بیڈ بلاکنگ گھپلہ ۔بی جے پی ایم پی تیجسوی سوریہ کی گندی سوچ کا مظہر
حکومت کی ناکامیاں چھپانے مسلم نوجوانوں کا نام اچھالا گیا۔متحدہ کوششیں رنگ لائیں۔ برطرف کیے گئے تمام نوجوان ملازمت پر بحال
برماور سید احمد سالک ندوی
ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں کورونا وبا نے انتہائی بھیانک صورت اختیار کر لی ہے، تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگ دوریاں مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے انسانیت کے ناطے بھائی چارہ قائم کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں جس کی ماضی میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں، ملک میں مذہبی منافرت کے جنون کے دوران یہاں کے مسلمانوں کی طرف سے بلا لحاظ مذہب وملت انسانی خدمت نے بڑے اچھے اثرات مرتب کیے ہیں۔ لیکن انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے ماحول کو فرقہ پرستی پر یقین رکھنے والے برداشت نہیں کر پاتے اور وہ ایسے کسی بھی موقع کو ہندو-مسلم مسئلہ بنا کر ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ دنوں بی بی ایم پی یعنی بنگلورو بروہت مہا نگر پالیکا کی طرف سے کورونا متاثرین کی رہنمائی کے لیے قائم کیے گئے وار روم میں بنگلورو ساؤتھ کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریا نے جو ہنگامہ کھڑا کیا وہ اسی قسم کی گھٹیا ذہنیت کی کارستانی تھی۔ اس نے ایک دن اچانک وار روم میں داخل ہو کر وہاں کام کر رہے دو سو سے زائد لوگوں میں شامل 17 مسلمانوں کو محض ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے فوری طور پر کام سے برخواست کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرسٹل نامی ایجنسی نے ماہانہ 13 ہزار روپے تنخواہ پر ان نوجوانوں کو مقرر کیا تھا اور ان میں سے ایک نوجوان کو چھوڑ کر باقی کسی کو بھی کورونا مریضوں کے لیے بستر متعین کرنے والے شعبہ میں نہیں رکھا گیا تھا۔ اس کے باوجود اس نے ان نوجوانوں کے نام لے کر ایسا تاثر پیش کیا گویا کہ کورونا مریضوں کی مدد کی آڑ میں بیڈ بلاکنگ کا سارا گھپلا انہی 17 نوجوانوں نے انجام دیا ہے۔
ایم پی کا داؤ الٹا پڑ گیا
فرقہ پرستی کے جوش میں آ کر ہوش کھونے والے ایم پی تیجسوی سوریہ کا یہ داؤ بہت جلد انہی کے خلاف پڑ گیا۔ انہوں نے جس ہاؤ ہو کے ساتھ بی بی ایم پی کے بیڈ بلاکنگ دھندے کا پردہ فاش کرنے کا دعویٰ کیا تھا اس گھپلے میں ان کے ساتھ موجود بی جے پی کے رکن اسمبلی ہی کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔ کرناٹک کے اخبارات نے بی جے پی کے ایم ایل اے ستیش ریڈی کے ہی اس وار روم گھپلے میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔ ریاست کے معروف کنڑا روزنامہ کے صفحہ اول پر شائع شدہ پورٹ کے مطابق بنگلورو بومن ہلی کے رکن اسمبلی ستیش ریڈی (بی جے پی) وار روم کے ذریعے بیڈوں کی تقسیم کاری میں شفافیت برقرار رکھنے میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ ستیش ریڈی پرائیویٹ اسپتالوں میں آئی سی یو اور وینٹیلیٹر خالی ہوتے ہی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جانکاری لے کر الگ الگ ناموں سے ان بستروں کو ریزرو کراتے ہوئے اپنے چاہنے والوں میں تقسیم کرتے تھے۔ اسی بات پر بی بی ایم پی کے افسر اور وار روم عملہ اعتراض کرتا تھا، اس سلسلے میں ایک دو مرتبہ بحث وتکرار بھی ہوئی تھی۔ اعلیٰ ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق بومن ہلی بی بی ایم پی وار روم میں 80 فیصد بستر ایم ایل اے کے حمایتیوں کی جانب سے ریزرو کر کے غلط استعمال کیے جانے کا بھی پردہ فاش ہوا ہے۔
حالانکہ اس تعلق سے ایم ایل اے ستیش ریڈی نے صفائی دینے کی کوشش کی ہے کہ ’یہ محض الزام ہے‘۔
حقیقت واشگاف ہوئی
