تبلیغی ارکان بے قصور۔ بامبے ہائی کورٹ نے انصاف کی لاج رکھ لی
متعصبانہ کارروائی کے لیے حکومت،پولیس اور میڈیا کی سرزنش
ممبئی:(دعوت نیوز نٹ ورک) عالمی وبا کووڈ19 کے ابتدائی مرحلے میں جب تمام عالمی برادری اور حکومتیں اس وباء سے نمٹنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کئی طریقوں پر عمل پیرا تھیں، ایسے وقت بھی ہمارے ملک میں اس عالمی وباء کو فرقہ پرستی کے لیے ایک موقع سمجھا گیا ۔ مسلمانوں کو نہ صرف میڈیا بلکہ حکومتی گوشوں کی جانب سے نشان ملامت بنایا گیا بلکہ معاشرے میں فرقہ وارانہ تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہر طرف یکساں شور مچایا گیا جس کی وجہ سے ہر خاص و عام اس بار بار دہرائے جانے والے جھوٹ کو بھی سچ سمجھنے لگا۔ پورے ملک میں ساڑھے تین ہزار سے زائد تبلیغی جماعت کے ارکان کو لاک ڈاؤن کے دوران جس طرح پولیس، میڈیا اور سوشل میڈیا کے شرپسند گروہوں کی جانب سے ستایا گیا اس سے پورا ملک واقف ہے۔ تبلیغی جماعت کے ارکان پر ان کا موقف سنے اور سمجھے بغیر کورونا وائرس پھیلانے کے الزامات عائد کئے گئے۔ انہیں مسجدوں سے گرفتار کرکے کورنٹائین سنٹرز میں ڈالا گیا۔ ان پر آئی پی سی اور دوسرے کئی ایکٹ کے تحت مختلف دفعات لگا کر مقدمات قائم کئے گئے۔ ان کے خلاف مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے الگ الگ آرڈیننس جاری کر کے ان کی حراست کو طویل کیا گیا۔ اس دوران اتر پردیش میں سہارنپور اور ہریانہ میں نوح کی مقامی عدالتوں کے علاوہ تمل ناڈو، کرناٹک اور دہلی کی ہائی کورٹس نے بھی بہت سے غیر ملکی تبلیغی شہریوں کو راحت دی۔ ان میں کئی غیر ملکی شہری اپنے ملکوں کو واپس لوٹ بھی گئے۔بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے جسٹس ٹی وی نلوڈے اور جسٹس ایم جی سیولکر نے گزشتہ جمعہ 21 اگست 2020 کو تین مختلف پٹیشنز پر 58 صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے تبلیغی جماعت کے کُل 29 غیر ملکی ارکان کے خلاف درج تمام ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ یہ 29 غیر ملکی جو کہ آئیوری کوسٹ، گھانا، تنزانیہ، جبوتی، بینن اور انڈونیشیا کے شہری ہیں ان پر دہلی کے مرکز بستی نظام الدین میں ہوئے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے کے بعد ٹورسٹ ویزا کے ضابطوں کی مبینہ طور پر خلاف ورزی کرنے کے الزامات ہیں، پولیس نے انہیں مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر سے گرفتار کرکے ڈزاسٹرمینجمنٹ ایکٹ ‘پینڈیمک ایکٹ‘ فارنرس ایکٹ اور ویزا ایکٹ کے علاوہ آئی پی سی کی دفعات 270، 269، 188 ،144 کے تحت مقدمات قائم کئے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے 6 ہندوستانی میزبانوں اور مساجد کے ٹرسٹیز کو بھی انہیں پناہ دینے کے لیے اس کیس میں ماخوذ گیا تھا۔ان تمام غیر ملکی شہریوں پر پولیس نے ان اطلاعات کے بعد مقدمہ درج کیا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الگ الگ علاقوں کے مسجدوں میں رہ رہے تھے اور نمازیں ادا کر رہے تھے۔ عدالت میں داخل کردہ غیر ملکی شہریوں کی درخواست کے مطابق، وہ حکومت ہند کی جانب سے جاری کیے گئے قانونی ویزا پر ہندوستان آئے تھے۔ وہ ہندوستانی تہذیب، روایات، ثقافت اور یہاں کے کھانوں کے ذائقے سے مستفید ہونے کے لیے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ائیر پورٹ پہنچنے پر ان کی اسکریننگ کی گئی اور کووڈ-19 کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے کووڈ-19 نگیٹو پائے جانے کے بعد ہی انہیں ائیر پورٹ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے احمد نگر پہنچنے کے بعد ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ کو مطلع بھی کیا تھا۔ 23 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد گاڑیوں کی آمدورفت رک گئی، ہوٹل اور لاج بند ہو گئے جس کی وجہ سے انہیں مسجد میں پناہ دی گئی تھی۔عدالت میں غیر ملکی شہریوں نے کہا کہ انہوں نے نہ تو ضلع مجسٹریٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں شامل ہوئے بلکہ وہ مرکز کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی سوشل ڈسٹنسنگ کے ضابطوں پر عمل کرتے رہے۔ تبلیغی جماعت کے ارکان کے مطابق ویزا فراہم کیے جانے کے دوران انہیں مقامی حکام کو مطلع کرنے کے لیے نہیں کہا گیا تھا اس کے باوجود وہ جہاں بھی جاتے مقامی حکام کو اطلاع دیتے۔ جبکہ ویزا شرائط میں مسجد جیسے مذہبی مقامات پر جانے کی کوئی پابندی بھی نہیں تھی۔ وہیں دوسری طرف عرضی گزاروں کے حلف نامے کے جواب میں احمد نگر کے ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ عرضی گزار بیرونی شہری ان جگہوں پر اسلام کی تبلیغ کرنے کے لیے گئے تھے اس لیے ان کے خلاف جرم کا معاملہ درج کیا گیا۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ تین الگ الگ معاملوں میں پانچ غیر ملکی شہری کورونا کے مریض پائے گئے۔ کورنٹائن کی مدت ختم ہونے کے بعد ان تمام غیر ملکی شہریوں کو رسمی طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔بنچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’’قدرتی آفات یا وباکے بحران کے وقت سیاسی حکومتوں کو کسی بلی کے بکرے کی تلاش ہوتی ہے۔ حالات و واقعات میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ کووڈ19 وباء کے دوران تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بلی کے بکرے کے طور پر منتخب کیا گیا۔ ان کے خلاف کی جانے والی کارروائی، سی اے اے اور این آر سی کے خلاف کئے جانے والے مظاہروں کے پس منظر میں ہندوستانی مسلمانوں کو بالواسطہ طور پر دی جانے والی ایک وارننگ تھی.‘‘
بامبے ہائی کورٹ نے سنہری حروفوں میں لکھے جانے والے اپنے فیصلے میں پولیس کی جانب سے عائد کردہ تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’’مہاراشٹرا پولیس نے میکانکی عمل کیا‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت نے سیاسی مجبوریوں کے تحت کارروائی کی اور پولیس نے بھی نظم و ضبط لاگو کرنے کے لیے خود کو حاصل شدہ اختیارات کا استعمال کرنے کی جرأت نہیں دکھائی۔ بنچ نے میڈیا کے کردار کو غیر ذمہ دارانہ بتاتے ہوئے کہا ’’مرکز دلی کو آنے والے غیر ملکیوں کے خلاف پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں بہت بڑا اور غیر مہذب پروپیگنڈہ کر کے ایک ایسی تصویر بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہی تبلیغی جماعت کے غیر ملکی شہری کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ حکام کو توبہ کرنی چاہئے اور اس ایکشن سے جو نقصان ہو چکا ہے اس کی تلافی کرنی چاہئے.‘‘بنچ کے مطابق عدالت میں جس مواد پر بحث ہوئی ہے اس کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں یا غیر ملکی تبلیغیوں کے ذریعہ کوئی پریشانی یا مزاحمت نہیں کھڑی کی گئی بلکہ دوسروں کے ذریعہ ان کے خلاف پریشانی اور مزاحمت کا ماحول بنایا گیا اور حکومت مختلف ملکوں کا شہریوں کے ساتھ یا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ مختلف سلوک نہیں کر سکتی۔ہندوستان کے اتحاد اور اس کی سلامتی کے لئے سماجی اور مذہبی رواداری ایک عملی ضرورت ہے اور ہندوستان کے آئین کی رو سے اسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ غیر ملکی شہریوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ مذہبی مقامات کی زیارت نہیں کرسکتے یا وہ مذہبی سرگرمیوں اور عبادات میں شرکت نہیں کر سکتے۔آخر میں عدالت نے اپنے تبصرے میں سوال کیا کہ’’حکام کو ایسی ہدایات جاری کرنے کیلئے کس چیز نے اکسایا ہوگا؟ جنوری 2020 سے کچھ پہلے سے ملک میں مختلف مقامات پر مظاہرے ہوئے تھے۔ ان مظاہروں میں زیادہ تر شریک ہونے والے مسلمان تھے جس میں ان کا خیال تھا کہ شہریت کا ترمیمی قانون 2019 مسلمانوں کے معاملے میں شفاف نہیں ہے جس کے خلاف وہ مظاہرہ کر رہے تھے۔ ان مظاہروں کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تبلیغی جماعت کے خلاف ایکشن کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں میں خوف بٹھایا گیا۔ اس ایکشن کے ذریعے بالواسطہ طور پر ہندوستانی مسلمانوں کو ایک وارننگ دی گئی کہ کسی بھی چیز کے لیے مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن لیا جاسکتا ہے، اور یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ غیر ملکی مسلمانوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے خلاف بھی ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ جبکہ ایسا ایکشن ان غیر ملکیوں کے خلاف نہیں لیا گیا جو دوسرے مذاہب کے تھے؟‘‘
***