تنگ آمد بہ جنگ آمد

ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دلت بچوں نے کیا برہمنوں کا بائیکاٹ

حسن آزاد

سرکاری اسکولوں میں ذات پات کی نفرت کادرس عام…!
مِڈ ڈے میل اسکیم کے تحت سرکاری اسکولوں میں بچوں کو دیے جانے والے کھانے میں مالی بدعنوانیاں تو اکثر سامنے آتی رہتی ہیں لیکن ذہنی و فکری بدعنوانی بھی اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔ چنانچہ معصوم طالبعلموں کے ذہنوں میں ذات پات کا زہر اس قدر تسلسل کے ساتھ ڈالا جا رہا ہے کہ کہا نہیں جا سکتا کہ ملک کے مستقبل کا کیا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ جب بچے تعلیم میں دلچسپی لینے کے بجائے یہ سوچنے لگیں کہ کھانا کس کے ہاتھ کا بنایا ہوا ہے؟ برہمن کے ہاتھ کا بنایا ہوا ہے یا شودر کے ہاتھ کا بنایا ہوا ہے؟ پاک ہے یا ناپاک ہے، اسے کھانا چاہیے یا نہیں کھانا چاہیے وغیرہ، تو سوچیے کہ بڑے ہو کر یہ سوچ کیا گُل کھلائے گی اور ملک کا کیا بنے گا؟ ملک ترقی کرے گا یا تباہی کے گڑھے میں جا گرے گا؟
دراصل واقعہ کچھ یوں ہے کہ اتر اکھنڈ کے ضلع چمپاوت میں واقع سوکھی ڈانگ گاؤں کے ایک سرکاری اسکول میں باورچی کے طور پر کام کرنے والی ایک دلت خاتون کو نام نہاد اعلیٰ ذات کے طلبا کے ذریعے دوپہر کے کھانے کا بائیکاٹ کیے جانے کے بعد برخاست کر دیا گیا۔ اس کے بعد احتجاجاً دلت طلباء نے اسکول کے پرنسپل کو خط لکھ کر اعلیٰ ذات کی خاتون کے ذریعہ پکایا ہوا دوپہر کا کھانا کھانے سے انکار کردیا اور اپنے گھروں سے کھانا لا کر کھانے لگے۔ اس واقعہ کی اطلاع خود پرنسپل پریم سنگھ نے تحریری طور پر بلاک ایجوکیشن افسر کو دی ۔پرنسپل پریم سنگھ کے مطابق 24 دسمبر کو چھٹویں تا آٹھویں درجات کے طلباء کو کھانے کے لیے بلایاگیا لیکن دلت بچوں نے اعلیٰ ذات کی خاتون کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا کھانے سے انکار کردیا۔ ہر طرح سمجھانے بجھانے کے باوجود کسی بچے نے کھانا نہیں کھایا۔ شاید ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دلتوں نے برہمنوں کا بائیکاٹ کیا ہو ورنہ اکثر تو دلتوں، اچھوتوں اور درج ذیل ذاتوں کا بائیکاٹ ہوتا رہا ہے۔
واضح ہو کہ ایک رپورٹ کے مطابق سنیتا دیوی نے 13 دسمبر کو اسکول جوائن کیا تھا اور 22دسمبر کو انہیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔سنیتا دیوی نے شکنتلا دیوی کی جگہ لی تھی، جو کہ ایک اونچی ذات کی خاتون تھیں۔ اسکول میں باورچیوں کی دو جائیدادیں ہیں۔ دوسری کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہے۔ پرنسپل کے مطابق 14 دسمبر کو تقریباً 40 اعلیٰ ذات کے طلبا نے کھانا چھوڑ دیا۔تاہم اونچی ذات کے لوگوں نے بھید بھاؤ کے الزام کو سرے سے مسترد کر دیا ہے۔وہیں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے جانچ کے احکامات جاری کیے ہیں۔
جہاں تک دلتوں کے بائیکاٹ کا معاملہ ہے تو اس طرح کے واقعات ہزاروں مل جائیں گے۔ حال ہی میں ریاست اتر پردیش میں واقع مین پوری اسکول میں درج فہرست ذات کے طلباء کو پہلا سبق یہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی پلیٹیں الگ رکھیں اور خود ہی دھو لیاکریں۔دراصل ستمبر 2021 کو مین پوری کے داؤد پور گورنمنٹ پرائمری اسکول کے 80 بچوں میں سے 60 دلت طلباء کی جانب سے ایک شکایت موصول ہوئی۔ حکام کو پتہ چلا کہ یہ بچے جو برتن اپنے دوپہر کے کھانے کے لیے استعمال کرتے تھے وہ احاطے میں الگ رکھے گئے تھے جنہیں بچے خود دھوتے تھے۔ حالانکہ حکام کے اسکول کا دورہ کرنے کے بعد ہیڈ مسٹریس گریم راجپوت کو معطل کر دیا گیا تھا۔ وہیں دو باورچیوں کو ان کی ڈیوٹی سے فارغ کر دیا گیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ SC طلباء کے زیر استعمال برتنوں کو نہیں چھو سکتے ہیں۔
