تزکیہ نفس:کامیابی کی شاہراہ
دنیا پرآخرت کو ترجیح‘نیکیوںمیں سبقت اور توبہ واستغفار کے بغیر تزکیہ ممکن نہیں
ڈاکٹر ساجد عباسی ،حیدرآباد
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى ۔فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی(سورۃ اعلیٰ ۱۴)
اس آیت میں اللہ کے فرمان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کامیابی ان کے حصےمیں آتی ہے جو اپنی شخصیت کا تزکیہ کرتے ہیں ۔تزکیہ نفس کے معنی ہیں نفس کی تطہیر اور اس کا نشونما۔
اور یہ حقیقت بھی قرآن سےمعلوم ہوتی ہے کہ انسان کی اصل کامیابی جہنم کی آگ سے نجات اور جنت میں داخلہ ہے(سورۃ آل عمران۱۸۵)۔اس کا مطلب یہ ہواکہ جنت ایسا ابدی مسکن ہے جہاں صرف مُزکِّی نفوس کو رکھا جائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم تزکیہ کے اصل مفہوم سے واقف ہوں۔ارشادِ باری ہے: اور نفسِ انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا۔ پھر اُس کی بدی اوراُس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔(سورۃ الشمس۔آیات ۷تا۱۰)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ۔انسان کو اللہ کی فطرت پر پیداکیا گیا(سورۃ الروم ۳۰)اور نیکی و برائی کی حس اس کی فطرت میں ودیعت کردی گئی۔اس کے نفس کا ایک پہلو نفسِ امّارہ ہے جو برائی اور بے لگام خواہشاتِ نفس پر اکساتا ہے ۔اور اس کے نفس کا دوسرا پہلو نفسِ لوّامہ ہے جو برائی کے ارتکاب سے پہلے متنبہ کرتا ہے کہ یہ برائی ہے اور برائی کے ارتکاب کے بعد ندامت و شرمندگی کا احساس دلاتا ہے۔اورنفس کا تیسرا پہلو نفس ِ مطمئنہ ہے جو انسان کے اندر نیکی کرنے کے بعد اطمنانِ قلب کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔
فطری طور پر انسان پاکی کو پسند کرتا ہے۔ وہ ہر طرح کی آلودگی سے نجات چاہتا ہے۔چاہےوہ فضا ء کی آلودگی ہو یا پانی کی آلودگی ہو یا گھر کے اندر کی یا باہر کی گندگی ہو یا کپڑوں یا جسم کی ناپاکی ۔ ہرناپاکی سے انسان نجات چاہتا ہے۔اور پاکی حاصل کرنے کا یہ عمل تسلسل سے انسانی زندگی میں ہوتا رہتا ہے۔اسی طرح روح کی پاکیزگی بھی ہمہ وقت مطلوب ہے۔ روح بھی آلودگی کا شکار ہوتی ہے۔جس میں نیت وارادہ کی ناپاکی،باطل عقائد کی ناپاکی،غلط افکار و نظریات وخیالات کی ناپاکی، اعمال میں بدعت و خرافات کی ناپاکی شامل ہیں۔ ان ناپاکیوں سے روح مسلسل آلودگی کا شکار ہوتی رہتی ہے۔انسان کے اطراف رہنے والے افراد،ماحول ، اسکے دوست احباب ،انسان کی شخصیت پر اچھا یا برا اثر ہمہ وقت ڈالتے رہتے ہیں۔ جب انسان کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آجاتا ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ مجموعی طورپر اس کی شخصیت مُزکِّی(پاک)شخصیت ہے یا آلودہ شخصیت ہے۔اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا کہ کون سی شخصیت جنّت کی مستحق ہے اور کون سی جہنم کی(سورۃ الانفال۳۷) ۔
کچھ نفوس ایسے ہوتے ہیں جو تمام برائیوں سے پاک ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچتے ہیں ۔ ربِّ کریم ان کے نیک اعمال کو قبول فرماتا ہے اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتا ہے۔وہ اس حال میں اللہ کے پاس پہنچتے ہیں کہ ان سے کہا جاتا ہے :اے نفسِ مطمئن۔چل اپنے ربّ کی طرف اِس حال میں کہ تُو (اپنے انجامِ نیک سے) خوش (اور اپنے ربّ کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔شامل ہو جا میرے (نیک) بنددوں میں۔اور داخل ہو جا میری جنت میں۔(سورۃ الفجرآیات۲۷تا ۳۰۔)