اس واقعہ کے بعد حکمراں طبقے کی حامی میڈیا نے خلافِ معمول اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر واقعہ سے جڑی کئی اہم باتوں کی طرف اشارہ کر کے اس معاملے کے اصل مجرموں کو سامنے لانے کا کام کیا۔ میڈیا کی حقیقت بیانی اور مقامی این جی اوز کے سامنے آجانے کے بعد اصل معاملہ سے پردہ ہٹ گیا۔ بنگلورو میں موجود بعض دانشوروں نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ ایم پی تیجسوی سوریا کی اس حرکت کا برادران وطن نے بھی سخت نوٹس لیا اور اسے گندی حرکت قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ہم بھارت کے لوگ، جن شکتی، دھارمک سوہاردا ویدیکے، اے پی سی آر، جیسی تنظیموں نے سامنے آ کر ایم پی کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایم پی کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
کرائم برانچ نے نوٹس لیا
بی جے پی ایم پی کے اس اقدام کے بعد کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف ماحول بنا دیا تو یہ معاملہ بہت سنگین رخ اختیار کرتا گیا۔ سنٹرل کرائم برانچ نے بیڈ بلاکنگ کے اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے کر جانچ شروع کی تو کئی نام سامنے آئے۔ سنٹرل کرائم برانچ سی سی بی پو لیس نے 2 ڈاکٹرس سمیت 4 افراد کو گرفتار کر کے ان سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ بی بی ایم پی کووِڈ وار روم کے نگران کار ڈاکٹر روہن سمیت 4 افراد کو گرفتار کر کے پولیس کے ان سے پوچھ تاچھ کرنے کی بھی اطلاع ملی ہے۔ سی سی بی پولیس کی خصوصی ٹیم نے مذکورہ 4 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی۔ ملز مین نے 3 بستروں کو دلانے کے لیے 1 لاکھ 70ہزار روپے کی رقم وصول کی تھی۔ اس بات کا پتہ لگنے کے بعد پولیس نے ملزمین کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔پوچھ تاچھ سے پتہ چلا ہے کہ اس معاملے میں گرفتار شدہ نیتراوتی اور روہت کے ساتھ دیگر افراد کا بھی رابطہ ہے۔ پولیس انہیں بھی اپنی گرفت میں لینے کے لیے کارروائی کر رہی ہے۔ اس سے ہٹ کر بنگلورو سنٹرل ڈیویژن کی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 3 ملزموں وینکٹ سبا راؤ، منجوناتھ اور پنیت کو گرفتار کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ لکشمی دیوما نامی ایک خاتون کے علاج کے لیے ایم ایس رامیا اسپتال میں بستر مہیا کروانے کا لکشمی دیوما کے بیٹے لکشمیا سے وعدہ کیا اور اس کے لیے 1 لاکھ 20 ہزار روپے لیے گئے۔ لکشمیا نے 70ہزار روپے نقد اور 50ہزار روپے گوگل پے کے ذریعے ادا کیے۔ اس کے بعد لکشمی دیوما کو ایم ایس رامیا اسپتال میں بستر تو مل گیا لیکن چند ہی گھنٹوں میں ان کی موت ہو گئی۔
سیاسی جماعتیں بھی محاذ آرا
بیڈ بلاکنگ گھپلے کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی تیجسوی سوریہ کی حرکت کی تمام حلقوں کی جانب سے پر زور مذمت کی گئی۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ کام خدمت میں لگے بے لوث رضاکاروں کا حوصلہ توڑنے کی کوشش ہے، کانگریس نے ایم پی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف اراکین راجیہ سبھا ڈاکٹر ناصرحسین، ڈاکٹر ایل ہنومنتپا اور اے آئی سی سی کے ترجمان برجیش کالپا نے ایک مشترکہ اخباری کانفرنس میں تیجسوی سوریہ کی سخت مذمت کی۔ ناصر حسین نے کہا کہ کورونا کی دوسری لہر کے لیے حکومت نے قبل از وقت کوئی ایکشن پلان ہی تیار نہیں کیا ہے۔
سابق ریاستی وزیر اور چامراج پیٹ کے رکن اسمبلی ضمیر احمد خان نے کہا کہ بیڈ بلاکنگ گھپلا بے نقاب کرنے کی آڑ میں بی بی ایم پی کے مسلم ملازمین کا نام لے کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔
رکن اسمبلی ضمیر احمد خان کی انوکھی پہل
اپنے حلقہ میں ایک 32 بستروں پر مشتمل کووڈ کیر سنٹر کا افتتاح کرنے کے بعد ان نوجوانوں کی موجودگی میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رکن اسمبلی ضمیر احمد خان نے کہا کہ اب ان تمام نوجوانوں کو اگلے چار ماہ تک وہ اپنے حلقہ میں کووڈ متاثرین کی مدد کے لیے متعین کر لیں گے اور ان کی تنخواہ وہ اپنی طرف سے ادا کریں گے۔ ضمیر احمد خان نے کہا کہ اگر بی جے پی اور اس کے لیڈروں کو مسلمانوں سے اتنی ہی نفرت ہے تو وہ مسلم ممالک سے آنے والی امداد لینے سے انکار کیوں نہیں کرتے۔