اتر پردیش کے امیٹھی کا انسانیت سوز واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ڈری سہمی دس سالہ جیوتی راؤ اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہیڈ مسٹریس دلت طالب علموں کو دوپہر کے کھانے کے دوران الگ قطار میں کھڑا کرتی تھیں اور اکثر نامعلوم وجوہات کی بنا پر انہیں پیٹتی تھیں۔
چھ سال پہلے راجستھان کے جودھ پور میں جاٹ طلباء کی مڈ ڈے میل کی پلیٹوں کو چھونے پر دلت طالب علم کو زد وکوب کیا گیا تھا۔
2017 میں گجرات کے جونا گڑھ میں دلت مڈ میل تیار کرنے والی خاتون کو ٹیچروں کے ذریعے پیٹا گیا۔اس خاتون کو نہ صرف اسکول سے نکالا گیا بلکہ گاؤں کے سرپنچ سے کہہ کر اسے گاؤں سے بھی نکالنے کا مطالبہ کیاگیا۔
2017 میں ہی مدھیہ پردیش کے ٹیکم گڑھ میں سرکاری اسکول کے اعلیٰ ذات کے بچوں نے دلت خاتون کے ہاتھ سے بنایا گیا کھانا کھانے سے انکار کردیا۔
این ڈی ٹی وی کے رپورٹ کے مطابق 2015 میں کرناٹک کے ضلع کولار میں واقع ایک سرکاری اسکول میں طلباء نے اس لیے جانا چھوڑ دیا کیوں کہ وہاں کھانا بنانے والی ایک دلت خاتون تھیں۔
کھانا واپس کرنے اور نہ کھانے کی روایت کو برہمنوں نے اس وجہ سے باقی رکھا کیوں کہ وہ دلتوں کو اچھوت مانتے ہیں۔ بھارت میں دلتوں کی عزت و احترام کو ہزاروں سالوں سے پیر تلے روندا رہا ہے۔ آج بھی ان پر ہتک آمیز جملے کسے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برہمن واد کی بنیاد قبائلی نفرت پر رکھی گئی اور یہ نظریہ گھڑا گیا کہ خدا نے انسان کو برابر نہیں بنایا ہے۔ اسی نظریہ کے مطابق اس ملک میں آئے ہوئے آریوں نے ایک ایسے انسانیت سوز نظام کی تشکیل کی جس نے اس ملک پر سماجی اور مذہبی اعتبار سے آریوں کو ہندوستان میں صدیوں سے رہ رہے لوگوں پر افضل بنا دیا۔ وہ لوگ جو بھارت کے اصل باشندے تھے دیکھتے ہی دیکھتے خود اپنے ہی ملک میں "اچھوت” ہو گئے۔ آج انہی اچھوتوں کو دلت کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کئی ہزار سال سے رائج اس نظام کے تحت ہندوؤں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (فرض) کی بنیاد پر مختلف سماجی گروپوں برہمن، شتری، ویش اور شودر میں تقسیم کیا گیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اچھوتوں یا دلتوں کو ہندو ذات پات کے نظام سے باہر رکھا گیا اور ان کو ایک جانور سے بھی بدتر بنا دیا گیا۔ مذکورہ بالا دعووں کو مزید چند مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ غالباً 2019 میں اعلیٰ ذات کے لوگوں نے اعظم گڑھ کے بانس گاؤں کے پردھان ستیہ میو جئتے کو صرف اس لیے قتل کر دیا کہ انہوں نے نچلی ذات کے ہوتے ہوئے اعلی ذات کے لوگوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
اکیسیوں صدی کے اکیسویں برس کے اخیر میں نیو انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا جیسے اچھالے گئے نعروں کے شور شرابے میں دلتوں کے ساتھ ہورہے غیر انسانی سلوک پر خال خال اٹھنے والی آواز میں وہ طاقت اور دم خم نہیں ہے جو معاشرے کو بیدار کرسکے۔ شاید یہی وجہ ہوگی کہ سپریم کورٹ میں جسٹس ارون مشرا، جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی آر گوئی کی بنچ نے مرکزی حکومت کی عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ‘مساوات کے لیے ایس سی-ایس ٹیز کی جدوجہد ملک میں ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ابھی بھی اس طبقے کے لوگ چھوت چھات اور نازیبا سلوک کا سامنا کر رہے ہیں اور الگ تھلگ زندگی گزارتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 15 کے تحت ایس سی-ایس ٹیز کو تحفظ حاصل ہے لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب مڈے میل میں دیے جانے والے کھانے کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے تو حکومت ایسے صحافیوں کو جیل بھیج دیتی ہے چنانچہ ایک صحافی نے اتر پردیش کے مرزا پور کے ایک سیکنڈری اسکول میں مبینہ طور پر طلباء کو نمک اور روٹی دینے کی خبر لکھی تھی تو اس پر مقدمہ چلایا گیا تھا اور اسے جیل کی سزا بھگتنی پڑی تھی۔
