توکل کرمان: اسلامی شناخت کے ساتھ حقوق انسانی اور آزادئ رائے کی علم بردار
عمارہ رضوان ،
جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دلی
6؍ مئی 2020 کو جب فیس بک کی انتظامیہ نے اس پر نشر ہونے والے مواد کے خلاف شنوائی اور اس پر آخری فیصلہ لینے کی مجاز بیس رکنی باڈی ( Facebook Oversight Board) کا اعلان کیا تو اس میں امریکہ میں مقیم پانچ صحافیوں ، حقوق انسانی کے کارکنوں کے علاوہ ہندوستان سے ( National Law School of India University) کے وائس چانسلر اور یمن سے نوبل ایوارڈ یافتہ خاتون توکل کرمان کا نام بھی شامل تھا ۔ اس بورڈ کے لیے مختلف ممالک کے 20افراد کو منتخب کیا گیا مگر سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ہائے توبہ یمنی صحافی توکل کرمان کے انتخاب پر مچائی گئی اور ان کو اس بورڈ سے باہر نکالنے پر پورا زور صرف کیا گیا- فیس بک کے اس بورڈ کو حتمی شکل دینے میں پورے دو سال لگے، اس دوران 88ممالک کے 1200سے زائد لوگوں کو اس کے لیے نام زد کیا گیا اور بالآخر 250لوگوں میں سے بیس لوگوں پر آخری مہر لگی ، جن میں چار کو اس بورڈ کی صدارت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ۔
تو کل کرمان عرب بہاریہ کی شروعات سے ہی عرب میڈیا میں عوامی تحریک اور آزادئ رائے کا ایک نام ور چہرہ رہی ہیں ۔ 2011میں نوبل ایوارڈ ان کے حصے میں آیا ۔توکل کرمان عرب دنیا کی واحد خاتون ہیں ، جن کے حصے میں نوبل ایوارڈ آیا ہو۔ عرب بہاریے سے قبل وہ یمن میں صحافت کے ذریعے حقوق انسانی کی پامالی،کرپشن کے خلاف تحریک کے ہراول دستے میں شامل رہی ہیں نیز ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ان کی آواز نوجوان نسل کے دلو ں کی ساز بنتی رہی ہے۔ توکل کرمان ان خواتین میں شامل ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے علی عبد اللہ صالح کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آواز بلند کی اور صنعاء کے میدان میں مظاہرین کی قیادت کی ۔ اس دوران ان کے حصےمیں’’ أم الثورة ‘‘ اور’’ فولادی خاتون‘‘ کا لقب بھی آیا ۔
توکل کرمان 7؍ فروری 1979کویمن کے تیسرے بڑے شہر تعز کے ایک خوش حال سیاسی گھرانےمیں پیداہوئیں ۔ ان کے والد عبدالسلام خالد کرمان علی عبد اللہ صالح کی حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہےہیں ، لیکن والد کی سیاسی وابستگی کے علی الرغم توکل کرمان حزب الاصلاح سے وابستہ رہی ہیں اور اصلاح کی مرکزی شوری کی ممبر بھی رہی ہیں ۔ توکل کرمان نے صنعاء کی سائنس و ٹکنالوجی یونیورسٹی سےجرنلزم میں گریجویشن کیا اور عرب بہاریے کے دوران ہی علم سیاسیات میں ایم اےکیا ، کناڈا کی البرٹ یونیورسٹی نے توکل کرمان کو 2012میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا ۔
2005 کے اواخر میں توکل کرمان نے صحافتی آزادی کی تحریک کے لیے”Journalism without limits” کے نام سے ایک آن لائن مہم چلائی، جو صحافتی برادری میں کافی مقبول ہوئی اور اپنی رپورٹوں، تجزیوں اور کالموں سے یہ مہم ہرگھر تک پہونچ گئی، عرب بہاریہ کی ابتداء گرچہ تیونس کے بوعزیزی کے سانحہ سے ہوا، لیکن یمن میں ڈکٹیٹر شپ کے خلاف نوجوانوں میں بغاوت کی تحریک کی شروعات اس مہم سے شروع ہو چکی تھی۔ صحافتی برادری کے یہ سرخیل صنعاء میں واقع ایک پارک کو اپنے مطالبات کے اظہار کا مرکز بنائے ہوئے تھے، جو 2011 کے بعد آزادی پارک کے نام سے موسوم ہوا، 2006 اور 2007میں توکل کرمان نے مختلف عالمی اخبارات اور ٹی وی چینلس کے لیے تجزیے لکھے اور علی عبد اللہ صالح کے سیاسی استبداد کا پردہ چاک کیا ۔