تقابل ادیان میں مسلم علماء کی خدمات ( قسط 21)

مولانا سید سلیمان ندوی کی تصانیف عصری تناظر میںاہمیت کی حامل

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

سید سلیمان ندوی ( 1884-1953) علمی و تحقیقی دنیا کا وہ مایہ ناز ستارہ ہے جس نے دینیات و اسلامیات کے متعدد گوشوں پرکام کیا ہے ۔ ان کی کئی معروف تصانیف ہیں جو اہل علم و فضل سے داد و تحسین وصول کر چکی ہیں۔ ان کی تحقیقات کی فہرست بہت طویل ہے البتہ ان کا نمایاں کارنامہ علامہ شبلی نعمانی کی سیرة النبی کی تکمیل ہے۔ چنانچہ سید سلیمان ندوی نے تقابل ادیان پر بھی کام کیا ہے اس حوالے سے ان کی ایک تصنیف ’’تاریخ ارض قرآن‘‘ کے نام سے بہت معروف ہے ۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1975 میں شائع ہوئی ہے۔ بظاہر کتاب کے عنوان سے تقابل ادیان کا موضوع نہیں لگتا ہے لیکن کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے قرآن میں مذکور اقوام کی تہذیب و تمدن اور جغرافیہ پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے جس کی پہلی جلد میں قرآن مجید کی تاریخ آیات کی تفسیر سر زمین قرآن عرب کا جغرافیہ اور قرآن میں جن اقوام و قبائل کا ذکر ہے ان کی تاریخ پر مدلل گفتگو کی ہے۔ اسی طرح جلد دوم میں بنو ابراہیم کی تاریخ اور عربوں کی قبل اسلام تجارت ، زبان و مذہب، توراة ،تاریخ یونان و روم پر علمی اور سنجیدہ بحثیں ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب ’’ہندوؤں کی علمی وتعلیمی ترقی میں مسلم حکمرانوں کی کوششیں‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ دراصل یہ ایک مقالہ تھا ’’ہندوؤں کی تعلیم مسلمانوں کے عہد میں‘‘ اس کو سرسید کی قائم کردہ آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں 29/ دسمبر 1917 کلکتہ میں پیش کیا تھا۔ اس کے بعد اس کو معارف نے مئی تا دسبمر 1918 میں قسط وار شائع کیا۔ بعد میں اس کو درج بالا نام کے ساتھ شائع کیا گیا۔ جو نسخہ راقم کے پاس ہے اس میں سن اشاعت 2010 ہے صفحات کی تعداد 90 ہے۔ معارف پریس اعظم گڑھ نے شائع کیا ہے۔ ایک اور کتاب جو مکالمہ کے زمرے میں آتی ہے ’’عرب وہند کے تعلقات’’ یہ بھی سید صاحب کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو انہوں نے 1929 میں ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد میں دیے تھے۔ راقم کے سامنے جو نسخہ ہے اس میں سن اشاعت 2010 ہے۔ صفحات کی تعداد 268 ہے۔ اس کو معارف پریس اعظم گڑھ نے شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ سیرة النبی کی جلد چہارم میں بھی ہندوؤں کے متعلق کچھ چیزیں ملتی ہیں۔ واضح رہے کہ سیرة النبی کی دو جلدیں علامہ شبلی نعمانی نے تصنیف کی ہیں۔ باقی جلدیں سید سلیمان ندوی کے قلم سے نکلی ہیں ۔ یعنی سید سلیمان ندوی نے ہندوؤں کے متعلق اپنی ان کتب میں جن مباحث کو اٹھایا ہے وہ عصری تناظر میں بھی قابل مطالعہ اور افادیت کی حامل ہیں۔ یہ کتابیں نفرت و تعصب کے اس دور میں ہندوستان کی دو قوموں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اب ذیل میں سید صاحب کے ہندوؤں کے متعلق افکار و نظریات پیش کیے جائیں گے۔