کچھ لوگ ہوں گے جن کے برے اعمال نیک اعمال سے زیادہ ہوں گے تو ان کا تزکیہ اس طرح ہوگا کہ دنیا میں کو ئی مصیبت ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ۔اگر دنیا کی مصیبتوں سے ان کا تزکیہ نہ ہو سکے تو ان کو موت کی تکلیف ،قبر کے عذاب اور حشر کی ہولناکیوں اور وہاں کے تکلیف دہ انتظار سے ان کے گناہوں کی تلافی کی جائے گی ۔اسکے باوجود اگر گناہوں سے تزکیہ نہ ہوسکے تو ایسے لوگوں کو ان کی معصیت سےمکمل پاک کرنے کے لیےکچھ عرصہ جہنم کی سزا دی جائے گی۔اور جب ان کی شخصیت گناہوں سے مکمل آزاد ہوجائے گی تو ان کے ایمان کی قدر دانی کرتے ہوئے ان کے ایمان کی بدولت ان کو جنت میں بھیجا جائے گاجہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس تزکیہ کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا ہے:رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصّہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا، بلکہ ان کےلیے تو سخت درد ناک سزا ہے۔)سورۃ آل عمران ۷۷(۔یعنی جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ کےلیے جہنم میں ڈالنے کاارادہ کرتا ہےان کے بارے یہ ارشاد ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ ان کو پاک نہیں کرے گا۔یہ وہ تزکیہ کا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ خود اپنے اس علم کی بنیاد پرانجام دیتا ہے کہ کون اس تزکیہ کا مستحق ہے ۔ لیکن اس خدائی تزکیہ سے وہ لوگ مثتثنٰی ہیں جن کی موت کفر و شرک کی حالت میں ہوئی اور جنہوں نے استکبارکے ساتھ زندگی گزاری ہو۔اور اس آیت کے مطابق وہ لوگ بھی جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو دنیاوی مفاد کے عوض توڑ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دنیا ہی میں ان کا بدلہ دے دیتا ہے لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔لیکن ایک تزکیہ کا وہ عمل ہے جس کا اختیار خود انسانوں کو دیا گیا ہے کہ اپنے اپنی زندگی میں مسلسل عقیدے و افکار،اپنی نیتوں اور اپنے اعمال کا تزکیہ کرتے رہیں (سورۃ المومنون ۴)۔اس سعی کے باوجود جو گناہ سرزد ہوجائیں ان کی تلافی کا بھی اللہ تعالیٰ نے جو الرحمٰن الرحیم ہے، ایسا عمدہ انتظام فرمایا ہےکہ اس نے اپنی بے پناہ رحمت کی بنیاد پر انسانوں کے لیے یہ اذنِ عام دیا ہے کہ لوگ استغفار طلب کریں اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں۔ارشاد ِ ربانی ہے:قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَهِ إِنَّ اللَهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
)اے نبیؐ(کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاوٴ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفورٌ رحیم ہے۔(سورۃ الزمر۵۳)
