’تمہاری تہذیب اپنےخنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی‘
ذہنی طور پر دیوالیہ ایک طبقہ مسلم خواتین کی کردار کشی کے در پے
حسن آزاد
نہ ڈرے ہیں نہ پیچھے ہٹیں گے، متاثرہ خواتین کے فولادی جذبہ کو سلام
ہفت روزہ دعوت سے خالدہ پروین، عصمت آرا، آر جے صائمہ اور خاتون پائلٹ ہنا محسن خان نے کی خصوصی گفتگو
نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے۔ کورونا وائرس کے خوف کے باوجود لوگ نئے سال کی آمد پر نئے عزمِ مصمم ، نئے جوش وخروش اور نئی امنگ کے ساتھ آگے بڑھنے پر توجہ مرکوز کرنے لگے۔ اس موقع پر فیض لدھیانوی کا وہ مصرعہ زیادہ موزوں ہے جس میں سوال کیا گیا ہے کہ ’اے نئے سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے‘ پچھلے سال بھی ملک میں مسلم خواتین کی عفت وعصمت کو تار تار کرنے کی کوشش کی گئی اور اس سال کی شروعات میں ہی انہی کو ہدف بنایا گیا۔ گزشتہ برس بقر عید کے موقع پر سوشل میڈیا پر متعدد مسلم خواتین کی تصاویر سُلّی ڈیل ایپ کے ذریعے وائرل کی گئیں اور اس سال بھی بُلّی بائی ایپ کے ذریعے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر عام کی گئیں۔ اس ذلیل حرکت میں عمر رسیدہ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا جن میں گمشدہ نجیب کی والدہ بھی شامل ہیں۔
مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیاکے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی(Drrehmani@) اپنے ٹویٹر ہینڈل پر لکھتے ہیں کہ ’’بلی ڈیل ایپ معاملے میں سو سے زائد معزز،بزرگ مسلم خواتین کی بے عزتی کم عمر بچوں کے ہاتھوں دیکھ کر افسوس تو ہوا مگر ایک اطمینان بھی ہوا کہ غلاظت کے گڑھے میں ڈوبا ہواایک سماجی طبقہ ہمارے مقابلے پہ کھڑا ہو رہا ہے‘‘۔ ایک دوسرے ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ’’انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اخلاقی طور پر دیوالیہ طبقہ سماجی یا مذہبی انقلاب برپا نہیں کر سکتا بلکہ ایک ذلت آمیز شکست سے دو چار ہونا ہی اس کامقدر ہوتا ہے‘‘۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
تمہاری تہذیب اپنےخنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا
معروف انڈین صحافی عصمت آراء ٹویٹر پر اپنے احساسات و جذبات کو بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’ایک مسلم خاتون کے طور پر آپ کا نئے سال کو خوف اور کراہت کے ساتھ شروع کرنا بہت افسوسناک ہے۔ یقیناً یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سُلی ڈیلز کے نئے روپ کی صرف میں ہی واحد شکار نہیں ہوں۔ ایک دوست نے صبح یہ اسکرین شاٹ بھیجی ہے۔ ہیپی نیو ایئر‘‘۔
عصمت آراء نڈر خاتون صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے کئی مضامین میں حکومت کے جھوٹے پروپیگنڈے کی پول کھولی ہے خاص طور پر مقدس لفظِ جہاد کو بدنام کرنے والے ‘لو جہاد‘ کے فرضی اور من گھڑت قصوں کو سامنے لانے کی بہت خوب کوشش کی ہے۔
عصمت آراء نے ہفت روزہ ’دعوت ‘سے خاص بات چیت میں کہا کہ ’’گزشتہ سال جب ساری دنیا کووڈ 19 کی زد میں حیران و پریشان تھی تو عید کے موقع پر پہلی بار انٹرنیٹ کے ایک پورٹل پر اعلانیہ طور پر مسلم خواتین کی بولی لگائی گئی۔ ان میں ان خواتین کو نشانہ بنایا گیا جو مسلمان ہیں اور سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور اپنی بات بے باکی کے ساتھ کہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی بھی چند خواتین کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن زیادہ تر انڈیا کی خواتین تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’بقرعید کے وقت جب یہ قابل نفرت معاملہ سامنے آيا تھا تو ایف آئی آر درج کی گئی تھی لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ کوئی چارچ شیٹ داخل نہیں ہوئی۔ ایک قدم کی بھی پیشرفت نہیں ہوئی‘‘۔‘
