تفسیر بیان القرآن

مولانا اشرف علی تھانویؒ عظیم علمی کارنامہ۔ مواعظ اور علمی نکات میں لاثانی تفسیر

ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی

 

مولانا اشرف علی تھانوی کی ولادت ۱۵ ربیع الثانی ۱۲۸۰ ہجری کو ہوئی۔اشرف علی نام اس زمانہ کے مقبول و مشہور بزرگ حافظ غلام مرتضیٰ پانی پتی نے تجویز فرمایا تھا۔ مولانا اشرف علی تھانوی والد کی طرف سے فاروقی اور والدہ کی طرف سے علوی النسب ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ والد ماجد عبدالحق قصبہ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس تھے۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جیؒ سے پڑھے تھے۔ ابتدائی فارسی میرٹھ میں مختلف اساتذہ سے پڑھی، پھر تھانہ بھون میں فارسی مولانا فتح محمد صاحب اور اپنے ماموں واحد علی صاحب سے پڑھیں۔ عربی سیکھنے دیوبند تشریف لے گئے جہاں بقیہ کتب فارسی مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی سے پڑھیں عربی کی پوری تکمیل دیوبند ہی میں کی اور صرف ۱۹ یا ۲۰ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہو گئے۔ آپ کے اساتذہ کرام میں مولانا یعقوب، مولانا سید احمد، مولانا محمود، مولانا عبدالعلی اور شیخ الہند محمود حسن شامل ہیں۔ مکہ معظمہ میں شہرہ آفاق قاری محمد عبداللہ مہاجر مکی کے پاس قرات کی مشق کی۔
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد مولانا تھانوی ۱۳۰۱ھ سے ۱۳۱۵ھ تک کانپور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ اور تصانیف سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا، علاوہ ازیں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، ۱۴سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھانہ بھون میں قیام پذیر ہو گئے۔
مولانا اشرف علی تھانوی کے زمانہ میں خانقاہی فقیری و درویشی نے عجیب رخ اختیار کر رکھا تھا جہاں کتاب و سُنت سے بالکل بیگانہ اور بے نیاز ہو کر چند جوگیانہ رسوم اور طریقہ نفس کشی ہی کو واصلِ حق ہونے کا ذریعہ اور ملحدانہ عقائد کو حاصل تصوف و سلوک سمجھ لیا گیا تھا، یہ ایک عالم گیر فتنہ تھا جس میں اکثر دینی رجحان رکھنے والے نادان عوام مبتلا ہو رہے تھے۔ چنانچہ مولانا تھانوی نے اپنی مجددانہ تبلیغ کی جدوجہد اور مصلحانہ توجہ اسی طبقہ پر مبذول کی اور اس موضوع پر عقائد واعمال کی اصلاح کے لیے متعدد کتابیں بھی تصنیف کیں، سینکڑوں وعظ وملفوظات قلم بند کرکے شائع کیے اور قرآن و حدیث کے ذریعہ باطل عقائد کا رد اور تمام غیر اسلامی رسم و روایات اور غیر معقول و ملحدانہ رموز و اسرار باطنی اور گمراہ کن اصلاحات کی تردید کی اور نمایاں طور پر واضح کر دیا کہ طریقت یعنی تصوف وسلوک یا دوسرے الفاظ میں تہذیب اخلاق و تزکیہ نفس دین مبین ہی کا ایک اہم اور بنیادی رکن ہے اور اس پر شریعت و سُنت کے مطابق عمل کرنا ایک درجہ میں ہر مسلمان پر فرض و واجب ہے۔
جس وقت مولانا تھانوی خانقاہ تھانہ بھون میں مقیم ہوئے، اس وقت آپ کی عمر تقریباً ۳۵ سال تھی، یہاں قیام پذیر ہونے کے بعد مولانا تھانوی کی ساری زندگی تقریباً نصف صدی سے زائد تصنیف و تالیف اور مواعظ و ملفوظات میں بسر ہوئی۔ اسی زمانہ میں تقریباً چالیس سال تک مولانا تھانوی کا ملک کے طول عرض میں تبلیغی دوروں کا سلسلہ جاری رہا۔ بڑے بڑے شہروں میں مشہور دینی درس گاہوں، انگریزی تعلیم گاہوں اور اسلامی انجمنوں کے شاندار جلسوں میں مولانا کے اصلاحی وعظ ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ والہانہ انداز میں جمع ہوتے اور دینی و دنیوی تقاضوں سے آگاہ ہو کر ایمانی تقویت حاصل کرتے اور روحانی فیض پاتے۔