حال ہی میں کرناٹک میں مڈے میل میں ابلے ہوئے انڈے دینے پر ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اس حوالے سے کرناٹک کی آٹھویں جماعت کی ایک طالبہ کی پرجوش تقریر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی۔ اس طالبہ نے اسکولوں میں دوپہر کے کھانے میں دیے جانے والے انڈوں کی مخالفت کرنے والوں پر تنقید کی۔ اس طالبہ نے دوسروں کے ساتھ احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ یہ واقعہ کرناٹک کے پسماندہ اضلاع کلیانہ اور وجئے پورہ اضلاع میں پیش آیا تھا۔ طالبہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ریاست میں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ "اگر یہ آپ کے بچوں کے ساتھ ہو تو کیسا لگےگا، کیا یہ آپ کو اچھا لگے گا؟ ہمیں انڈے اور کیلے کی ضرورت ہے۔ تم جو چاہو کرو،” وہ مزید کہتی ہے کہ اگر انڈے کی مخالفت کی گئی تو وہ مٹھوں میں بیٹھ کر انڈے کھائے گی۔واضح ہوکہ کرناٹک میں مذہبی رہنماؤں نے بار بار سرکاری اسکولوں میں فراہم کیے جانے والے انڈے اور گوشت کی مخالفت کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ گوشت اور انڈوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاکہ سبزی خوری کو تقویت ملے۔
واضح رہے کہ کرناٹک کی حکومت نے اس اسکیم کو جزوی طور پر سات اضلاع میں قومی خاندانی صحت کے سروے کے مطابق بچوں میں غذائیت اور خون کی کمی کے سروے کے بعد شروع کیا تھا۔ یہ اسکیم بیدر، رائچور، کلبرگی، یادگیر، کوپل، بلاری اور وجئے پورہ کے سرکاری اور امداد یافتہ اسکولوں میں 30 مارچ 2021 تک جاری تھی۔ اس طرح کرناٹک نے کیرالا، آندھرا پردیش، تمل ناڈو، تلنگانہ، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور اڈیشہ کے بعد ایسی ریاست بنی جس نے دوپہر کے کھانے کی اسکیم میں انڈے شامل کیے تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کرناٹک کے ان سات اضلاع میں پہلی سے آٹھویں جماعت کے بچوں میں غذائیت کی انتہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ کیس اسٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ یادگیر میں اس عمر کے تقریباً 74 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ دوسرے چھ اضلاع اس کے بعد ہیں، کلبرگی میں 72.4 فیصد بچے، بلاری میں 72.3 فیصد، کوپل میں 70.7 فیصد، رائچور میں 70.6 فیصد، بیدر میں 69.1فیصد،اور وجئے پورہ میں 68 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

 

***

 ایک رپورٹ کے مطابق مِڈے میل اسکیم جو اب ’پی ایم پوشن‘ کے نام سے جانی جائے گی، کے تحت فی الحال 11.20 لاکھ سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں میں 11.80 کروڑ بچوں کو درجہ اول سے 8 تک کے طلباء کو گرم پکا ہوا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ پی ایم پوشن شکتی نرمان یا پی ایم پوشن اسکیم کے تحت، پری پرائمری کلاسوں میں 24 لاکھ مزید بچوں کو، جو فی الحال آئی سی ڈی ایس(Integrated Child Development Services) کے تحت شامل ہیں، کو بھی لایا جائے گا۔
خبر کے مطابق پی ایم پوشن کو پانچ سال کی ابتدائی مدت (2021-22 سے 2025-26) کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ مرکز 1.3 لاکھ کروڑ روپے کی لاگت میں سے 54,061 کروڑ روپے برداشت کرے گا، اور ریاستیں 31,733 کروڑ روپے ادا کریں گی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  09 جنوری تا 15 جنوری 2022