جامعہ ملیہ، شاہین باغ اور گھنٹہ گھر سب یاد ہے نا…!
احتجاج کے دو سال مکمل ہونے پر شاہین باغ۔2کی تیاری
حسن آزاد
مسلمان ہی نہیں ہندو، سکھ اور عیسائی بھی سی اے اے کے ہوں گے شکار: ایڈووکیٹ محمد شعیب
متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف تاریخی اعتبار سے آزاد بھارت میں بھلے ہی کسانوں کا سب سے طویل مدتی اور کامیاب احتجاج رہا ہو لیکن متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تھا۔رواں سال تحریک کے دوسال مکمل ہونے پر ملک کے مختلف مقامات پر شاہین باغ کو یاد کیا گیا۔متنازعہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ اگرچہ شمال مشرقی ریاستوں سے شروع ہوا لیکن بعد میں مختلف سماجی تنظیموں اور یونیورسٹیوں سے ہوتا ہوا ’شاہین باغ‘ تک پہنچا۔ جو بعد میں ایک علامت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی شاہین باغ سے کسانوں کوبھی تحریک ملی۔ لیکن اس سے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ نے احتجاج کا وہ صور پھونکا کہ جس سے پورے ملک میں بیداری کی لہر دوڑ گئی تھی ۔جامعہ کے بعد اے ایم یو، جے این یو، دہلی یونیورسٹی، ممبئی، کولکاتہ، چنئی، احمد آباد وغیرہ کی مختلف یونیورسٹیوں، آئی آئی ٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں عدیم المثال مظاہرے اور احتجاج ہوئے۔ کسان تحریک اگرچہ ایک سال سے زائد عرصہ چلی لیکن اس کا دائرہ بہت محدود تھا۔ 13اور 15دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلباء پر پولیس کی بربریت کو تاریخ کے اوراق میں رقم کردیا گیا ہے۔ دلی پولیس کی حیوانیت و بہیمیت کاثبوت آج بھی ویڈیوز کی شکل میں ہر جگہ موجود ہیں۔کئی سماجی کارکنوں کو جیلوں کے اندر ٹھونس دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دلی فسادات کے مقدمات میں عدالت کے ذریعہ دلی پولیس کی تحقیقات پر بار بار سوال اٹھائے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دلی پولیس کا چارج شیٹ اور دلی فسادات کی مناسب تفتیش کے ذریعہ فسادیوں اور اصل مجرموں کو پکڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اب تک دلی پولیس 750 میں سے صرف 35 افراد کے خلاف ہی چارج شیٹ داخل کر پائی ہے۔
2019ء کے اخیر اور 2020ء کے ابتدائی مہینوں میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019ء کے خلاف پورا ملک ایک پلیٹ فارم پر نظر آیا، جگہ جگہ مظاہرے ہوئے، احتجاجی مارچ نکالے گئے، حکومت کے خلاف نعرے بلند کیے گئے یہاں تک کہ دوسرے ممالک میں بھی سی اے کے خلاف احتجاجی پروگرام ہوئے۔ علامتی طور پر ملک میں شاہین باغ کا مظاہرہ اور دھرنا زیادہ مشہور ہوا۔ دوسری طرف حکومت کے خلاف اٹھنے والی اس طاقتور آواز کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی گئی، جانب دار میڈیا نے پروپیگنڈے کے طور پر اسے پاکستان کا ایجنڈا قرار دیا، دلی کا الیکشن بھی شاہین باغ کے نام پر لڑا گیا، خود وزیر داخلہ امت شاہ نے انتخاب کی تشہیری مہم میں کہا تھا کہ” بٹن اتنے زور سے دباو کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے” وہیں ہمیشہ متنازعہ بیانات کے ذریعے سرخیوں میں رہنے والے بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے کہا تھا کہ” دلی کا الیکشن پاکستان بمقابلہ ہندوستان ہوگا” اس کے علاوہ شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھنے والی خواتین کو بھی بدنام کرنے کی پوری کوشش کی گئی، الزام لگایا گیا کہ وہ پانچ پانچ سو روپے لے کر دھرنے پر بیٹھ رہی ہیں لیکن الٹ نیوز، این ڈی ٹی وی نے اس جھوٹ کا پردہ چاک کر کے صحافت کا حق ادا کیا۔