’دعوت ‘کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے عصمت آراء نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے ذہنی تناؤ کا پیدا ہونا لازمی ہے لیکن ہم سب ایکشن موڈ میں ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہا جاسکتا ہے۔ عصمت آراء کو ہاتھرس اجتماعی عصمت ریزی وقتل معاملے کو کَور کرنے کے دوران یہ احساس ہوا تھا کہ صرف اترپردیش ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں بالخصوص مردوں کی یہ ذہنیت بنی ہوئی ہے کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، ان کے اندر برداشت کرنے کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے، لہٰذا ان کے خیال میں اصلاح معاشرہ کے لیے ان کے پراگندہ ذہنوں کی صفائی کی بہت ضروت ہے۔ عصمت آراء کا ماننا ہے کہ بحیثیت خاتون صحافی ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب کیا ہوجائے یعنی اپنی حفاظت کے معاملے میں ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اب سوال کرنا محال ہوتا جارہاہے۔
معروف یوٹیوبر آکاش بنرجی نے اپنے ایک پروگرام میں کہا کہ حکومت کی جانب سے نئے نئے شوشے اس وجہ سے ہی چھوڑتے جاتے ہیں تاکہ ان سے بے روزگاری، جی ڈی پی، مہنگائی اور خواتین کی سکیورٹی کے حوالےسے سوال ہی نہ کیا جائے۔ غور طلب ہے کہ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ خود باضابطہ طور پر نیوز ایجنسی اے این آئی کے نامہ نگار کے ایک سوال کے جواب میں بھدی گالیاں دیتے ہوئے نظر آئے تھے۔ حال ہی میں لکھیم پور سانحہ کے کلیدی ملزم آشیش مشرا کے والد مملکتی وزیر داخلہ اجے مشرا اس اے بی پی رپورٹر کے سوال کیے جانے پر آگ بگولہ ہو گئے اور اس سے بدسلوکی سے پیش آئے۔ خاتون اینکر روبیکا لیاقت وزیر اعظم مودی سے یہ سوال کرتی ہیں ’’جناب آپ تھکتے کیوں نہیں ہیں؟‘‘۔
’ دعوت‘ نے سماجی کارکن خالدہ پروین صاحبہ سے اس بابت سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ’’ شر پسند افراد ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں مگر ہم مزید طاقت کے ساتھ اپنی آواز کو بلند کریں گے‘‘ خالدہ پروین نے کہا کہ ’’سلی ڈیل اور بلی بائی جیسے غلیظ ایپس کے ذریعے ان بہادر اور حق کی عملبردار خواتین کے ناموں کو اچھالا گیا جو مضبوطی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں اور بالخصوص جو شاہین باغ احتجاج کے وقت سے اپنی آواز حکومت کے خلاف اٹھا رہی ہیں’’ میں ان بچیوں کے متعلق فکرمند ہوں جو ابھی ہونہار ہیں۔ ان کی ذہنی تناؤ کے مقابلے میں میرا درد اور غم پھیکا ہے‘‘۔