ہندوستان کی قدیم تاریخ وتہذیب
سید سلیمان ندوی اپنی کتاب سیرة النبی میں ہندوستان کی قدیم حالت اور اس کی تاریخ و تہذیب کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔
’’دنیا کے ان متمدن ملکوں میں جہاں کوئی بااثر مذہب قائم تھا ایک ہندوستان بھی ہے۔ ہندوستان کے تمدن کے پانچ مختلف دور گزرے ہیں۔ ایک اصل ہندو ویدک عہد جو دوہزار سال ق م سے لے کر تقریباً چودہ سو سال ق م تک رہا۔ دوسرا دور جنگ یعنی جس میں کوروؤں اور پانڈوؤں وغیرہ کے مناقشات رہے اور جو چودہ سو ق م سے لے کر تقریباً ایک ہزار قبل مسیح تک رہا۔ تیسرا دور عقلیت جس میں حکما و عقلیین کا دور دورہ تھا اور جو ایک ہزار ق م سے لے کر تقریباً تیسری صدی ق م کے نصف تک رہا۔ چوتھا دور بودھ جس میں اس مذہب کا عروج دوسو ق م سے لے کر پانچویں صدی عیسوی کے خاتمہ تک رہا۔ پانچواں دور پرانک جس میں بجائے ویدیا گوتم بدھ کی تعلیمات کے پرانوں کی تلقین پر علم درآ مد تھا اور یہ عہد تقریباً پانچویں صدی عیسوی کے اواخر سے لےکر مسلمانوں کے داخلہ ہند تک قائم رہا‘‘۔ اس کے بعد سید صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ ہندوستانی قدیم تہذیب اور تاریخ زیادہ تر نقائص و تاریک سے مملو ہے وہ 500 عیسوی سے شروع ہوتی ہے۔ اس دور میں جو تہذیب ہندوستان میں رائج تھی اس کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے۔ ’’شرک جو ابتدا ہی سے ہندوستان کے خمیر میں شامل تھا وہ حد اعتدال سے باہر ہوگیا تھا چنانچہ وید میں جو تینتیس دیوتاؤں کی تعداد تھی وہ اب بڑھتے بڑھتے تینتیس کروڑ دیوتاؤں تک پہنچ گئی تھی۔ ویدک عہد میں اصنام کی پرستش کا رواج نہ تھا لیکن اسی زمانے میں مندروں کے اندر بے پرستش علی العموم رائج ہوگئی۔ مندروں کے محافظین بد اخلاقی کے سر چشمے تھے جو لاکھوں کروڑوں نا واقف پرستش کرنے والوں کو مذہب کے نام سے خوب خوب لوٹتے۔ ویدک عہد میں ساری ہندو قوم میں یگانگی تھی لیکن اب ذات پات کی تفریق شروع ہوگئی جو نظام معاشرت کے لیے تباہ کن تھی‘‘( سیدسلیمان ندوی، سیرة النبی، مکتبہ ناشران و تاجران کتب، لاہور، 2006 ج 4 ص، 563-564)
تفریق و امتیاز
سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ اونچ نیچ کا تصور ہندو ازم میں پایا جاتا ہے اور اسے قانونی حیثیت حاصل ہے۔
( الف) برہمن کو کسی حالت خواہ کتنے ہی سنگین جرائم کا مرتکب رہ چکا ہو سزائے موت نہیں دی جاسکتی ۔
(ب) کسی اونچی ذات کے مرد کا کسی نیچی ذات کی عورت کے ساتھ زنا کرنا جرم نہیں ۔
( ج) اگر کوئی اچھوت ذات کا شخص کسی اعلیٰ ذات والے کو چھولے تو اس کی سزا موت ہے۔
(د) اگر کوئی نیچی ذات والا اپنے سے اونچی ذات والے کو مارے تو اس کے اعضاء قطع کر ڈالنے چاہئیں۔ اگر اسے گالی دے تو اس کی زبان کاٹ ڈالنی چاہیے اور اگر اسے تعلیم دینے کا دعویٰ کرے تو گرم تیل اس کے منھ میں ڈالنا چاہیے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو ازم میں اونچ نیچ اور ذات پات کا تصور کس قدر مضبوط پایا جاتا تھا۔ یقیناً یہ رویہ کسی ترقی یافتہ معاشرے کے لیے مفید ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔
