بیوٹی پارلرس کا بڑھتا ہوا رجحان،غور و فکر کا مقام

حسن صورت چند روز حسن سیرت مستقل

حافظ محمد ہاشم قادری

اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں انسان اور اِیمان والا بنایا۔ انسان اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے اِس بات پر کہ اس نے انسانوں کو اپنی مخلوق میں سب سے اعلیٰ درجہ عنایت فرمایا اور یہ بھی اعلان فرمایا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ بے شک ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا۔(والتین:4)
اللہ تعالیٰ نے انجیر، زیتون، طور سینا اور شہر مکہ کی قسم کھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ ہم نے آدمی کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا، اس کے اعضاء میں مناسبت رکھی، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے لے کر کھانے والا بنایا اور اسے علم، فہم، عقل، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے نوازا ہے۔ یہی عظیم نعمت وعظمت انسانوں کو تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ لیکن بہترین شکل و صورت والا انسان آج کیوں اپنے بناؤ سنگار میں لگا ہوا ہے اور لیپا پوتی کے وہ طریقے استعمال کر رہا ہے یا کر رہی ہے جو نہ تو خوبصورتی کے محفوظ طریقے ہیں اور نہ ہی سستے ہیں بلکہ بہت زیادہ خرچیلے اور نقصان دہ ہیں؟ بازاروں میں ملنے والے میک اپ کے سامان اکثر نقصان پہنچاتے ہیں۔ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ رواں سال میں دنیا کی مشہور اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کریم ’’فیئر اینڈ لولی‘‘ جو دنیا میں گورے پن کو بڑھاوا دینے کا دعویٰ کرتی ہے اس کے خلاف امریکہ میں کئی ہزار کیس بُک ہوئے ہیں، جس کی شروعات تین پاکستانی سہیلیوں حرا ہاشمی، انجم چندانی اور ماروی احمد نے کی ہے اور خواتین کی کئی انجمنوں نے اسی سال9 جون 2020ء کو آن لائن عرضی (petition) دائر کی ہے جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ فیر اینڈ لولی اور گورے پن کو بڑھاوا دینے والی دوسری مصنوعات اور اس کی تشہیر پر فوری طور پر پابندی عائد کی جائے۔ ہیوسٹن امریکہ میں مقیم انعم چندانی کہتی ہیں کہ امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت اور اس کے نتیجے میں چلنے والی تحریک ’’سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہم ہیں‘‘ (Black lives matter) کے بعد سے وہ اور ان کی سہیلیاں کافی پریشان تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’مجھے محسوس ہوا کہ ہمیں گروہ کے طور پر اپنے معاشرتی رویوں میں سفید رنگت کو برتر سمجھنے کے خیال پر غور کرنا ہوگا اور اس غور و فکر کے دوران مجھے یہ احساس ہوا کہ سفید رنگت کی برتری کو بڑھاوا دینے میں گوری کرنے والی کریم خاص کر فیر اینڈ لولی کا بہت بڑا دخل ہے اور یہ جلد کے لیے بھی بہت نقصان دہ ہوتی ہے‘‘
انعم، حرا اور ماروی نے اس پٹیشن کی حمایت کے حصول کے لیے دن رات کوشش کی اور 15 دنوں میں 94 ملکوں کے 13 ہزار افراد نے اس پیٹیشن کی حمایت کی جس میں شوبز سے تعلق رکھنے والے اور دوسری کئی نامور شخصیات شامل ہیں۔ اس پٹیشن کی دنیا کے کئی نامور جریدوں نے بھی حمایت کی اور دو ہفتے میں ہی یونی لیور (Unilever) کا اعلان سامنے آگیا۔ کمپنی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ جلد کی حفاظت سے متعلق تمام مصنوعات کے اشتہارات اور پیکجنگ میں تبدیلی کا عمل پہلے ہی شروع کیا جا چکا ہے اور اب کریم سے گورے پن سے جڑے دوسرے کئی لفظوں کا استعمال بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لفظ ’فیر‘ (گورے) کے بغیر فیر اینڈ لولی کا نیا نام طے کیا جا رہا ہے۔ اور یہی نہیں کمپنی نے اپنی تمام مصنوعات سے لفظ گورے پن کے تمام الفاظ کو ہٹانے کا فیصلہ لیا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں سے جو بیماریاں ’’فیشن‘‘ کے نام پر ہمارے یہاں آئی ہیں ان کو ہم نے آنکھ بند کرکے قبول کرلیا اُن کے مضر اثرات اور نقصانات پر کبھی بھی غور نہیں کیا اور نہ سوچا۔ آج بازاروں میں طرح طرح کی کریم، پاؤڈر وغیرہ کی بھر مار ہے نئی نسل ان کی دیوانی ہے، ان کے زیلے اثرات (Side Effects) بھی بہت زیادہ ہیں جن کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔
جب اللہ رب العزت نے انسان کو نہایت خوبصورت بنایا ہے تو بیوٹی سیلون مزید کیا خوبصورت بنائے گی؟ جب اللہ نے انسانوں کو عزت و شرف بخشا تو کوئی خوبصورت یا دولت مند ہونے کی بنیاد پر کیوں کر اعلیٰ و برتر ہو سکتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: اور بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔(بنی اسرائیل:70) اللہ تعالٰی کی جانب سے انسان کی یہ تکریم کہ انسان کو سب سے بہترین ’’صورت میں‘‘ پیدا فر مایا، انسانوں کو عقل، علم، قوتِ گویائی وغیرہ وغیرہ سے نوازا۔ قرآن مجید میں متعدد جگہ انسانی خوبصورتی اور دی ہوئی نعمتوں کا ذکر صراحت سے موجود ہے۔ سورہ اِنفطار آیت8-7 اور سورہ تغابن آیت3 میں بھی انسانی خوبصورتی کا تذکرہ فرمایا گیا: ’’اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے دوران عرفات کے میدان میں انسانی حقوق کے تعلق سے فرمایا :’’ اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارے باپ آدم بھی ایک ہیں کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں، کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت کا میعار صرف تقویٰ ہے۔ جب قر آن و احادیث سے واضح ہو گیا کہ گورا ہونا کوئی عزت کی علامت اور فخر کی وجہ نہیں ہے۔ یہ سوچ سراسر جاہلیت پر مبنی ہے کہ کوئی گورا ہے تو عزت والا ہے یا کوئی کالا ہے تو اس کی کوئی عزت نہیں۔
لیڈیز بیوٹی سیلون کے چلن کا عام ہونا، بے حیائی بے شرمی کا عام ہونا ہے۔ پچیس تیس سال پہلے 1995 میں ہندوستان کے بڑے شہروں میں لیڈیز بیوٹی پارلروں کا چلن بڑھا۔ پہلے کہیں کہیں اکا دُکا دکھائی پڑتے تھے۔ پھر مختلف ناموں سے مشروموں کی طرح ان کی اپج ہونے لگی۔ ہربل جڑی بوٹیوں کے نام پر عورتوں کے چہروں پر میک اپ (لیپا پوتی) کرنے اور منھ مانگے دام وصول کرنے کا دھندا شروع ہو گیا۔ دولت مند لوگوں نے اسے اپنا اسٹیٹس بنالیا، حرام کی کمائی والوں نے بھی اسے خوب بڑھاوا دیا اور پھر یہ 2010 کے بعد سے یہ ہر محلے میں پھیل گیا اور اب حال یہ ہے کہ جگہ جگہ پارلرس کھلے ہوئے ہیں۔ امیر تو امیر غریب بھی اس لیپا پوتی کے بغیر جی نہیں پا رہا ہے۔ حد تو یہ ہوئی کہ جو چندہ کر کے بچی کی شادی کر رہا ہے وہ بھی بستی کی نو سیکھیا بیوٹیشن کو تین سے چار ہزار روپے دے کر لیپا پوتی کروا رہا ہے۔ قاضی سے نکاح پڑھاتے وقت بچی کے غریب ہونے کا رونا رویا جاتا ہے، گاڑی سجانے میں کم ازکم دو ہزار سے تین ہزار روپے، دلہن کا میک اپ کرانے میں کم سے کم تین ہزار روپے خرچ کرنے والے وہاں غریبی کا رونا نہیں روتے۔کلیجہ پھٹتا ہے تو صرف نکاح پڑھانے والے امام یا قاضی کو نذرانہ دینے میں؟
مسلم محلوں میں بیوٹی سیلون؟ رمضان المبارک کا مہینہ ہے افطار سے آدھا گھنٹہ پہلے بیوٹی پارلر بند کر کے گھر جاتے ہوئے لڑکی بولتی ہے روزہ افطار کرنے کا وقت ہو رہا ہے، میں روزے سے ہوں گھر افطار کرنے جا رہی ہوں کل آنا۔ بیوٹی سیلون میں آنے والی لڑکی بولتی ہے پلیز، پلیز۔۔آئی بروز (بھنویں) بنادو پھر آنا مشکل ہوگا۔ آنے والی بچی نقاب میں، بیوٹیشین بغیر نقاب اور انتہائی معیوب وبے شرمی کے لباس میں لیکن الحمدللہ ایمان کی رمق ابھی باقی ہے، روزے سے ہے اور افطار میں عجلت کی فکر ہے۔ دوسری طرف پردہ کرنے والی لڑکی ہے لیکن افطار کے وقت کی پروا کیے بغیر ایک فعلِ قبیح کروانے پر مصر ہے۔ یہ بات ایک واسطے سے مجھ تک پہنچی ہے۔ نہ جانے اس طرح کی کتنی باتیں ہمارے معاشرے میں ہوتی ہیں اور کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ تمام چیزیں جو روح شریعت سے متصادم ہیں اور جو چھوٹے بگاڑ سے بڑے بگاڑ کی طرف لے جاتی ہیں وہ سب منکرات ہی کی تعریف میں آتی ہیں۔ ہمارے مصلحین اور دین کی تڑپ رکھنے والوں کو اس پہلو سے بھی اصلاح حال کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ فرمان الٰہی ہے: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور اچھی بات کا حکم دے اور بری بات سے منع کرے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (آل عِمْران:104) اور رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی پیش نظر رہے فرمایا: مومن اپنے بھائی کا آئینہ ہے، جب وہ اس میں کوئی برائی دیکھتا ہے تو اس برائی کی اصلاح کرلیتا ہے۔(بخاری شریف) ان ہی ارشادات کے مد نظر احقر نے اس لڑکی کے ساتھ خیر خواہی کا فیصلہ کیا اور مذکورہ واقعہ کے تیسرے دن روزہ کھولنے سے ٹھیک پون گھنٹہ پہلے بیوٹی پارلر کے قریب 300 میٹر دور جا کھڑا ہوا، بچی نکلی اور دوکان بند کرنے لگی، پھر میں نے قریب پہنچ کر کہا ’ بیٹی پلیز صرف پانچ منٹ آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں‘ جی بولیے، لڑکی سننے کے لیے تیار تھی۔ میں نے کہا ’بیٹی آپ مسلمان ہو روزہ سے ہو‘ جی انکل! ہم روزے سے ہیں۔ میں نے کہا الحمد للہ! آپ کا ایمان ابھی سلامت ہے، بیٹی! پلیز پلیز خدا کے واسطے آپ ایسا لباس نہ پہنیں آپ مسلمان ہیں آپ کے اندر ابھی ایمان کی رمق موجود ہے‘‘ اُس نے کہا ’’انکل میں اپنی آپ بیتی آپ کو کیا بتاؤں‘‘ میں نے کہا ’’نہیں سننی آپ کی آپ بیتی صرف میری اس گزارش پر آپ عمل کرو‘‘ مجھے اس نے اپنا موبائل نمبر دیا اور کہا میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کل سے اپنا لباس بدل دوں گی لیکن آپ میری ’’آپ بیتی‘‘ فون پر ضرور سنیں۔ گھر جا کر اہلیہ سے اس کی بات کرائی، استغفراللہ، الامان والحفیظ اس نے جو کچھ بتایا وہ نا قابل بیان ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ صرف میری ہی کہانی نہیں ہے بلکہ زیادہ تر بیوٹی سیلون، پارلروں میں کام کرنے والی لڑکیوں کی یہی کہانی ہے۔ گھروں میں بیوٹی پارلروں کا قیام بھلے آپ کو چند روپے جمع کرنے کا موقع دیتے ہوں لیکن پیسہ کمانا ہی کمال نہیں ہے انسانیت، ایمان اور عزت بہت بڑی چیز ہے۔ مسلم محلوں میں بیوٹی پارلروں، لیڈیز سیلون کے کھلنے سے مسلم بچیوں کے اخلاق و کردار پر بہت خراب اثر پڑ رہا ہے۔ اچھی بھلی خوبصورت، قبول صورت بچیاں بازاری کاسمیٹک کریموں اور ہربل نام کی کریموں کی لیپا پوتی سے اپنے قدرتی حسین چہروں کو خراب کروا رہی ہیں پھر کچھ ہی دنوں بعد ان کے چہرے لٹک جاتے ہیں، بدنما ہو جاتے ہیں اور پھر بیوٹی پارلر گئے بغیر کسی پارٹی میں جانے کے لائق نہیں رہتے اوپر سے خرچ الگ بڑھ جاتا ہے۔ فیشن کے نام پر مسلمانوں میں بڑھتی بے حیائی: بڑھتی ہوئی بے شرمی، بےدینی اور سماجی برائیاں ۔۔۔ خدارا، توجہ فرمائیں ورنہ اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچ پائے گا، رب العالمین نے مسلمانوں کے لیے ہی یہ حکم دیا ہے۔ ترجمہ: ائے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت گیر (طاقتور) فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔(التحریم:6) اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاص طور پر اپنے عزیزوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔ یاد رکھیے! آپ اپنے آس پاس کی برائیوں پر آنکھ بند کرکے دنیا میں تو رہ سکتے ہیں لیکن بعد مرنے کے احکم الحاکمین کے سامنے کوئی جواب بن نہیں پڑے گا۔سوچیے اور ضرور سوچیے اور معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر کچھ نہ کچھ کیجیے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(مضمون نگار مسجد ہاجرہ رضویہ، جمشید پور کے امام و خطیب ہیں)


بہترین شکل و صورت والے آج کیوں اپنے بناؤ سنگار میں لگے ہوئے ہیں اور لیپا پوتی کے وہ طریقے استعمال کر رہے ہیں جو نہ تو خوبصورتی کے محفوظ طریقے ہیں اور نہ ہی سستے ہیں بلکہ بہت زیادہ خرچیلے اور نقصان دہ ہیں؟ بازاروں میں ملنے والے میک اپ کے سامان اکثر نقصان پہنچاتے ہیں۔