لکھنؤ کے حسین آباد میں واقع ملک کا سب سے اونچا (222 فیٹ) clock tower جو گھنٹہ گھر کے نام سے جانا جاتا ہے وہ خواتین کے فولادی جذبہ قربانی کو پہلی بار دیکھ رہا تھا، جن پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، پولیس کی کارروائیاں ہو رہی تھی، انہیں کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تھا، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ آئین کی محافظ تھیں، امن و امان کی علمبردار تھیں۔
شاہین باغ کی طرز پر گھنٹہ گھر پر شہریت قانون، این پی آر اور این آر سی کے خلاف خواتین کئی دنوں تک دھرنے پر بیٹھی رہیں، انہیں کئی گھنٹوں تک بھوکا پیاسا رکھا گیا، ان کے کھانے پینے کے سامان کو پھینک دیا گیا یہاں تک کہ ان خواتین کو رفع حاجت کے لیے بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور ستم بالائے ستم یہ کہ انہیں ٹینٹ لگانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی، مستقل بے موسم بارش کی وجہ سے خواتین بیمار ہونے لگیں اور اس دوران کئی خواتین جاں بحق بھی ہوئیں۔ جی ہاں! فریدہ، طیبہ اور شمس النساء شہریت قانون کے خلاف لڑتے لڑتے اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔پھر بھی ان خواتین کے حوصلے بلند تھے، یو پی کی یوگی حکومت نے ان کے جذبے کو کم کرنے کی خوب کوشش کی لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی۔
مظاہرین کو ہٹانے کے لیے یو پی پولیس نے ان کے خلاف نوٹس بھی جاری کیا لیکن مظاہرہ جاری رہا، شہریت قانون کے خلاف دھرنے میں شامل خواتین کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی، ٹریفک نظام کو متاثر کرنے اور نظم ونسق میں خلل ڈالنے کا الزام لگایا گیا۔
اسی طرح حیدرآباد، کانپور، بنگلورو، بھوپال، راجستھان اور ملک کے مختلف علاقوں میں شاہین باغ کی طرز پر احتجاج و مظاہرے کیے گیے۔ یہ احتجاج کامیابی کی منازل طئے کر رہی رہا تھا کا اس پر کورونا کے بادل منڈلانے لگے اور اس بہانے حکومت کو متنازعہ شہریت قوانین کے خلاف احتجاج کے شعلہ جوالا میں ٹھنڈا پانی ڈالنے کا موقع مل گیا اور بالآخر ایک سو ایک دنوں کے بعد شاہین باغ کا احتجاج ختم ہو گیا۔
اب متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کامیاب احتجاج کے بعد پھر سے انتہائی متنازعہ قانون سی اے اے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ شاہین باغ-2 کے نام سے دوبارہ تحریک شروع ہونے کے امکانات ظاہر ہورہے ہیں۔پھر حق کے متوالے اور علم بردار میدان میں اترنے کے لیے کمر کستے ہوئے نظر آرہے ہیں۔دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے نفاذ کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے احاطے میں احتجاج کرنے والے طلباء کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن کی دوسری برسی کے موقع پر، طلباء، کارکنان اور دیگر سول سوسائٹی کے ارکان نے 15 دسمبر کو پولیس کے ظلم کو یاد کیا اور ملک میں جمہوریت کو بچانے کے لیے سی اے اے مخالف مظاہروں کے جذبے کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ دلی کے پریس کلب آف انڈیا میں دلی پولیس کی کارروائی کے دو سال مکمل ہونے پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف پولیس کی زیادتیوں کو سامنے لاتے ہوئے ایک تصویری نمائش بھی رکھی گئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق مصنفہ فرح نقوی جنہوں نے تقریب کی نظامت کی، کہا کہ یونیورسٹی کو بدنام کرنے اور اس کے طلباء کو دہشت گرد قرار دینے کی تمام کوششوں کے باوجود، یونیورسٹی پہلے نمبر پر ہے۔ واضح ہو کہ قومی تشخیص اور رسمی منظوری کونسل (NAAC) نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ++A گریڈ سے نوازا ہے۔ نیک ٹیم کا دورہ چھ تا آٹھ دسمبر 2021ء کے درمیان مکمل ہونے کے بعد اس رینکنگ کا اعلان ہوا ۔