شبہ اہل کتاب
سید سلیمان ندوی نے سیرة النبی میں ایک بحث یہ اٹھائی ہے کہ ہندوستان میں رہنے والی اقوام جنہیں ہم ہندو کہتے ہیں کیا شبہ اہل کتاب ہیں؟ اس بابت انہوں نے لکھاہے۔
’’ آنحضرت ﷺ نے قانونی حیثیت سے دنیا کی قوموں کو چار طبقات میں تقسیم فرمایا اور ان کے علیحدہ علیحدہ حقوق قرار دیے ہیں جن پر اسلام کی تیرہ صدیوں میں برابر عمل ہوتا رہا ہے۔ وہ تقسیم اس طرح ہے۔ 1- مسلمان جو قرآن اور دوسری کتابوں کو کتاب الٰہی تسلیم کرتے ہیں۔ 2- اہل کتاب یعنی ان کتابوں کے پیرو جن کے نام قرآن میں مذکور ہیں یا یوں کہیے جو قرآن کو آ سمانی کتاب نہیں مانتے مگر ان کتابوں میں سے جن کا نام قرآن میں مذکور ہے کسی کو وہ آسمانی کتاب مانتے ہیں۔ 3- کفار و مشرکین یعنی وہ لوگ جن کے پاس نہ کوئی آسمانی کتاب ہے اور نہ وہ کسی دین الہٰی کی طرف منسوب ہیں۔ 4- شبہ اہل کتاب یعنی وہ لوگ جو قرآن اور تورات و انجیل و زبور کو نہیں مانتے مگر ان کے علاوہ کسی آسمانی کتاب پر ایمان لانے کے مدعی ہیں جیسے صائبی جو ایک آسمانی کتاب رکھنے کے دعویٰ کے باوجود ستاروں کو پوجتے تھے اور مجوس یعنی پارسی جو ایک آسمانی کتاب رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی سورج، آگ اور دیگر مظاہر قدرت کی پرستش کرتے ہیں۔ ترکستان اور سندھ کی فتح کے موقع پر علمائے اسلام نے انہی پر قیاس کرکے ہندؤں اور بودھوں وغیرہ کو بھی اسی صنف میں داخل کیا۔‘‘( ایضاً صفحہ 758-759)
اس کی مزید بحث سید سلیمان ندوی نے اپنی دوسری کتاب ’’عرب وہند کے تعلقات‘‘ میں کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’سندھ کو فتح کرتے ہوئے جب عرب سپہ سالار محمد بن قاسم سندھ کے مشہور شہر الرور
( الور) پہنچا تو شہر والوں نے کئی مہینے تک حملہ آوروں کا پرزور مقابلہ کیا پھر صلح کی، اور اس میں دو شرطیں قبول کیں، اول یہ کہ شہرکا کوئی آدمی قتل نہ کیا جائے، دوسرے یہ کہ ان کے بت خانوں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ محمد بن قاسم نے جس وقت ان شرطوں کو قبول کیا تو یہ الفاظ کہے۔ ما البد الا ككنائس النصارى واليهود و بيوت نيران المجوس۔ ہندوستان کا بت خانہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مجوس کے آتشکدوں کی طرح ہے‘‘ ( عرب وہند کے تعلقات، صفحہ 132) اس تناظر میں اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ برداران وطن کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ آیا انہیں شبہ اہل کتاب میں شامل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ سید صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس دور میں دونوں قوموں میں باہم میل جول بہت خوشگوار تھا اور سماجی طور پر ایک دوسرے کا خیال کرتے تھے۔ آج بھی بنیادی طور پر اس بات کی ضرورت ہے کہ جو کٹھاس اب ہندو اور مسلمانوں کے مابین پیدا کی جارہی ہے اس کو رفع کرنا نہایت ضروری ہے۔ تکثیری سماج کی اصل غرض و غایت یہی ہے کہ باہم قومیں اپنے اپنے نظریات کے ساتھ سماجی طور پر مل جل کر رہیں۔