’ دعوت ‘سے خاص بات چیت کے دوران خالدہ پروین نے ایک اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’دراصل ہریدوار میں واقع دھرم سنسد کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چل رہی تھی۔ قصورواروں کی گرفتاری کے ٹرینڈس عام ہو رہے تھے۔ نتیجتاً عالمی میڈیا کے بھی رد عمل آنے شروع ہو گئے تھے لہٰذا اس مسئلے سے عوام کی توجہ بھٹکانے کے لیے اس طرح کے ایپس لائے گئے، اور جیسے ہی سوشل میڈیا پر یہ گندے ایپس آنے شروع ہوئے ہماری بھی توجہ اسی طرف مرکوز ہو گئی‘‘۔ خالدہ پروین نے اس کے خلاف حیدرآباد میں ایف آئی آر بھی درج کرائی ہے جس کے بعد تلنگانہ پولیس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گی۔ انہوں نے ایک اور اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ایک اٹھارہ سالہ لڑکی اور دو اکیس سالہ لڑکوں کی گرفتاری ہوئی ہے لیکن یہ محض دو پتیاں ہیں جبکہ اس شجرِ خبیث کی جڑیں کہیں اور ہیں۔ ان کو جو بھی استعمال کر رہا ہے اسے دھر دبوچنے کی ضرورت ہے۔
’ دعوت ‘کے نمائندے نے جب خاتون پائلٹ حنا محسن خان سے پوچھا کہ کیا کچھ لوگوں کے مطابق جن میں جاوید اختر بھی شامل ہیں، اٹھارہ سالہ شیوتا سنگھ کی کونسلنگ ہونی چاہیے اور اسے معاف کردینا چاہیے؟ تو انہوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ جن کی عفت وعصمت کو سر بازار تار تار کرنے کی کوشش کی گئی ان کی عمر بھی تو زیادہ نہیں ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ جب یونیورسٹیوں کے طلباء حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو ان پر طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس قدر سنگین مسئلہ پر حکومت نے کیوں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہ وہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں اور نہ ہی وہ سیاسی و سماجی کارکن ہیں مگر بحیثیت کمرشیل پائلٹ وہ یہ ضرور کہنا چاہتی ہیں کہ اپنے حق کے لیے خود ہی لڑنا ہو گا کیوں کہ ہماری عزت کسی اور کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس کے ہاتھ میں ساری کی ساری عزت ہے، لہٰذا ہمیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے ایف آئی درج کرائی تھی جبکہ 80 خواتین میں سے 66 خواتین نے ایف آئی آر درج نہیں کرائی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی مجبوری رہی ہو گی۔ مسلمان عورت بہت مضبوط ہوتی ہے کیوں کہ وہ خدا پر بھروسہ رکھتی ہے، اسے کمزور دکھانے والے ہی حقیقت میں بزدل اور کمزور ہوتے ہیں۔ چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج نے پوری دنیا میں مسلمان خواتین کی جرأت و بہادری کا ڈنکا بجا دیا ہے۔ منجملہ مسلمان عورتوں کے تمام عورتوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اپنا حق ہمیشہ لڑ کر ہی لیا ہے، ووٹ ڈالنے کا حق بھی ہمیں احتجاج و مظاہروں سے ہی ملا ہے‘‘۔
اس طرح آر جے صائمہ نے ’دعوت‘ سے خاص گفتگو میں اس واقعہ پر اپنے دکھ کا اظہار کیا اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ صائمہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ اگر جرم کو جڑ سے ختم کرنا ہے تو مجرموں کے خلاف سخت کارروائی فوری ضروری ہے۔
ان خواتین سے گفتگو کے دوران کچھ باتیں ان سب میں مشترک نظر آئیں جن میں ایک یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ڈر اور خوف کے ماحول میں نہیں ہے بلکہ ان کے حوصلوں کو مزید پر لگ گئے ہیں۔ وہیں تمام مشہور شخصیات نے مجرموں کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تادم تحریر کسی خاتون وزیر نے اس کے خلاف بیان نہیں دیا ہے۔ چاہے وہ اسمرتی ایرانی ہوں، مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن ہوں یا پھر ہر وقت بحث و مباحثہ میں دیکھی جانے والی میناکشی لیکھی ہوں۔ بقول جون ایلیا:
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 16 جنوری تا 22 جنوری 2022