حیدرآباد میں سماجی کارکنوں کے ایک گروپ نے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف مشہور شاہین باغ احتجاج کی دوسری سالگرہ منائی۔ یہ تقریب 16 دسمبر بروز جمعرات لامکان میں منعقد ہوئی۔تقریب کی کنوینر ماہر تعلیم شیلا سارہ میتھیوز تھیں۔ لامکان میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، شہر کی ایک سماجی جہدکار خالدہ پروین نے کہا کہ ’’حکومت کو CAA منسوخ کرنا ہی ہو گا اور NRC سے کو پس پشت ڈالنا ہو گا۔ اگر 2019ء میں تشدد اور ظلم دوبارہ ہوا تو ہم احتجاج کریں گے اور ایک اور شاہین باغ شروع کریں گے۔ بہار کی راجدھانی پٹنہ میں واقع بدھ اِسمرتی پارک سمیت کئی مقام پر سماجی کارکن جمع ہوئے۔ واضح ہو کہ نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( این ای ایس او ) کی جانب سے گوہاٹی میں زبردست احتجاج کیا گیا اور اس قانون کے دو سال کی تکمیل کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔
شاہین باغ۔2کے حوالے سے دعوت نیوز نے یو پی میں رہائی منچ کے صدر ایڈووکیٹ محمد شعیب سے خاص بات چیت کی۔ محمد شعیب ان 1,240 لوگوں میں شامل تھے جنہیں یو پی پولیس نے ریاست میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا، جنہوں نے جیل سے رہائی کے فوری بعد پہلے ’گھنٹہ گھر‘ کا رخ کیا تھا اور بعد میں شاہین باغ کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ جہاں انہوں نے تین دن قیام کیا اور شاہین باغ کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ جب دعوت نیوز کے نمائندے نے ایڈووکیٹ محمد شعیب سے دریافت کیا کہ کیا متنازعہ شہریت ترمیمی کے خلاف پھر سے اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، اگر ہے تو اسے پروان کیسے چڑھایا جائے؟ تو انہوں نے کہا کہ احتجاج کو پروان چڑھانے کے لیے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کالے قانون کی زد میں صرف مسلمانان ہند ہی نہیں آئیں گے بلکہ اگر ریاست اتر پردیش کی بات کی جائے تو یہاں کے مسلمان زمیندار ہیں وہ تو کسی طرح سے بھی اپنی شہریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن زیادہ تر دلتوں، پچھڑوں اور غریبوں کو پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایڈووکیٹ شعیب نے مزید کہا کہ سی اے اے کے حوالے سے غلط فہمی پیدا کی گئی اور یہ باور کرایا گیا کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف ہے جبکہ یہ ادھوری حقیقت ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جو شخص برسوں سے ملک میں رہ کر آسام میں شہریت ثابت نہیں کر سکا وہ بھلا پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے کا ثبوت کیسے پیش کر پائے گا۔ در حقیقت حکومت غلامی کی زنجیر میں سب کو جکڑ دینا چاہتی ہے اور جیل کی مانند ڈیٹینشن سنٹر میں سب کو ٹھونس دینا چاہتی ہے اور حکومت سرمایہ کاروں کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ ایڈووکیٹ محمد شعیب نے مزید کہا کہ اگرہندو،مسلم، سکھ اور عیسائی متحد ہو کر سی اے اے کے خلاف ڈٹ جائیں تو حکومت جھکنے پر ضرور مجبور ہو گی۔
بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کس قدر لوگوں میں بیداری پیدا ہوتی ہے۔ کیا حکومت اس قانون کو بھی واپس لینے پر مجبور ہو جائے گی اور پہلے سے بھی زیادہ طاقتور انداز میں تحریک زندہ ہوگی جو سماجی اور مذہبی فرقہ وارانہ اتحاد اور ہم آہنگی سی اے اے تحریک کے اندر دیکھی گئی تھی اور کسان تحریک نے جس کو اپنایا بھی تھا اس سے امید کی جانی چاہیے کہ شاہین باغ۔2 میں بھی اپنی تمام تر تحریکات، احتجاجات اور مظاہروں میں وہ خوبیاں باقی رہیں گی اور عوام کو ظالم حکومتوں کے خلاف حوصلہ دیتی رہیں گی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 دسمبر تا 1 جنوری 2021