ہندو مذہب کی تحقیق
تقریباً چوتھی صدی ہجری میں ہندو اور مسلم خوش اسلوبی سے زندگی گزارتے تھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سارے مسلم اسکالر نے یہاں کے مذہبی اور تمدنی حالات کا جائزہ لیا اور باقاعدہ اسکالرس اور سیاح یہاں آئے جنہوں نے ہندوؤں کے متعلق انتہائی اہم معلومات فراہم کیں۔ چنانچہ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے ’’اس باہمی میل جول کا اثر یہ ہوا کہ عربوں کو ہندوؤں کے مذاہب کی تحقیق کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ یحییٰ برمکی نے جس کی وزارت کا زمانہ 170ھ سے 190 تک ہے ایک شخص کو ہندوستان خاص طور سے اس لیے بھیجا کہ وہ یہاں کی دواؤں اور یہاں کے مذہبوں کا حال لکھ کر لائے۔ اس وقت بغداد کا یہ عالم تھا کہ دنیا کے تمام مذہبوں اور عقیدوں کا وہ اکھاڑہ بنا ہوا تھا۔ عباسی خلفا اور ان کے بعض فلسفہ پسند امرا کے دربار مذہبی جلسوں اور مناظروں سے گرم رہتے تھے جس کے لیے اور دن اور وقت مقرر تھے۔ ہرمذہب والے کو اجازت تھی کہ وہ اپنے مذہب کی دلیلیں پیش کرے اور اسلام پر اعتراضات کرے اور جوابات سنے، ان مجلسوں اور مناظروں میں مسلمان سب سے پیش پیش رہتے تھے اور برامکہ کا خاندان خاص طور سے ان لوگوں کی سرپرستی کرتا تھا۔ عجیب نہیں کہ اس وجہ سے یہ ضرورت پیش آئی ہو کہ ہندوستان کے مذہبوں سے بھی واقفیت حاصل کی جائے۔ جو شخص اس غرض سے ہندوستان بھیجا گیا تھا، اس کی بعینہٖ روداد غالبا محفوظ نہیں ہے۔ مگر ابن ندیم جس نے اپنی کتاب اس واقعہ کی 70-80 برس بعد لکھی ہے۔ وہ ایک تحریر کا حوالہ دیتا ہے جو مشہور عرب فلاسفر یعقوب بن اسحاق کندی کے ہاتھ کی لکھی تھی اور اس پر سنہ 349ھ کی تاریخ پڑی ہوئی تھی۔ اس میں یحییٰ برمکی کے ایک شخص کو ہندوستان کے مذاہب کی تحقیق غرض سے ہندوستان بھیجے جانے کی خبر درج تھی، اور اس پر ’’ہندوستان کے مذاہب اور اعتقادات‘‘ کا سر نامہ اور اس کے نیچے مختصر حالات لکھے ہوئے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ اسی شخص کی روداد کا خلاصہ ہے۔ اس تحریر میں پہلے گجرات کے راجہ ولبھ رائے کے دارالسلطنت مہانگر کے بت خانہ کا حال لکھا ہے۔ اس کے بعد ہندوؤں کے فرقوں کا حال درج ہے۔
1- سب سے پہلے فرقے کا نام مہا کالیہ بتایا ہے۔ جو مہاکالی کو پوجتے ہیں پھر اس کی کیفیات بیان کیں۔ 2- دوسرے فرقہ کا نام الدنیکتیہ (ادت بھکتی) یعنی سورج (ادت) پوجنے والے 3- تیسرا چندر بھکتیہ (چندر بھکتی) یہ چاند کے پجاری ہیں ۔4- چوتھا فرقہ بکرتنیہ ہے جو اپنے کو زنجیروں میں جکڑے رہتے ہیں۔ سر اور داڑھی کے بال منڈاتے ہیں ایک لنگوٹی کے سوا تمام بدن ننگا رکھتے ہیں۔ جو ان کے فرقے میں آتا ہے پہلے کہتے ہیں سب کچھ دان کردو۔ 