مولانا تھانوی کے مواعظ خاص طور پر عقائد کی اصلاح، اعمال کی درستی، معاملات کی اہمیت اور اخلاق کی پاکیزگی کے لیے ہوا کرتے تھے، اکثر و بیشتر مواعظ قلم بند ہوئے اور طبع ہو کر شائع ہوئے اور بعض شائع نہ ہو سکے تاہم، شائع شدہ مواعظ کی تعداد تقریباً چار سو سے زائد ہے جو اب بھی وقتاً فوقتاً شائع ہو رہے ہیں۔ آپ نے پہلی کتاب ۱۸ سال کی عمر میں۲۰ جلدوں میں مثنوی زیر وبم کے نام سے لکھی۔
(۱) مولانا تھانوی سے ۹ تفاسیر وحواشی قرآن منسوب ہیں جن کی تفصیل ذیل میں ہے:
تفسیر التبیان: یہ تفسیر مولانا کی تقریروں کا مجموعہ ہے؛ مولانا اس تفسیر کے متعلق لکھتے ہیں: ’’یہ احقر کی بعض تقریروں کا ایک مختصر مجموعہ ہے جو میرے ہمشیرہ زادہ مولوی سعید احمد نے مجھ سے تفسیری مقامات پڑھتے وقت ضبط تحریر کر لی تھیں مگر ان کی وفات ہونے سے اس کی تکمیل کی نوبت نہیں آئی‘‘۔
(۲) بیان القرآن میں مولانا نے اس تفسیر کا کثرت سے تذکرہ کیا۔
درس قرآن: ڈاکٹر ریحانہ لکھتی ہیں: ’’حضرت تھانوی تھانہ بھون میں لوگوں کو باقاعدہ درس قرآن دیا کرتے تھے جسے لوگوں نے قلمبند کرلیا تھا یہ بھی شائع نہیں ہوا‘‘۔
(۳) تقریر بعض البنات فی تفسیر بعض الآیات: مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ’’حضرت تھانوی کے خاندان کی بعض لڑکیوں نے مولانا سے قران مجید پڑھا تھا اور اکثر آیات کی تفسیر وتقریر کو تحریر میں ضبط کر لیا تھا۔ وہ ایک مجموعہ ہو گیا تھا مگر شائع نہیں ہوا‘‘۔
(۴) اشرف البیان فی علوم الحدیث والقرآن: یہ تفسیر مولانا تھانوی کے مواعظ سے ترتیب دی گئی ہے۔ مولانا دوران وعظ آیات کی تفسیر کے علمی نکات بیان کرتے تھے ان نکات کو اس میں جمع کیا گیا ہے۔
(۵) تفسیر المواعظ: بقول ڈاکٹر عبدالحئی اسے محمد مصطفٰی بجنوری نے مولانا کے مواعظ میں موجود آیات تفسیریہ کو مع تفاسیر جمع کر دیا ہے۔(۶) تفسیر سورہ یوسف: یہ بیان القرآن کے علاوہ الگ ترجمہ وتفسیر کی شکل میں شائع ہوئی۔حواشی تفسیر حل القرآن: یہ دراصل مولانا حبیب احمد کیرانوی کی تفسیر ہے۔ تفسیر لکھنے کے بعد کیرانوی صاحب نے اسے مولانا کی خدمت میں پیش کیا جس پر مولانا نے جگہ جگہ حواشی لکھے ہیں۔
(۷) حواشی تفسیر جلالین: اس حاشیہ کا ذکر صرف ’ماہنامہ القاسم دیوبند‘ میں ملا ہے ۔
(۸) بیان القرآن: یہ مولانا تھانوی کی معروف و مقبول ترجمہ وتفسیر قرآن ہے۔ اس زمانہ میں ملک میں مغربی فلسفہ اور تہذیب و معاشرت کا اثر پھیل رہا تھا جس سے تعلیم گاہیں تجارتی ادارے اور سرکاری محکمے اور عوام بڑی تعداد میں متاثر ہو رہے تھے۔ مولانا تھانوی نے اس فتنہ کے سد باب کے لیے بڑے شدومد کے ساتھ تبلیغ شروع کی، اس موضوع پر سینکڑوں وعظ، مختلف عنوانات کے ساتھ بیان کیے اور متعدد کتابیں بھی تصنیف کیں۔ مولانا کی تبلیغ کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں میں دینی شعور اور اسلامی شعائر کی طرف رجحان پیدا ہونے لگا، ہر طبقہ کے اکثر و بیشتر انگریزی تعلیم یافتہ لوگ، خصوصاً سرکاری محکموں کے بڑے بڑے عہدہ دار مولانا تھانوی کی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔ مولانا تھانوی کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے۔ آپ کی تمام تصانیف و تالیفات، تمام مواعظ و ملفوظات، تحریری و تقریری کارناموں سے یہ بات نمایاں طور سے آشکار ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو مولانا تھانوی کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔ ان میں سے چند پیش خدمت ہیں۔
۱۔تفسیر بیان القرآن: سلیس بامحاورہ ترجمہ، تفسیر
۲۔ اعمال قرآنی: قرآن مجید کی بعض آیتوں کے خواص
۳۔ حقیقۃ الطریقۃ :سلوک وتصوف کے مسائل اور روایات پر مشتمل کتاب
۴۔ احیاء السنن: فقہی ترتیب پر جمع کیے گیے احادیث کا مجموعہ
۵۔ امداد الفتاوی: فقہی مسائل اور مباحث کا مجموعہ