تمام نوجوان ملازمت پر بحال
رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ کے دھاوے کے بعد کام پر آنے سے روک دیے گئے تمام نوجوانوں کو ہفتہ کے روز ملازمت پر بحال کر لیا گیا۔ سیاسی وملی قائدین کی طرف سے اس معاملے میں پہل کیے جانے اور بیڈ بلاکنگ میں دوسرے ناموں کے سامنے آنے کے بعد اس معاملہ میں بی بی ایم پی نے ان تمام نوجوانوں کو واپس ملازمت پر رکھ لیا ہے۔ ملازمت پر بحالی کے لیے کوشش کرنے والے تمام قائدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نوجوانوں نے یقین دلایا ہے کہ اس مقام سے وہ کورونا متاثرین کی بلا تفریق مذہب وملت خدمت انجام دیتے رہیں گے۔
اور نفرت کا زہر کام کر گیا
تیجسوی سوریہ کی اس گھناؤنی حرکت کے بعد شہر کی مختلف کمپنیوں میں کام کرنے والے مسلم ملازمین کو شبہ کی نظر سے دیکھنے کا سلسلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور مسلم نوجوانوں کو ہراساں کرنے کے معاملہ میں بنگلورو پولیس بھی پیچھے نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لاک ڈاؤن میں پولیس کی طرف سے مسلم ڈرائیور کی گاڑیوں کو روک کر بلا وجہ ہراساں کیا جا رہا ہے۔ پولیس کے اس طرح کے رویہ کا ثبوت دودھ کی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک ملازم کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ میں صاف نظر آیا جہاں پولیس جوانوں نے دودھ کی کمپنی کے ڈیلیوری بوائے کو روکا اور پھر اس کی گاڑی ضبط کی اور اسے تھانے لے جایا گیا جہاں سب انسپکٹر نے اس کے ساتھ نسلی امتیاز کا سلوک کیا۔
فرقہ پرستی کے وائرس کا ویکسین کہاں ملے گا؟
مختلف جانب سے کہا جا رہا ہے کہ بیڈ بلیک میلنگ کے حوالہ سے چند لوگوں کے نام لے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام اگر ہوا ہے تو اس کی ذمہ دار ریاستی حکومت ہے۔ بی بی ایم پی حکومت کے ماتحت کام کر رہا ہے تو تیجسوی کو ریاستی حکومت سے سوال کرنا چاہیے نہ کہ وہاں کام کر رہے اہلکاروں سے؟ اس واقعہ کے بعد لوگوں کا کہنا ہے کہ تیجسوی سوریہ جیسے فرقہ پرست سیاست دانوں کے دماغوں سے کمیونل وائرس ختم کرنے کے لیے ویکسین تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی افراتفری میں بھی تیجسوی نے آکسیجن اور وینٹیلیٹرس کی قلت کا معاملہ نہیں اٹھایا بلکہ سستی شہرت کی خاطر معمولی تنخواہوں پر کام کر رہے مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا۔اسی کے پیش نظر بنگلورو کے ایک سوشیل ورکر نے تیجیسوی سوریا کے خلاف جرمانہ مقدمہ چلانے کی اجازت مانگی ہے ۔
کیا ایم نے معافی مانگی ہے ؟
اس معاملہ میں ہر طرف سے آواز اٹھائے جانے کے بعد ایم پی کی طرف سے معافی مانگنے کی خبریں بھی سامنے آئیں لیکن فورا ہی اس کو ’فیک نیوز‘ بتا کر معاملہ ہلکا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ انڈین ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق نے ایم پی نے دو روز بعد میڈیا اور تمام ذرائع ابلاغ سے چھپ کر وار روم کے اہلکاروں سے معافی مانگی ۔ لیکن اس پورے معاملے کو ایم پی کی ہتک سمجھ کر بعض ذرائع نے فیک نیوز بتاکر ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کی کوشش کی ۔
معاملہ ٹھنڈا ہوا اور ایم پی بن باس پر چلے گئے؟
اس واقعہ میں ہر طرف سے ایم پی کے رول کی مذمت کے بعد ایم پی نے اپنا فون سوئچ آف کر دیا۔ ریاست کرناٹک کی بعض با اثر شخصیات نے اس معاملہ میں ان سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ کل ملا کر ایسے حالات میں فرقہ پرستی کا راگ الاپنا اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے یا اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسی ذلیل حرکت کرنا کسی بھی با شعور سماج کے لیے سِم قاتل ہے یہ کام اگر حکمراں طبقہ کے نمائندوں نے انجام دیا ہے تو برسر اقتدار طاقتوں کو عوام کے تئیں اپنی نیتوں کو ٹٹولنا بہت ضروری ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 16 مئی تا 22 مئی 2021