بے حجابی کا چلن : دجالی فتنہ کی زہر ناکیاں

سوئز ر لینڈمیں حجاب پر پابندی! مسلم دنیا مہر بہ لب کیوں ہے؟

ش م احمد، کشمیر

 

گزشتہ دنوں یہ منحوس خبر عالمی سرخیوں میں چھائی رہی کہ سوئٹزرلینڈ مسلم خواتین کے حجاب پر ممانعت عائد کرنے والے مغربی ممالک کی فہرست میں شامل ہوا۔ حجاب پر یہ پابندی دیارِ مغرب میں اسلامی شعائر، تشخص اور مسلمانوں کی مذہبی علامات کے خلاف نفرت و رقابت کی ایک تازہ کڑی ہے۔ سوئٹزرلینڈ سیاحت و تجارت میں چہار دانگ عالم مشہور ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کثیر ثقافتی ملک میں بیک جنبشِ قلم مسلم خواتین پر حجاب پہننا کس منطق کی رُو سے ممنوعہ ٹھہرتا ہے؟ اس سوال کا جواب بجز اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی شناخت اور مذہبی انفرادیت مغرب کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، اسے فرعونیوں اور ہندتو وادیوں کی طرح ’’خطرہ‘‘ لاحق ہے کہ کہیں مسلمانوں کی آبادی دیارِ مغرب میں بڑھنے سے عیسائیوں کا سیاسی تسلط ہوا میں تحلیل نہ ہو جائے۔ اسی تشویس میں غرق مغرب کا حکمران طبقہ اور نسلی تفوق کے خبط میں مبتلا گورے مسلم دشمنی کا اُدھار کھائے بیٹھے ہیں۔ اُنہیں تہذیبوں کے تصادم اور منافرت کا آتش نمرود بھڑکانے میں ذہنی حظ ملتا ہے حتیٰ کہ چند سال قبل نیوزی لینڈ کی مسجد میں نمازیوں پر قاتلانہ حملے جیسی دل دہلانے والی دہشت پسندی پر بھی اسے کوئی شرمندگی نہیں۔
قدرتی حُسن سے مالا مال سوئٹزرلینڈ میں پابندی حجاب کے سرکاری فرمان پر مسلم دنیا کے حکمراں نہ سہی مگر عام کلمہ گو سوئیس حکومت کی مسلم بیزار حرکت پر انگشت بدنداں ہیں۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ حجاب پر پابندی کا نامبارک سلسلہ یورپ میں مزید پھیلے گا۔ واضح رہے کہ چین سمیت کئی مغربی ملکوں میں مسلم حجاب اور مسلم اسکارف کو پہلے ہی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ فرانس، جرمنی، بلجیم، اٹلی، ہالینڈ، روس، لٹویا وہ ممالک ہیں جہاں مسلم حجاب پر پابندی عائد ہے۔
یہ امر محتاجِ تشریح نہیں کہ حجاب مسلم خواتین کی مذہبی شناخت کا اُسی طرح جزو لاینفک ہے جیسے عیسائی اور بودھ راہباؤں میں اُن کی مخصوص سر چادر یا اسکارف ان کے مذہبی لباس کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان راہباؤں پر نہ کسی کو کوئی ذہنی تحفظ ہے نہ دشمنی۔ اسلامی شریعت میں حجاب (قرآنی اصطلاح میں جلباب) کی تاکید آئی ہے۔ البتہ عرب وعجم میں تمام مسلم عورتیں باحجاب نہیں رہتیں بلکہ ان کا معتدبہ حصہ پردہ ترک کر کے بزبانِ حال اسے اپنے واسطے غیر ضروری کہتا رہا ہے۔ بایں ہمہ حجاب یا برقع پر چاہے مغرب میں حکومتی پابندی لاگو ہو یا مشرق میں ایسی قدغن۔ صاف لفظوں میں مذہبی تعصب، گروہی منافرت اور بھید بھاؤ کا اشارہ ہی مانی جا سکتی ہے۔ نئے حجاب مخالف قانون کی رُو سے سوئٹزرلینڈ میں عوامی مقامات پر مسلم خواتین کا بےحجاب ہونا اب لازم ہو گا۔ یاد رہے سوئیس حکام نے اس سلسلے میں ملک میں ریفرنڈم کرایا تھا، اُنچاس فی صد لوگوں نے حجاب کے حق میں جب کہ اکیاون فی صد عوام نے اس کی مخالفت میں ووٹ کیا۔ یوں مسلم حجاب مخالفین کے ایک معمولی فرق کے ساتھ ممنوعہ شئے قرار پائی۔ انسانی حقوق کی نمائندہ انجمنوں نے اس نئے قانون کو امتیازی اور سماج میں ایک طبقے کے حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ان کا پروٹسٹ محض رسمی چیز ہے۔