یہ ایک ایسا زرین موقعہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کے بارِ گراں سے اسی دنیا میں مامون ہوجاتا ہے اگر وہ استغفار کی روش اختیار کرلے۔لیکن جب سانس اکھڑنے لگتی ہے تو اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔عقلمند ترین ہے وہ شخص جو گناہوں کی سزا پانے کے بجائے اپنی زندگی ہی میں اللہ تعالیٰ کے حضور شرمساری کے ساتھ رجوع کرے اور اپنے گناہوں کی معافی کا پروانہ حاصل کرلے۔آخرت میں اللہ کی رحمت یا اذنِ شفاعت بھی بندے کے اس استحقاق کی بنیاد پرہوگی جس کو انسان اپنے رب کی بندگی کے رویّہ سے حاصل کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سےتزکیہ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے سونے کے ساتھ لگی ہوئی آلودگی کو دور کرنے کے لیے اس کو پگھلایا جاتا ہے۔اگر سونا خالص ہوتو پگھلانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ عقلمندی یہ ہے کہ ہم دنیا سے اس حال میں رخصت ہوں کہ ہم خالص سونے کی طرح ہوں اور جنت میں بغیر انتظارکے داخل کردیے جائیں۔اس لیے صحابہ کرامؓ اپنی زندگی میں کثرت سے توبہ و استغفار کیا کرتے تھے اور نیکیوں میں سبقت کرتے تھے ۔جب بھی کوئی گناہ یا زیادتی سرزد ہوتو فورا ایک نیکی کرتے تھے جس سے اسکی تلافی ہوسکے۔(درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں ۔سورۃ ھود۱۱۴)۔
انبیاء ورسل کے بھیجے جانے کی غرض و غایت بھی یہی تھی کہ افراد کا تزکیہ ہو۔خاتم النبیین محمدؐ کے مبعوث کیے جانے کا ایک مقصد بھی یہی ہے جو قرآن میں بیان کیا گیا:وُہی ہےجس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسُول خود اُنہی میں سے اُٹھایا ، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اِس سے پہلے وہ کُھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔سورۃ الجمعہ۲۔یہ دراصل ابرا ھیم علیہ السلام کی دعا کا جواب ہےجس میں آپ نے دعا کی تھی کہ ایک رسول کو مبعوث فرما جو انسانوں کا تزکیہ کرے۔(سورۃ البقرۃ ۱۲۹)۔
تزکیہ عقائد و افکار میں بھی درکارہے، تزکیہ نیت و ارادہ میں بھی درکار ہے، اعمال میں بھی اور اخلاق و معاملات میں بھی۔ تزکیہ میں سب سے اولین چیز عقائد کا تزکیہ ہے۔انسان کو یہ معلوم ہوکہ اس کا خالق کون ہے۔اوراس کائنات میں اس کی پوزیشن کیا ہے۔مقصدِ زندگی کیا ہے اورمرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔اس معاملے میں انسان، اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے جو علم بھیجا گیا ہے اس سے بے نیا ز نہیں ہوسکتا۔ عقائد کا تزکیہ یہ ہےکہ اللہ کی ذات و صفات ،حقوق و اختیارات میں شرک کا شائبہتک نہ ہو۔مشرکانہ عقیدے کے ساتھ کیے جانے والےاعمال نہ صرف غارت ہوجائیں گے بلکہ شرک کی گندگی انسان کو ابدی جہنم تک پہنچادیتی ہے۔ارشادِ ربّانی ہے:تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم خسارے میں رہو گے۔)سورۃ الزمر۶۵(۔اللہ کے سوا دوسروں کو کارساز سمجھنا اور دعاؤں کا سننے والا سمجھنا تزکیہ کےعمل کو غلط رخ پر ڈال دیتا ہے۔شرک کی گندگی سے پاکی کے بغیرانسان کا تزکیہ کے عمل کا آغاز ہی نہیں ہوسکتا۔
عقائد درست ہونے کےبعد نیت و ارادہ کا تزکیہ درکار ہے۔ نیت میں اخلاص ہو۔ صرف ’لِوجہ اللہ‘ نیک اعمال کیے جائیں ۔کسی سے جزا و شکریہ کی بھی امید نہ رکھی جائے۔(سورۃ الدھر۹)۔
