میں جو کچھ ہوا اسی میں پوشیدہ ہوں!
دراصل 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی کھلی بربریت دنیا کے سامنے آئی جس کے خلاف نجمہ اختر نے ویڈیو جاری کر کے پولیس پر سخت تنقید کی تھی اور پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی بھی بات کی تھی۔
اب ظاہر سی بات ہے بی جے پی اور وزیر داخلہ امت شاہ دلی پولیس کی شان میں قصیدے پڑھتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی پولیس کی کارروائی کی تعریف کی۔ ایسے میں نجمہ اختر کی باتیں مودی حکومت کو خوش کرنے والی تو نہیں ہوں گی۔
ایک درباری کو مِلّی حق کا ساتھ دینے کی سزا!!
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اَب بھی ہے!