مرسلہ: سیف اللہ، کوٹہ، راجستھان
مغرب کی نماز ہو چکی ہے رسول اللہ ﷺ ابھی مسجد میں تشریف فرما ہیں کہ ایک شخص آپؐ کے پاس حاضر ہوتا ہے۔ پراگندہ خستہ حال چہرے پر زندگی کی سختیوں کے نقوش۔۔ عرض کرتا ہے ’’یا رسول اللہ میں مفلس اور مصیبت زدہ ہوں …..‘‘ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے مگر شاید اس کی زبان ساتھ نہیں دیتی ہے۔ مسجد میں پھیلی ہوئی خاموشی اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ حضور ﷺ چند لمحے اس کے سراپا کا جائزہ لیتے ہیں پھر ایک شخص سے فرماتے ہیں ’’ہمارے ہاں جاؤ اور اس مہمان کے لیے کھانا لے آؤ‘‘۔ وہ جاتا ہے اور خالی ہاتھ واپس آتا ہے اور زوجہ محترمہ کا پیغام دیتا ہے: ’’اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میرے پاس اس وقت پانی کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔ مسافر یہ پیغام سن کر دم بخود رہ جاتا ہے۔ وہ جس با برکت ہستی کے پاس اپنے افلاس کا رونا لے کر آیا ہے خود اس کے گھر کا حال یہ ہے! حضور ﷺ پیغام سن کر دوسری زوجہ مطہرہؓ کے پاس بھیجتے ہیں مگر وہاں سے بھی یہی جواب ملتا ہے یہاں تک کہ تمام ازواج مطہرات کے پاس سے یہی جواب ملتا ہے کہ ’’اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہمارے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ہے‘‘۔
نو وارد کی حالت دیدنی ہے۔ وہ بھوک اور فاقہ کشی سے بھاگ کر اس پاک ہستی کے دامن میں پناہ لینے آیا تھا جو تنگ دستوں اور محتاجوں کا ملجا و ماویٰ ہے۔ دونوں عالم کا سردار ہے۔ جس کے اشارے پر دنیا بھر کے خزانے قدموں پر ڈھیر ہو سکتے ہیں۔ ایسی مقدس اور عظیم ہستی کے ہاں بھی بس اللہ کا نام ہے! اسے اپنے گھر کا خیال آجاتا ہے وہاں اتنی احتیاج تو نہ تھی جب اس نے گھر چھوڑا تھا اس وقت بھی اس کے ہاں تین دن کی خوراک موجود تھی پھر ایک بکری بھی اس کے پاس تھی جس کا دودھ زیادہ نہ سہی، بچے کے لیے تو کافی ہو رہتا تھا۔ وہ تو اس خیال سے حاضر ہوا تھا کہ نبی کے آگے دامنِ احتیاج پھیلائے گا تو ان کے فیض وکرم سے کٹھن زندگی آسان ہو جائے گی۔ لیکن یہاں تو عالم ہی کچھ اور ہے۔ اسے اپنے وجود پر شرم آنے لگتی ہے اور ندامت کے قطروں سے اس کی پیشانی بھیگ جاتی ہے۔ اچانک اسے آقائے دو جہاں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ فرما رہے ہیں ’’آج کی رات اس شخص کی میزبانی کون کرے گا‘‘ ابو طلحہ انصاریؓ اٹھ کر عرض کرتے ہیں ’’اے اللہ کے رسولؐ میرا گھر حاضر ہے۔ پھر اس شخص کو ساتھ لے کر گھر آتے ہیں۔ بیوی ام سلیم سے پوچھتے ہیں ’’کھانے کو کچھ ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے ایک مہمان ساتھ آئے ہیں‘‘ نیک بخت بیوی کہتی ہیں ’’میرے پاس تو بچوں کے کھانے کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘ ابو طلحہ کہتے ہیں ’’بچوں کو کسی طرح سُلا دو اور کھانا دستر خوان پر چن کر چراغ گُل کردو ہم مہمان کے ساتھ بیٹھے یونہی دکھاوے کو منھ چلاتے رہیں گے اور وہ پیٹ بھر کر کھالے گا-‘‘
ام سلیمؓ ایسا ہی کرتی ہیں۔ اندھیرے میں مہمان یہی سمجھتا ہے کہ میزبان بھی شریک طعام ہے۔ مہمان کو کھانا کھلا کر سارا گھر فاقہ سے رہتا ہے۔ صبح ہوتی ہے تو ابو طلحہؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضورؐ انہیں دیکھ کر تبسم فرماتے ہیں اور کہتے ہیں تم دونوں میاں بیوی رات مہمان کے ساتھ جس سلوک سے پیش آئے ہو اللہ اس سے بہت خوش ہوا ہے۔ پھر حضورؐ آیت تلاوت فرماتے ہیں جو اس موقع پر نازل ہوئی ’’اور وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ خواہ خود محتاج کیوں نہ ہوں‘‘ (الحشر:٩)
اس طرح ابو طلحہؓ اور ان کے گھر والوں کے ایثار کی یہ داستان رہتی دنیا تک اللہ کے کلام میں ثبت ہو جاتی ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020