تکثیری سماج کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت

نفرت کا خاتمہ مسلمانوں کو ہی کرنا ہے

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

 

بدلتے ہوئے سماجی رویوں کا ادراک ضروری
انسانی تاریخ میں جب بھی کوئی ناروا اور غیر مناسب واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے اثر سے انسانیت کو محفوظ ومامون رکھنے کے لیے جدوجہد کی جاتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کائنات کے بہت سے امور میں امداد باہمی اور اجتماعی عناصر کی تشکیل کا بڑا رول رہا ہے۔ ہندوستانی فکر وفلسفہ کی بات کریں تو پتہ چلتا ہےکہ ہندو فکر وفلسفہ میں ویدک عہد سے گیتا تک محبت، عبادت اور عمل (کرم) کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ آچاریہ پرشورام چترویدی نے لکھا ہے ’’کبیر صاحب سے لے کر مہاتما گاندھی تک تقریباً چار سو سال کا طویل عہد ہے جس میں کردار کی قوت کی ضرورت، ضبط نفس کی اہمیت، میل ملاپ اور انکساری کے اصول، عالم گیر محبت اور عالمی امن کے خواب دیکھنے والے متعدد بزرگ پیدا ہوئے‘‘ آج بھی ہندوستانی معاشرے کو انہی اصولوں اور روایات کی ضرورت ہے جن کے اندر ایسے عوامل پائے جاتے ہوں جو ہمیں ہندوستان کی روحانیت کا احساس دلا سکیں۔ وہی قومیں اور معاشرے اپنے وجود کو برقرار رکھ پاتے ہیں جن کے اندر انسان دوستی اور حقوق کی بہتر طور پر شناخت کا جذبہ صادق موجود ہو۔ آج سوچنے کی بات یہ ہے کہ تکثیری سماج میں مسلم کمیونٹی کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ جب ہم بات کرتے ہیں ہندوستانی تہذیب کی تو پھر ہمیں یہ خیال بھی رکھنا ہو گا کہ ہمارا وطن رنگا رنگی اور ادیان و مذاہب کا علمبردار ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنی ترجیحات اور چیزوں کو حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مسائل کا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ تاریخ کا شائد ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں مسائل پیدا نہ ہوئے ہوں۔ آج سب سے زیادہ پریشانی کا سبب وہ مسائل ہیں جو ہم نے خود اختراع کیے ہیں۔ کبھی مسلک کے نام پر تو کبھی تنظیم وجماعت کے یا پھر عقیدت کے نام پر۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو بظاہر تو اچھی لگتی ہیں لیکن اس کے نتائج بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہوتے۔ حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے نہ صرف اپنی اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا بلکہ ایسے ضابطے اور اصولوں کو تخلیق کرنا ہوگا جن سے بہر حال انسانیت فلاح وبہبود سے ہمکنار ہو سکے۔ ہمارے درمیان جاری کسی بھی طرح کی کشمکش اور کشیدگی کو فوری طور پر ختم کیا جا سکے۔ موجودہ تصورات ونظریات جو چیزیں پیش کر رہے ہیں ایک طرف ان سے اتفاق کرنے والا گروہ موجود ہے تو دوسری طرف ایک گروہ ایسا بھی جو پورے وثوق کے ساتھ عدم اتفاق کرتا ہے۔ کسی بھی نظریہ کو بالکل نہ کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے کلی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ البتہ کسی بھی فلسفہ پر بلا سوچے سمجھے عمل کرنا یا بالکل نظر انداز کردینا، در اصل یہ دونوں باتیں الجھن کا باعث ہیں۔ اسی سے معاشرے کے توازن اور ہم آ ہنگی پر ضرب لگتی ہے جو نہ صرف انسان دوستی کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ کسی بھی سنجیدہ اور باشعور سماج کے لیے مناسب عمل نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ ہمیں ان حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جن کی اس وقت ضرورت ہے۔ مثلآ ہندوستانی سماج تکثیریت وتعدد پر مبنی ہے۔ اس کی اپنی خصوصیات وضروریات ہیں۔ اب ہمیں اسلامی تعلیمات کے تناظر میں ایسے اصول مرتب کرنے ہوں گے جن سے اسلامی تعلیمات پر بھی حرف نہ آ نے پائے اور نہ ہی معاشرے کی مشترکہ اقدار مجروح ومخدوش ہوں۔ دوسری طرف اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت ہمارے سامنے جو سب سے بڑی جنگ ہے وہ مذہب اور جدیدیت کی ہے۔ جدیدیت سے وابستہ طبقہ مذہب کو غیر ضروری اور سماجی ترقی میں رکاوٹ سمجھتا ہے تو وہیں مذہبی طبقہ بھی بہت حدتک جدیدیت کے کسی بھی اصول سے متفق نہیں ہے۔ اسی نظریہ کو ڈاکٹر سید عبدالباری نے اپنی کتاب انسان دوستی اور جمہوریت میں اس طرح پیش کیا ہے ’’یورپ کی گزشتہ پانچ صدیوں میں انسان دوستی کا ہمیں مختلف رنگ روپ کا متواتر ذکر ملتا ہے، اس کے مختلف مکاتب فکر رہے ہیں، ان سب نے انسان کو اپنا محور گفتگو بنایا ہے۔ لیکن ان میں اس بات پر زبردست اختلاف رہا ہے کہ انسانی فلاح کے مقصد کو کس طرح حاصل کیا جائے۔ ایک بڑی تعداد خدا اور مذہب کو پس پشت ڈال کر بلکہ اس کے بارے میں حریفانہ طرزِ فکر اختیار کر کے انسان دوستی کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتی ہے۔ ان کے نزدیک آزاد خیالی کے بغیر اس وادی میں قدم بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ ایک محدود تعداد ایسے مفکرین کی بھی نظر آتی ہے جو خدا کے صحیفوں کی قائل اور اخلاقی اقدار کی حامی اور مذہبی تعلیمات کو انسان دوست بننے کے لیے ناگزیر قرار دیتی ہے۔ اہل فکر کی ایک بڑی تعداد بیسویں صدی میں یورپ میں جغرافیائی حدود اور رنگ ونسل اور ذات پات کی تقسیم کی دیواروں کو توڑ کر پورے انسانی کنبہ کو ایک کرنے کی پر زور حمایت کرتی رہی ہے اور ایسے مفکرین کا رویہ ماضی کے مغربی مفکرین کے مقابلہ میں مذہب کے سلسلہ میں معاندانہ نہیں بلکہ ہمدردانہ ہے‘‘۔ مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سماجی اور عوامی فلاح وبہبود میں آج جو طبقہ مذہب کو سد باب سمجھ رہا ہے اس کو مذاہب وادیان کی تاریخ اور اس کے کردار وعمل کا بلا تعصب مطالعہ کرنا ہوگا۔ ہاں البتہ اتنا ضروری ہے کہ جن مفکرین کا مرتب کردہ خاکہ یا منصوبہ سماجی ترقی میں معاون ومددگار ثابت ہو سکے تو اس کو بھی مذہبی تعلیمات کے ساتھ ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ ہمارا معاشرہ حقیقت میں بام عروج کو پہنچ سکے۔ امتیازی خصوصیت بھی کسی بھی قوم کی اسی وقت وجود میں آتی ہے جب کہ ہم دوسرے نظریات کے ساتھ مثبت فکر رکھتے ہوں۔ یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ جس کشمکش سے ہم دوچار ہیں یا جو حالات مغربی طاقتیں اور باطل قوتیں پیدا کر رہی ہیں ان کا واحد مقصد عوام پر اپنا تسلط جمانا اور مذہب جیسی مقدس ومتبرک شئی کو پس پشت ڈالنا ہے۔ ان سب چیزوں اور احوال کا نہایت باریک بینی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بات کی جائے تکثیری سماج اور مخلوط سوسائٹی کی تو اس ضمن میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی ہمارے درمیان ایسے بہت سے مسائل ہیں جنہیں نہ تو تکثیری سماج کی ضرورت سمجھا گیا اور نہ ہی ان کا ابھی تک کوئی حل ہمارے پاس موجود ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ یا عصری جامعات کے فارغین اب بھی بہت ساری چیزوں کے سوالات تلاش کر رہے ہیں۔ جب وہ اپنی فہم وفراست اور عقلی معیار کے مطابق کسی چیز پر اعتراض کرتے ہیں تو ہمارا ایک مخصوص طبقہ ان پر برس پڑتا ہے۔ جذباتیت کی جس سطح پر ہم پہنچ چکے ہیں اس نے یقیناً بہت سے نقصانات اس ملت کو پہنچائے ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں کئی اعتبار سے مسلح ہونا ہو گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ تکثیری سماج کی ضرورت اور اس میں رونما ہونے والے تمام جدید واقعات پر ہماری نظر بہت وسیع ہو اور اسی ہر بس نہیں بلکہ ان کا فوری حل اور مناسب ردعمل بھی ہماری درسگاہوں میں ہونا چاہیے۔
یاد رکھیے کہ سماج کے جو مطالبات اور حقوق ہیں ان کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس تناظر میں دیکھیے کہ اسلام میں سلام کو رواج دینے کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے اسی میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو سلام کرنا چاہیے یا نہیں؟ اس سلسلے میں اکثر روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو سلام نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں کہنا یہ ہے کہ تکثیری سماج میں حکمت ومصلحت کے تحت کسی غیر مسلم کو سلام کرنا مناسب ہے یا نہیں یہ مسئلہ ابھی تک تشنہ ہے۔ تکثیری سماج کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مسئلہ پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف سے اسلام پر اور مسلمانوں پر یلغار ہے اور ان کے خلاف ہر طرح کی نفرت پوری دنیا میں پنپ رہی ہے اس لیے اس نفرت کا خاتمہ مسلمانوں کو ہی کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے حصار سے بھی باہر آ نا ہوگا۔ بدلتے ہوئے سماجی رویوں اور انسانی افکار کے بدلتے رجحانات کو ہر وقت سامنے رکھ کر مثبت اور صالح خطوط پر رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنا کام پوری ایمان داری سے ادا کرنے لگیں گے تو یقیناً اس کے بہت سارے فوائد حاصل ہوں گے جو ہماری قدروں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی معاون ہو سکیں گے۔
[email protected]
(مضمون نگار شعبہ دینیات سنی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہیں)
***

اس وقت ہمارے سامنے جو سب سے بڑی جنگ ہے وہ مذہب اور جدیدیت کی ہے۔ جدیدیت سے وابستہ طبقہ مذہب کو غیر ضروری اور سماجی ترقی میں رکاوٹ سمجھتا ہے تو وہیں مذہبی طبقہ بھی بہت حدتک جدیدیت کے کسی بھی اصول سے متفق نہیں ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021