2009-2010کے دورانیے میں توکل کرمان نے سو سے زائد مظاہروں میں شرکت کی اور 26دھرنوں میں خواتین کی قیادت کی۔ 23؍ جنوری 2011کو توکل کرمان کو بغیر اجازت صنعاء کی سب سے مصروف سڑک پر مظاہرہ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ،مگر ان کی گرفتاری نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مظاہروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ، آخر کار ایک ہی دن بعد توکل کرمان کو رہا کردیا گیا۔ علی عبد اللہ صالح کی حکومت نے توکل کرمان پر امریکہ کے مفادات کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا ، کیونکہ توکل کے مقالات واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز میں بھی پابندی سے شائع ہوتے تھےنیز توکل کرمان کی ادرات میں کئی ڈاکیومنٹری بھی منظر عام پر آئیں ، جس کی براہ ِ راست ضرب علی عبد اللہ صالح کی حکومت پر پڑتی تھی ۔
ٹویٹر پر توکل کرمان کے 11لاکھ سے زائد فالورس ہیں اور وہ ہر حساس موضوع پر اظہار خیال کرتے رہتی ہیں۔ حوثی باغیوں کے خلاف جب سعودی عرب کی قیادت میں فوجی کاروائی کی ابتداء ہوئی ، اس وقت توکل کرمان نے سعودی کے اس اقدام کی مکمل حمایت کی تھی ،لیکن قطر کی ناکہ بندی کے خلاف توکل کرمان نے کھل کر سعودی موقف کی مخالفت کی اور اسے اکیسویں صدی کا بدویانہ فیصلہ قرار دیا ، تو اس وقت سعودی میڈیا بھی توکل کرمان کو نشانہ پر لینے لگا۔ موجودہ مصری حکومت توکل کرمان کے وجود کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتی ہے ، کیوں کہ توکل کرمان عالمی فورمس پر مصر میں حقوقِ انسانی کی پامالی کو پورے شدّ ومدّ کے ساتھ اٹھاتی رہتی ہیں ، جو گاہے بگاہے مصری حکومت کی سُبکی کا سبب بنتا رہتا ہے ۔مصر توکل کرمان کو الاخوان المسلمون کا ممبر گردانتا ہے ، حالاں کہ توکل کرمان اپنی اس نسبت سے انکار کرتی رہی ہیں ۔
یمن کی موجودہ صورت حال سے توکل کرمان بہت کبیدہ خاطر ہیں ، اور وہ ایک طرف حوثی باغیوں کی توسیع پسندانہ عزائم کی ناقد ہیں ، تو دوسری طرف سعودی عرب اور امارات کی فوجی کاروائی کو بھی یمن میں استحکام کے لیے سب سے بڑا روڑہ تصور کرتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکہ میں پھوٹ پڑنے والے مظاہروں کو بھی توکل کرمان کی تائید حاصل ہے ، جس کا اظہار وہ کھلے طور پر کرتی رہی ہیں ، اس کی وجہ سے ٹرمپ کے حواری بھی توکل کو سوشل میڈیا پر نشانہ سادھے ہوئے ہیں۔ توکل کرمان کے انہیں بے لاک تجزیوں اور تبصروں کی وجہ سے حزب الاصلاح نے ان کی تنظیمی ممبرشپ معطل کررکھی ہے اور وہ اس وقت ترکی میں پناہ گزیں ہیں ، گرچہ ترک وزیر خارجہ کے بدست 11؍ اکتوبر 2012کو ان کو ترکی شہریت دی جا چکی ہے۔
***
تو کل کرمان عرب بہاریہ کی شروعات سے ہی عرب میڈیا میں عوامی تحریک اور آزادئ رائے کا ایک نام ور چہرہ رہی ہیں ۔ 2011میں نوبل ایوارڈ ان کے حصے میں آیا ۔تو کل کرمان عرب دنیا کی واحد خاتون ہیں ، جن کے حصے میں نوبل ایوارڈ آیا ہو۔ عرب بہاریے سے قبل وہ یمن میں صحافت کے ذریعے حقوق انسانی کی پامالی ، کرپشن کے خلاف تحریک کے ہراول دستے میں شامل رہی ہیں نیز ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ان کی آواز نوجوان نسل کے دلو ں کی ساز بنتی رہی ہے۔ توکل کرمان ان خواتین میں شامل ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے علی عبد اللہ صالح کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آواز بلند کی اور صنعاء کے میدان میں مظاہرین کی قیادت کی ۔ اس دوران ان کے حصےمیں’’ أم الثورة ‘‘ اور’’ فولادی خاتون‘‘ کا لقب بھی آیا ۔