حیرت کا مقام ہے کہ جو مغرب جمہوریت کی دعویداری، حقوق انسانی کی علمبرداری، کتوں، بلیوں، پرند وچرند حتیٰ کہ آدم خور وحشی جانوروں تک کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کی وکالت میں پیش پیش رہتا ہے وہی مغرب اپنے اندر کا خناس باہر کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی دل آزاری کا سامان بھی کرتا جا رہا ہے اور وہ بھی نتائج وعواقب سے آنکھ بند کر کے۔ اس ضمن میں گزشتہ دو تین دہائیوں کی تاریخ ثبوت وشواہد کے ساتھ باور کراتی ہے کہ مغرب، خاص طور سے سقوط سوویت یونین کے ما بعد شد ومد سے اسلام دشمنی کا بیڑہ اُٹھا چکا ہے، کیونکہ اسے حرب وضرب کا اپنا دیرینہ دھندا چلانے کے لیے کسی نہ کسی ’’دشمن‘‘ کی ضرورت ہمیشہ پڑتی ہے۔ اشتراکی روس کے بکھراؤ کے بعد مغرب نے حالات کے نئے تناظر میں اب اسلام کو اپنا میدانِ جنگ بنایا ہے۔ اپنی یہ انوکھی جنگ جیت جانے کے لیے مغرب بیک وقت کثیر الجہت محاذوں پر ایک جنگی جنون کے ساتھ مسلم عقائد سے لے کر اُن کے افکار واقدار سے بر سر پیکار ہے۔ ان میں سے ایک محاذ مسلمانوں میں ارتداد کی زور دار لہریں چلانے کے لیے مخصوص ہے۔ دوسرا محاذ پیغمبر اسلام اور آپ کے صحابہ کی پاک سیرتیں مسخ کر کے پیش کرنے اور اسلامی تاریخ کی غیر حقیقی تصویر اُجاگر کرنے کا شغل اپنا چکا ہے۔ تیسرا محاذ اسلامی ہستیوں کے خلاف دریدہ دہنی کو رواج دینے اور مسلکی تفرقات کو ہوا دینے میں لگا ہوا ہے۔ چوتھا محاذ مسلم خواتین میں فیملی ازم کے بجائے فیمینزم کا زہر بھرنے پر مامور ہے۔ اور پانچواں محاذ جنگ وجدل کا بھیانک طوفان برپا کرنے کا پابند ہے۔ ان محاذوں کے گھٹیا اور مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مغرب کا اختراعی ذہن کیا کیا گل کھلاتا جارہا ہے اس کے زندہ ثبوت آئے دن ہمارے سامنے واشگاف ہوتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی کردار کشی کے لیے کذب وافترا کی میڈیائی زہر ناکیاں ہر کلمہ گو کو دہشت گرد اور انتہا پسند گرداننا، مسلم اقوام کو لڑانے کے لیے سازشیں رچانا، پہلے القاعدہ اور داعش جیسی مسلح تنظیموں کی تخلیق، حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنا، پھر اپنا مطلب نکلتے ہی اپنی ہی پیدا کردہ ان نا ہنجار اولادوں کو ناجائز ناجائز کہنے کی ڈرامے بازی کرنا، چور مچائے شور کے مصداق اس بات کا رونا رونا کہ القاعدہ نے یہ کیا داعش نے وہ کیا اسلام کی بے داغ تصویر کو دل آزار فلموں، دل چھلنی کرنے والے کارٹونوں، بے حیا ناولوں، فحش رسائل، جھوٹ پھیلانے والے اخبارات، قابلِ ملامت گمراہ کتابوں سے دنیا بھر میں مسلم اُمت کو خالی از ایمان رکھ چھوڑنے کا رقص نیم بسمل کرنا۔ ان ساری سیہ کاریوں کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہا ہے کہ جوں توں مسلمانوں کے بدن سے روحِ محمدؐ کھرچ کھرچ کر نکالی جائے تاکہ مسلمان ’’مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے‘‘ کی عملی تفسیر ہو کر رہ جائیں۔