5- پانچواں فرقہ گنگا پاترا (گنگا جاتری) اس عقیدے کے لوگ تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کی ہاں یہ ہے کہ جو گناہ بھی انسان کرے گا گنگا آ کر نہانے کرنے سے وہ سب دھل جاتا ہے۔6- چھٹے راجپوت یہ (راجپوت) جن کا دھرم راجاؤں کی مدد ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ راجاؤں کے لیے کام میں آ جانا بھکتی ہے۔ 7- ایک اور فرقہ ہے جو اپنے بال بڑھاتا ہے اور ان کو بٹ کر چہروں پر چوٹی بناکر ڈالتا ہے۔ ہر طرف بال بکھرے ہوتے ہیں، وہ شراب نہیں پیتے۔ (دیکھیے تفصیل عرب و ہند کے تعلقات۔ صفحہ 137- 140) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوؤں کے احوال کو مسلمانوں نے نہایت توازن کے ساتھ جاننے کی کوشش کی ہے اور قدیم و جدید مسلم اسکالر نے جو چیزیں بھی ان کے مذہب کے متعلق ملی ہیں ان کو بیان کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا ہے۔
ہندو مسلم رواداری
تاریخ میں ایسے بہت سارے واقعات موجود ہیں ہندوستانی تہذیب کو جلا بخشتے ہیں اور ان سے ہندو مسلم رواداری و اتحاد قوی تر ہوتا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ سید سلیمان ندوی نے بیان کیا ہے۔
’’قرآن پاک کا ترجمہ لوگ آج ہندی میں کرنے لگے ہیں مگر یہ سن کر کتنا اچنبھا ہوگا کہ آج سے تقریباً ایک ہزار برس پہلے قرآن پاک کا ترجمہ ہندی میں یا سندھی میں ہندو راجہ کے حکم سے کیا گیا تھا، سنہ 270ھ میں الرا ( الور وقع سندھ؟) کے ایک راجہ مہروک نے جس کا راج کشمیر بالا ( کشمیر) اور کشمیر زیریں ( پنجاب) کے بیچ میں ہے اور جو ہندوستان کے بڑے بڑے راجاؤں میں ہے، اس نے منصورہ (واقع سندھ) کے امیر عبداللہ بن عمر کو لکھ کر بھیجا کہ کسی ایسے شخص کو میرے پاس بھیجیے جو ہندی میں ہم کو اسلام کا مذہب سمجھا سکے۔ منصورہ میں عراق کا ایک مسلمان تھا جو بہت تیز طبیعت، سمجھدار اور شاعر تھا اور چوں کہ ہندوستان میں پلا تھا اس لیے یہاں کی مختلف زبانیں وہ جانتا تھا۔ امیر نے اس سے راجہ کی خواہش کا ذکر کیا، وہ تیار ہوا، اس نے ان کی زبان میں ایک قصیدہ لکھ کر راجا کو بھیجا، راجہ نے اس قصیدہ کو سنا تو بہت پسند کیا اور اس کو سفر خرچ بھیج کر اپنے پاس بلوایا۔ وہ راجہ کے دربار میں تین برس رہا اور اس کی خواہش سے اس نے قرآن کا ہندی زبان میں ترجمہ کیا، راجہ روزانہ ترجمہ سنتا تھا اور اس سے بے حد متاثر ہوتا تھا’’ (عرب و ہند کے تعلقات ، صفحہ 159-160) اس واقعہ کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کی جڑیں بہت پرانی ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہندی زبان بھی کافی پرانی ہے۔ اس وقت ہندی میں لکھنے کا عام رواج تھا اور عربوں نے ہندی پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ ان چیزوں سے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب فزوتر ہوتی ہے اور ہندو مسلم کے مابین اتفاق کی راہ ہموار ہوتی نظر آتی ہے۔ اگرچہ آج ہماری اس روایت کو کچھ لوگ اپنے سیاسی نظریات سے دبانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ امید قوی ہے کہ یہ مٹھی پر افراد ہمارے باہم تعلقات کو کسی طرح بھی متاثر نہیں کر پائیں گے ۔