اللہ کی رضا کے حصول کے سوا کوئی اور جذبہ کارفرما نہ ہو۔ورنہ ایسے اعمال ضائع ہوسکتےہیں اور آخرت میں سوائے ناکامی و رسوائی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔نیت کے کھوٹ کے ساتھ کبھی تزکیہ نہیں ہوسکتا۔ایک مشہور حدیث ہے کہ ایک عالم ،ایک سخی اور ایک شہید کو جہنم میں گھسیٹ کرڈال دیا جائے گا اس لیے کہ عالم نے شہرت کی خاطر دنیا میں علم کی اشاعت کی تھی ،سخی آدمی نےفیاضی کی نمودو نمائش کی خاطر مال خرچ کیا تھا اورشہید نے پامردی و جفاکشی کی شہرت کی خاطر جنگ میں حصہ لیا تھا۔
صحیح فکرِ اسلامی کے بغیر بھی تزکیہ کا حصول ناممکن ہے۔قرآن اور سیرت رسول اللہ ؐکے آئینے ہی میں انفرادی و اجتماعی زندگی گزاری جائے۔ بدعات وخرافات اور غیر اسلامی افکار کی آلودگی کے ساتھ وہ شخصیت بن نہیں سکتی جو جنت کی مستحق ہو۔
سوال یہ ہے کہ تزکیہ نفس کیسے حاصل ہوتا ہے؟
۱۔اللہ تعالیٰ نےسورۃ اعلی میں تزکیہ نفس کا ذکر کرنےکے فوراًبعد فرمایا کہ جو فرد اپنے نفس کا تزکیہ کرنا چاہتا ہے وہ اللہ کے نام کو یاد کرے۔ یعنی اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ اللہ کی مدد کا طالب ہو۔ اپنے نفس کا محاسبہ کرے۔ اپنی کوتاہیوں و لغزشوں کا اعتراف کرے۔ استغفار طلب کرے۔ استغفار ایک مسلم کی زندگی میں تزکیہ کا بہترین ذریعہ ہے۔
۲۔اسی کے ساتھ فرمایا: فصلّٰی ۔کہ اس نے نماز پڑھی۔ یہاں نماز ایک علامت کے طور پر بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک فرد کے تزکیہ کے لیے عبادات کا جو نظام بنایا ہےوہ تزکیہ نفس اورنفس کو تقویٰ و احسان کے درجوں پر پہنچاتے کے لیے نہایت ہی موثرہے۔نماز فحش و منکرات سے بچانے بہترین ذریعہ ہے۔ (سورۃ عنکبوت ۴۵)۔
۳۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق تزکیہ نفس کے لیے اور نفاق کی بیماری کو دور کرنے کے لیے بہت ہی موثر ہے۔منافقوں اور کمزور اہل ایمان والوں کے بارے میں فرمایا:اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دعا ان کے لیے وجہ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے)سورۃ التوبہ۱۰۳(۔مزید اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔)سورۃ الیل ۱۸(۔ہر عبادت اللہ تعالیٰ نے جو فرض کی ہے وہ تزکیہ نفس میں اہم کردار اداکرتی ہے۔
۴۔ تزکیہ نفس میں قرآن کی تلاوت کا بہت اہم رول ہے۔ قرآن کی تلاوت سے دل لزر اٹھتے ہیں اور ایمان بڑھتا ہے۔)سورۃ الانفال۲( ایک اہم حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا: دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے ۔اصحابِ رسول نے پوچھا : وما جلاء ھا یا رسول اللہ۔آپؐ نے فرمایا: قرآن کی تلاوت اور موت کی کثرت سے یاد۔
۵۔تزکیہ نفس کے حصول میں صالح اجتماعیت کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔قدیم زمانے میں لوگ خانقاہوں میں اپنےنفوس کا تزکیہ کرتے تھے۔مسنون طریقہ یہ ہے کہ صالح اجتماعیت کا حصہ بن کر قرآنی دروس کی محفلوں سے ،اجتماعی مطالعے سے ہم ایک دوسرے کی تربیت کرتے ہوئےصالح اجتماعیت سے فائدہ اٹھائیں۔
6. دعوت الی اللہ کا کام تزکیہ نفس کے لیے بہت موثر ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بُلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔(حم السجدہ ۴۱:۳۳)۔جو بندہ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا عزم رکھتا ہےوہ چاہتا ہے کہ اس کے کسی عمل سے مدعو اسلام کے بارے میں غلط تاثر قائم نہ کرلے۔اس طرح دعوت الی اللہ کا کام نفس کے تزکیہ کے لیے نہایت موثر ذریعہ بن جاتاہے۔