درج بالا تمام فتنہ پرور محاذوں پر جس طرح اُنیسویں صدی کے برطانوی ہند میں ولیم میور جیسے مستشرقین سیرتِ اقدسؐ پر خامہ فرسائیاں کر کے اپنے ہی منہ پر کالک تھوپ گئے، اُسی طرح فی زمانہ سلمان رُشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے اخلاق باختہ لوگ ابلیسی محاذ کے کاسہ لیس کارندے بنے۔ رُشدی کے شیطانی ناول سے مغرب بڑی دیر تک اپنا اسلام بیزار ایجنڈے کا کام دھندا چلاتا رہا مگر منہ کا ذائقہ بدلنے یا اسلام دشمن طولِ داستان میں نئی رنگ آمیزی بھرنے کے لیے اسے پاکستان کی مختارن مائی کی من گھڑت کہانی ایجاد کرنا پڑی۔ جب یہ کہانی فلاپ شو ثابت ہوئی تو ملالہ یوسف زئی کی قصہ گوئیوں پر جھوٹ کی ملمع سازیاں کر کے اپنا کام نکالا۔ ملالہ پر نا معلوم مسلح افراد نے گولی چلانے کا ایک ناقابلِ معافی جرم کیا مگر اس کا ملبہ اسلام کے سر ڈالنے میں مغرب نے کوئی دیر نہ کی۔ ایک چھوٹی سی زخمی لڑکی سے ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی آڑ میں ملالہ کا دیارِ مغرب میں سرخ قالینوں پر کچھ اس طرح استقبال کرایا گیا جیسے افغانستان، عراق، شام، فلسطین، لیبیا، مصر، یمن،ل اور سوڈان میں دجال کے جنگی طیاروں سے کوئی ایک بھی ملالہ خاک وخون میں نہ رُلی ہو یا جیسے وہ جنگی طیارے ملالوں پر ٹنوں کے وزن سے بم نہیں بلکہ پھول برساتے رہے ہوں۔ مغرب میں ملالہ ملالہ کا شور وغوغا کرنے اور پاکستان کی اس ایک بیٹی کو نوبیل پرائز دلانے سے دجالی قوتوں کے ہاتھوں انسانیت کے خلاف وہ سنگین جرائم کبھی معاف نہیں ہو سکتے جن کا ارتکاب امریکہ کی سربراہی میں نیٹو کی افواج نے مسلم دنیا میں لاکھوں لوگوں کو تیغ کر کے جگہ جگہ کیا۔ ملالہ کی کہانی کو خوب خوب اُچھالتے ہوئے مغرب نے خود کو دودھ کا دُھلا تو دکھایا اور تعلیمِ نسواں، مساوات، انسانیت نوازی، جمہوریت پسندی کا خود کو دیوانہ بھی جتلایا مگر جس طرح برطانوی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے پرنس ہیری اور اس کی بیگم میگھن مارکل نے امریکہ میں ایک انٹرویو میں ملکہ برطانیہ اور شاہی خانوادے کا مکروہ چہرہ سر بازار لایا۔ اُسی طرح دنیا دیکھ چکی ہے کہ مسلم دنیا میں مغرب کا ’’اندرون چنگیر سے تاریک تر‘‘ ہے۔ مغرب کا تادیر ملالہ ملالہ چیخنا اس کا اپنے اصل شیطانی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کا لغو کام تھا اور بس۔مغرب ملالہ اسٹوری پر سو گز زبان دراز کر کے اسی آڑ میں اصلاً اسلام کو تعلیم و ترقی کا دشمن، عدم مساوات کاحامی اور خواتین کے تئیں ظالم بتلاتا رہا۔ سچ یہ ہے کہ اپنے اسلام دشمن محاذ کی گہما گہمی کے لیے مغرب کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا تازہ کر نا پڑتا ہے۔ اس لیے ایک موقع پر اس کا قرعہ فال ڈنمارک کے بد بختانہ کارٹونوں پر پڑا۔ مغرب کے جیالوں نے بے شرمی کی حدیں پھلانگیں اور آزادی اظہار کے نام پر قابلِ اعتراض کارٹونوں اور اشتعال انگیز خاکوں کی وسیع پیمانے پر تشہیر کروا کے مسلمانوں کی دل پر چھریاں چلا دیں۔ باوجودیکہ پوری مسلم دنیا میں ڈنمارک کے خلاف غم وغصہ کا پارہ برابر چڑھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ان اشتعال انگیز گستاخیوں کے بارے میں ستمبر ۲۰۱۹ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دیارِ مغرب کے سودا گروں کے منھ پر کھری کھری سنائی کہ پیغمبر اسلام کی شان گرامی میں کسی بھی طرح کی گستاخانہ حرکت مسلم دنیا کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتی۔ ترکی کے صدر طیب اردگان بارہا مغرب کی ان اوچھی حرکات اور اسرائیلی جارحیت پر علانیہ طور اپنا اظہار برہمی کر تے رہے۔ انڈونیشا کے سابق صدر مہاتیر محمد بھی ان احمقانہ حرکات پر بر افروختہ ہوتے رہے مگر مغرب کے ڈھیٹ عناصر برابر اپنے مسلم بیزار ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ فرانس کے صدر میکرون نے حال ہی با ضابطہ طور مسلم بیزار متعصبانہ قانون اسٹیٹ پالیسی کے طور منظور کرایا۔ نیا قانون مسلم کمیونٹی کے حقوق اور ان کی مذہبی شناخت کی دھجیاں بکھیر کر انہیں بیک قلم دوسرے درجے کا شہری بنا دیتا ہے، جیسے ہٹلر کے جرمنی میں یہودی آبادی ہوا کرتی تھی۔ یہ صدر میکرون کی پرلے درجے کی مسلم دشمنی کا کھلا اشتہار ہے۔ حکومت پاکستان اور ترکی کی حکومت نے اس کے خلاف تیکھا رد عمل دیا مگر عرب دنیا، نام نہاد مسلم حکومتوں اور جمہوریت نوازوں نے اس متنازعہ قانون کے بارے میں اُف تک نہ کی۔ بہر حال مغرب صلیبی جنگوں سے لے کر آج تک متواتر مسلم اُمت میں تذبذب، بے چینی، تشکیک، دہریت، الحاد اور ارتداد کی تحریکیں چلاتا رہا ہے۔ مرزائیت، بہایت، غلام جیلانی برق اور غلام احمد پرویز جیسی فتنہ انگیز مہم بازیوں کے ڈانڈے مغرب کے انہی طوفانوں سے ملتے رہے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف مغرب کے یکطرفہ جنگ کا حال یہ ہے کہ وقت کا دجالِ اعظم مختلف بہانوں سے آباد وشاداب مسلم ملکوں کو تاراج کرتا جا رہا ہے، ان کے وسائل کو لوٹتا جا رہا ہے، ان کے انسانی حقوق کو علی الاعلان روندتا چلاجا رہا ہے، ان کو آپس میں لڑانے کے لیے نئے نئے فتنے جگاتا جا رہا ہے، ان کے مذہبی اور قومی اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی غرض سے گھناؤنے کھیل کھیلتا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے یمن اور سعودی جنگ میں آلِ سعود کی طرف داری کی تو جو بائیڈن حوثی قبائل کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ غرض دونوں صدور کا منشا ایک ہی ہے کہ مسلمان آپس میں کٹ مریں اور مغرب کی اسلحہ ساز کمپنیاں خونِ مسلم پر عیاشیوں کے محلات تعمیر کرتے رہیں۔ آج کی تاریخ میں یہی مغرب ہے جس کا کسی کے لباس کے انتخاب سے یا کسی کی بے لباسی سے کوئی لینا دینا نہیں جو لباس کی تراش خراش کو ہر کس وناکس کی ذاتی پسند و نا پسندکا صوابدیدی اختیار مانتا ہے مگر جب مسلمانوں کی بات آتی ہے تو یہی مغرب مسلمانوں کے رہن سہن، ان کے معابد و مساجد، ان کی بودوباش حتیٰ کہ ان کے پارچہ جات، ان کے اسکارف اور حجاب پر بلاوجہ اعتراضات جتاتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں حجاب پر عائد شدہ پابندی اسی دجالی دوہرے معیار کا منھ بولتا نمونہ ہے۔ افسوس کہ زیادہ تر مسلم حکمران اسی مغرب کو اپنا خدا ور کعبۂ مقصود بنا چکے ہیں تاکہ اقتدار کی کرسی سے تا حیات چمٹے رہیں۔

اسلام کے خلاف جنگ جیت جانے کے لیے مغرب بیک وقت کئی محاذوں پر مسلم عقائد اور افکار واقدار سے برسر پیکار ہے۔ان میں سے ایک محاذ مسلمانوں میں ارتداد کی زور دار لہریں چلانے کے لیے مخصوص ہے۔ دوسرا محاذ پیغمبر اسلام اور آپ کے صحابہ کی پاک سیرتیں مسخ کر کے پیش کرنے اور اسلامی تاریخ کی غیر حقیقی تصویر اُجاگر کرنے کا شغل اپنا چکا ہے۔ تیسرا محاذ اسلامی ہستیوں کے خلاف دریدہ دہنی کو رواج دینے اور مسلکی تفرقات کو ہوا دینے میں لگا ہوا ہے۔ چوتھا محاذ مسلم خواتین میں فیملی ازم کے بجائے فیمینزم کا زہر بھرنے پر مامور ہے۔ اور پانچواں محاذ جنگ وجدل کا بھیانک طوفان برپا کرنے کا پابند ہے۔ ان محاذوں کے گھٹیا اور مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مغرب کا اختراعی ذہن کیا کیا گل کھلاتا جارہا ہے اس کے زندہ ثبوت آئے دن ہمارے سامنے واشگاف ہوتے رہتے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021