فرشتوں کے متعلق ہندوؤں کے عقائد
سید سلیمان ندوی نے سیرة النبی میں ایک بحث فرشتوں کے متعلق کی ہے اور اس میں مذاہب سابقہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ’’مذاہب سابقہ میں ان غیر مادی ذی روح مخلوق ہستیوں کی حیثیت نہایت مشتبہ تھی۔ وہ کبھی مخلوق کہی جاتی تھیں اور کبھی خدائی کے مرتبہ تک بلند کردی جاتی تھیں۔ ہندوؤں کے دیوتاؤں اور دیویوں کی یہی کیفیت تھی۔ پارسیوں میں امشاسپند کا یہی حال تھا کہ کبھی ان کی حیثیت فرشتوں کی رہتی تھی کبھی وہ خدا کے مقابل بن جاتی تھیں اور کبھی خود خدا ان میں سے ایک ہوجاتا تھا۔ ہندوؤں کی طرح پارسیوں میں بھی وہ قابل پرستش سمجھی جاتی تھیں۔ ان کے نزدیک سب سے عالی رتبہ امشاسپند چھ تھے اور ان کے تحت میں تینتیس پھر ان میں سے ہر ایک کے ماتحت ہزاروں تھے اور چونکہ پارسی نیکی اور بدی کے دو متقابل خداؤں کے قائل تھے اس لیے دونوں کے ماتحت اچھے اور برے فرشتوں کی بے شمار تعداد تھی۔
نیکی کے فرشتے براہ راست نیکی کی چیزیں کو اور برائی کے فرشتے مصیبتوں اور ہلاکتوں اور برائیوں کو دنیا میں پیدا کرتے تھے اور اپنے خدا کی طرف سے ان اشیاء پر حاکم سمجھے جاتے تھے۔ دونوں خدا اپنی اپنی فوجوں اور لشکروں کے پرے لے کر باہم نبرد آزما رہتے تھے۔ یہ بھی ان کا اعتقاد تھا کہ ہر امشاسپند یا فرشتہ کے ساتھ ایک یزد یعنی مادہ ( فرشتہ) بھی ہوتی تھی جو اس کی بیوی تھی۔ ہندوؤں میں نر دیوتاؤں اور دیویوں کا تصور تھا۔ مگر ان نر و مادہ ہستیوں میں کسی نر کو کسی مادہ سے خصوصیت خاص نہ تھی بلکہ ہر ایک جنس کا ہر فرد دوسری جنس کے ہر فرد سے لطف اندوز ہوسکتا تھا۔‘‘ ( سیرة النبی ج4، صفحہ 734) صابیوں میں ملائکہ کا تصور بھی بالکل ٹھیک نہ تھا۔ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے۔ ’’صابیوں میں فرشتوں کی قربانی کی جاتی تھی ان کے ہیکل بنائے جاتے تھے اور ان کو مظہر خدا تسلیم کیا جاتا تھا۔ عربوں میں فرشتے مادہ سمجھے جاتے تھے۔ وہ خدا کی بیٹیاں کہ کر پکارے جاتے تھے۔ ان کی پرستش ہوتی تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ وہ خدا کے دربار میں سفارشی ہوں گے۔ یونانیوں میں عقل اول اور عقول عشرہ تمام عالم کی خالق، کارفرما اور مرجع کل مانی گئیں اور خدا کو معطل ٹھہرایا‘‘ ( ایضاً صفحہ 734) اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر پراگندہ عقیدہ فرشتوں کے متعلق ان ادیان میں پایا جاتا ہے۔ البتہ اسلام کی تعلیمات اس سلسلہ میں بالکل واضح ہیں۔
’’ اسلام نے آ کر ان تمام عقائد کو مٹا دیا۔ خدائی اور ربوبیت کی ہر صفت سے فرشتے محروم بتائے گئے۔ ان کی پرستش ناجائز کی گئی۔ نرو مادہ کی مادی جنسیت سے وہ پاک کیے گئے اور انسانوں کو ان پاک مخلوقات کی غلامی و بندگی سے آزاد کیا گیا۔ ان کی تعداد و شمار اور درجہ بندی کا کوئی تخیل باقی نہ رکھا گیا۔ ان کی ہستی خدائے تعالیٰ کے سامنے ایک سراپا مطیع و فرمانبردار اور غلام کی قرار دی گئی جس کا کام شب و روز صرف آقا کا حکم بجا لانا ہے‘‘ ( ایضاً صفحہ 734)