سوال یہ ہےکہ کیسے یہ معلوم کیا جائےکہ ہمارے تزکیہ نفس کی سطح کیا ہے؟ تزکیہ نفس کی سطح کا اظہار ہماری عبادات اور اس کے اندرخشوع و خضوع کی کیفیت سے ہوتا رہتا ہے۔اس کے ساتھ ہمارے کردار و اخلاق اورمعاملات کی نوعیت سے ہمارے تزکیہ نفس کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
اب ہم دیکھیں کہ تزکیہ نفس کےموانعات کیا ہیں جس سے تزکیہ نفس نہیں بلکہ تدسیہ نفس ہوتا ہے۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ۔نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبایا۔یعنی نیکیوں کےاحساسات کو جس نےدبایا۔معصیت کے جتنے راستے ہیں وہ تزکیہ کے مقابلے میں تدسیہ کا کام کرتے ہیں ۔جو قلب کو سیاہ بنادیتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قلب پر مہر لگ جاتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ہر گز نہیں، بلکہ دراصل اِن لوگوں کے دلوں پر اِن کے بُرے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔(سورۃ المطففین ۱۴)۔ سورہ اعلٰی میں وہ اصل وجہ بیان کی گئی ہے جو تزکیہ نفس کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہےاور وہ ہے دینا کو آخرت پر ترجیح دینا۔بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ۔وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى ۔بلکہ تم ترجیع دیتے ہو دنیا کو آخرت پر جبکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔(سورۃ الاعلی۱۶،۱۷۔)
عبداللہ ابن العمر بن العاص کہتے ہیں ہم نے کہا یا رسول اللہ کون آدمیوں میں سب سے افضل ہے؟آپؐ نے فرمایا: صاف دل والااور زبان کا سچا۔اے اللہ کے رسول زبان کا سچا توہم جانتے ہیں لیکن صاف دل کون ہے؟آپؐ نے فرمایا: جس کے دل میں نہ گناہ ہو نہ بغض ہو نہ حسد ہو۔اس سے معلوم ہوا کہ نفس کا تزکیہ یہ ہے کہ دل تکبر، بغض، حسد سے پاک ہو۔انس بن مالک سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایاآدمی کا ایمان درست نہیں ہوتا جب تک اس کا دل درست نہیں ہوتا۔اس کا دل درست نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان درست نہیں ہوتی ۔
ان احادیث سے معلوم ہواکہ دل کے تزکیہ کا انحصارآنکھ،کان ،زبان ،شرمگاہ یعنی جتنے معصیت کے دروازے ہیں ان سے تزکیہ پر ہے۔نفوس کا تزکیہ شہوات پر اور شبہات پر قابو سے حاصل ہوتا ہے۔شبہات سے مرادہے: شرک،کفر ،نفاق اور ضعف ایمانی۔شہوات سے مراد وہ تمام معصیت کے میدان ہیں جو خواہشات ِ نفس کے دروازوں سے انجام پاتے ہیں۔
اس سلسلے میں بہترین دعا سکھائی گئی ہے۔رسول اللہ کی مسنون دعا ہے:
اللھم طَھّر قلبی مِنَ النِّفاقِ و عَملی مِنَ الرِّیاءو لسانی مِن الَکذِب و عَیْنی مِنَ الخِیانہ۔فانک تعلم خائنۃ الاَعْیُنِ وَماَ تخفِی الصُّدُور
اے اللہ میرے دل کو نفاق سے، عمل کو ریا سے، میری زبان کو جھوٹ سے ،میری آنکھوں کو خیانت سے پاک کردے۔تو ہی جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کو اور جو کچھ ہمارےسینوں میں ہے۔
تزکیہ نفس کے سلسلےمیں مزید کچھ دعائیں ہیں جو ہمیں یاد کرنی چاہیے:
اللھم آتِ نفسی تَقواھا ۔وزکِّھا انَتَ خَیر مَن زَکّاھا ۔انتَ وَلِیّھا و مَولاھا۔
اللھم اِنّی اَعُوذُبِکَ مِنَ الشّکِ وَ الشّرکِ والشِّقَاقِ والِنّفَاق ِو سُوءِالاَخلاقِ وا لمُنکَرات ۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022