۶۔ الانتباہات المفیدہ: جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے مذہبی اعتراضات کے جوابات
۷۔ اعلاء السنن: مذہب حنفی کی موید احادیث محدثین اور اہل فن کی تحقیقات کا مجموعہ
۸۔ بہشتی زیور: اسلامی معلومات کا مکمل ذخیرہ
۹۔ المصالح العقلیہ: اسلامی احکام ومسائل کے مصالح وحکم کا بیان
۱۰۔جمال القرآن: اصطلاحات تجوید پر مشتمل ایک عام فہم رسالہ
۱۱۔نشر الطیب: آنحضرتؐ کی سیرت پر مشتمل جامع و مانع کتاب
مولانا اشرف علی تھانوی کی سوانح چار جلدوں پر مشتمل ’اشرف السوانح‘ کے نام سے مولوی عبدالحق اور خواجہ عزیزالحسن مجذوب نے لکھی ہے جس کی تین جلدیں مولانا کی حیات میں اور آخری جلد آپ کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔ مولانا کی حیات پر لکھی گئی اس تفصیلی سوانح عمری کا خلاصہ مولانا نور احمد، قاری اخلاق حسین اور منشی عبدالرحمٰن نے ’خلاصہ اشرف السوانح‘ کے نام سے لکھا جسے ادارہ اشرف المواعظ، دیوبند نے شائع کیا۔
مولانا کی عظمت کا اندازہ عبدالماجد دریابادی کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے جسے انہوں نے اپنی کتاب ’آپ بیتی‘ میں بیان کیا ہے ۔
’’دوسری شخصیت ان سے بھی اہم تر اور مفید تر جو میرے نصیب میں آئی وہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی تھی، مدتوں ان سے شدید بدظنی میں مبتلا رہا اور اس بدظنی کے بڑھانے میں بڑا حصہ خود حضرت ہی کے بعض مریدوں اور معتقدوں کا تھا۔ مدتوں یہ سمجھتا رہا کہ یہ ایک متشدد وخشک مولوی ہیں۔ برطانیہ نواز اور نصرانیوں کے دوست۔ جب وصل بلگرامی نے ان کے وعظ پڑھنے کو دیے تو پہلی بار آنکھیں کھلیں اور پھر جب مراسلت کے بعد نوبت دید وزیارت کی آئی تو کتنے ہی کمالات ظاہری کھل کر رہے۔ علم وفقہ، تصوف وشریعت کے جامع، حسن وعمل کے ایک زندہ پیکر اور ارشاد واصلاح کے فن کے تو بادشاہ۔۔۔ شیخ سعدی اگر آج ہوتے تو عجب نہیں کہ اپنا نسخہ گلستاں بہ غرض اصلاح ان کی خدمت میں پیش کرتے۔ حضرت غزالی ہوتے تو عجب نہیں کہ احیاء علوم الدین کی تصنیف میں استناد واستفادہ ان سے سطر سطر پر کرتے رہتے۔ بزرگ اور عابد زاہد بزرگ اور متعدد دیکھنے میں آئے لیکن مصلح، مزکی، مربی کوئی ایسا دیکھنے میں نہ آیا‘‘۔
(۹) مولانا اشرف علی تھانوی کسی شخص یا فرد کا نام نہیں، بلکہ ایک علمی، روحانی اور تربیتی ادارے کا نام ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی دانش گاہ تھے جس نے اصلاح و تربیت کے لا تعداد پیاسوں کی پیاس بجھائی۔ وہ سلسلہ بالواسطہ طور پر آج بھی جاری ہے۔ آج کے دور میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کا کام کرنے کے لیے ان کی تعلیمات مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مولانا تھانوی نے کئی ماہ علیل رہ کر ۲۰ جولائی ۱۹۴۳ء کی شب ۸۳ سال کی عمر میں وفات پائی اور تھانہ بھون میں آپ ہی کی وقف کردہ زمین ’’قبرستان عشق بازاں‘‘ میں آپ کی تدفین ہوئی۔
حوالے:
۱۔ The Quranic Contributions of Ulama -e- Deoband ، غیر مطبوعہ ،ص۔۵۹،۹۰
۲۔مولانا اشرف علی تھانوی، بیان القرآن، جلد اول، ص،۲، ایچ ،ایم سعید ،کمپنی ، کراچی
۳۔ ڈاکٹر ریحانہ ضیاء صدیقی، مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر کا تحقیقی جائزہ،ص۔ ۲۶۳ناذیہ پرنٹر، علی گڑھ،۱۹۹۱
۴۔ ماہنامہ الحسن،حضرت تھانوی نمبر،۱۲۲ بیس بڑے مسلمان ،ص،۳۳۳
۵۔ ڈاکٹر عبدالحئی : فہرست تالیفات حکیم الامت ،کراچی، مکتبہ دارالعلوم ، کورنگی ،ص ۶۰۱
۶۔ ایضاً،ص۔۵۹۹
۷۔ حبیب احمد کیرانوی، تفسیر حل القرآن،ص،۳، ادارہ تھانوی، دیوبند
۸۔ ماہنامہ القاسم دیوبند،جولائی ۱۹۹۱ء
۹۔ مولانا عبدالماجد دریابادی، آپ بیتی، ص۔ ۳۵۸،۳۵۹، مکتبہ فردوس، لکھنو،۱۹۷۸
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021