اس سے یہ پتہ چلا کہ ہندوؤں میں فرشتوں کا تصور تو پایا جاتا ہے لیکن ان کے اس عقیدے میں شرک جیسی مکروہ چیز کی ملاوٹ ہے۔ البتہ اسلام نے فرشتوں پر ایمان کی بابت نہایت جامع اور مانع تصور پیش کیا جو تمام باطل عقائد کے لیے راہ ہدایت ہے۔
ہندوستانی مذاہب میں روزہ کا مفہوم
سید سلیمان ندوی نے سیرة النبی کی پانچویں جلد میں بتایا ہے کہ روزہ کا مفہوم تمام ادیان میں پایا جاتا ہے۔ ہندوستانی ادیان میں اس کا مفہوم درج ذیل ہے۔
’’ہندوستان کو سب سے زیادہ قدامت کا دعویٰ ہے، لیکن برت یعنی روزہ سے وہ بھی آزاد نہیں، ہر ہندی مہینہ کی گیارہ بارہ کو برہمنوں پر اکاوشی کا روزہ ہے۔ اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے۔ بعض برہمن کاتک کے مہینے میں ہر دو شنبہ کو روزہ رکھتے ہیں۔ ہندو ہوگی چلہ کشی کرتے ہیں۔ یعنی چالیس دن تک اکل و شرب سے احتراز کرتے ہیں۔ ہندوستان کے تمام مذاہب میں جینی دھرم میں روزہ کے سخت شرائط ہیں۔ چالیس چالیس دن تک کا ان کے یہاں ایک روزہ ہوتا ہے۔ گجرات ودکن میں ہر سال جینی کئی کئی ہفتہ کا روزہ رکھتے ہیں۔ قدیم مصریوں کے یہاں بھی روزہ دیگر مذہبی تہواروں کے شمول میں نظر آتا ہے‘‘( سیرة النبی ،ج5 صفحہ 152)
البتہ اسلام نے روزہ کا نہایت جامع اور معتدل نظام پیش کیا ہے۔ روزہ اسلام کی عبادت کا تیسرا رکن ہے۔ روزہ کا مقصد نوع انسانی کو ہوا و ہوس جیسی چیزوں سے پاک رکھتا ہے۔
آخر میں مذکورہ تمام شواہد کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سید سلیمان ندوی نے ہندوستانی ادیان کے متعلق دلچسپ معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ان کی تحقیقات کا دائرہ ادیان کے حوالے سے صرف ہندوستانی مذاہب کی تہذیب و تاریخ تک محدود نہیں ہے بلکہ انہوں نے یونان و مصر اور سامی ادیان پر بھی گفتگو کی ہے۔ گویا سید سلیمان ندوی اپنی کتابوں میں تقابل ادیان کے متعلق گفتگو کرتے رہے ہیں۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کے متعلق ان مباحث کو اٹھایا ہے جن کی طرف دیگر محققین کی توجہ نہیں گئی تھی۔ جیسے ہندوؤں کی تعلیم وترقی مسلم عہد میں اسی طرح عرب و ہند کے تعلقات وغیرہ وغیرہ۔ ان مباحث کی عصر حاضر میں جو افادیت و معنویت ہے وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے۔ ہندوستان میں آج متعصب اور کوتاہ نظر مورخین مسلمانوں کی رواداری اور ان کے حسن سلوک کو خرد برد کرنے کی کوشش کررہے ہیں ایسے پر آشوب دور میں سید سلیمان ندوی کی ان تحقیقات و تصنیفات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔
[email protected]
***

ہندوستان میں آج متعصب اور کوتاہ نظر مورخین مسلمانوں کی رواداری کی تاریخ میں خرد برد کرنے کی کوشش کررہے ہیں ایسے پرآشوب دور میں سید سلیمان ندوی کی تحقیقات و تصنیفات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021