بینکوں کی نجکاری ‘غلط سمت میں ایک اورقدم

قانون میں ترمیم کے ذریعہ۲۵ فیصد سرکاری حصہ داری فروخت کرنے کا منصوبہ

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

صنعتوں کوبینک قائم کرنے کا اختیار۔ اصلاحات کے ذریعہ کارپوریٹ لوٹ کو چھوٹ!
اس سال حکومت بینکنگ شعبہ میں اصلاحات لانے جارہی ہے، حکومت کے ایجنڈے میں عوامی شعبہ (پبلک سیکٹر) کے بینکوں کی نجکاری کا منصوبہ تیار ہوچکا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے بعد اس منصوبہ پر عمل درآمد بھی شروع کردے۔ حکومت پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں بینکنگ اصلاحات کا ترمیمی بل پیش کرچکی ہے، اس کے ذریعہ مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ عوامی شعبوں کے بینکوں کو خانگی بنا دیا جائے۔ ’’بینکنگ خدمات ترمیمی قانون ۲۰۲۱‘‘ ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت بینکنگ شعبہ میں دو تبدیلیاں لانے جارہی ہے۔ پہلی تبدیلی یہ ہے کہ عوامی شعبے کے بینکوں میں حکومت کی موجودہ ۵۱ فیصد حصہ داری میں کمی کرتے ہوئے یہ حصہ داری خانگی شعبے کو فروخت کردی جائے گی، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عوامی شعبے کے بینکوں پر حکومت کے مالکانہ حقوق باقی نہیں رہیں گے ۔ اصول یہ ہے کہ جس کسی کے پاس ۵۰ فیصد سے زیادہ حصہ داری ہوتی ہے وہی اس کا مالک بھی ہوتا ہے یا اسی کے پاس انتظامی امور کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ چونکہ ابھی تک ان بینکوں میں حکومت کی حصہ داری ۵۱ فیصد تھی تو مالک بھی وہی تھی لیکن اب وہ اپنا حصہ بیچ رہی ہے تو اس کے مالکانہ حقوق بھی ختم ہوجائیں گے اور وہ حقوق خانگی ادارے کو منتقل ہوجائیں گے۔ اس ایکٹ میں ترمیم کے ذریعہ مرکزی حکومت اپنی ۲۵ فیصد سے بھی زیادہ حصہ داری کو فروخت کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، اس ترمیم کے بعد سوائے ایس بی آئی کے عوامی شعبہ کے سارے بینک نجی ہو جائیں گے۔ دوسری تبدیلی آر بی آئی کے ذریعہ لائی جارہی ہے۔ تبدیلی یہ ہے کہ اب صنعتوں کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ اپنے طور پر بینک قائم کریں۔ یہ تبدیلی سب سے خطرناک نظر آرہی ہے۔ کیوں کہ اگر کسی صنعتی ادارے کا اپنا بینک ہو گا تو وہ اپنے تحت کام کرنے والے مختلف اداروں کو ہی قرض دے گا دوسروں کو نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو ادارہ جتنا مضبوط ہوگا اس کے پاس اتنا ہی پیسہ مرکوز ہوتا جائے گا، اس کے علاوہ عوامی پیسہ کا تحفظ بھی خطرے میں پڑ جانے کا قوی امکان ہے۔
اس طرح کا قانون تو امریکا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں بھی نہیں ہے جہاں معیشت کا دارومدار صنعتوں پر ہے، بلکہ اب تک ہمارے ملک میں بھی اس طرح کا کوئی قانون نہیں تھا، کوئی صنعتی ادارہ بینک قائم نہیں کرسکتا تھا، لیکن اب اس قانون میں ترمیم کے بعد اس کا راستہ بھی صاف کردیا جارہا ہے تاکہ صنعتی ادارے بھی اپنے اپنے بینک قائم کرسکیں۔ مستقبل قریب میں ہمیں امبانی بینک آف انڈیا، اڈانی بینک کا آف انڈیا، ٹاٹا بینک آف انڈیا یا مہندرا بینک آف انڈیا جیسے نام سننے کو مل سکتے ہیں ۔آج کل ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ یہ کہاوت اب یہاں بھی صادق ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ آخر ان عوامی شعبہ کے بینکوں کو خانگیانے کی ضرورت پیش ہی کیوں آئی ہے؟ کیا یہ بینک گھاٹے میں ہیں؟ ان کی نجکاری کرنے سے عوام اور حکومت کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ اس سلسلے میں حکومت کی دلیل یہ ہے کہ عوامی شعبے کے بینک عدم فعالیت کا شکار ہیں، وہ ہمیشہ نقصان میں ہی رہتے ہیں، این پی اے (غیر کارکرداثاثے) ان میں زیادہ ہوتے ہیں وغیرہ۔ اسی لیے مجبوراً اس کی نجکاری کرنی پڑ رہی ہے۔ کیا حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے؟ اگر ہم ماضی کی طرف نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ عوامی شعبہ کے بینکوں سے زیادہ نجی بینک ہی دیوالیہ ہوئے ہیں، جیسے آپ کو یاد ہوگا ’’گلوبل ٹرسٹ بینک‘‘ جسے نیو جنریشن بینک بھی کہا جاتا تھا، جب اس بینک کا دیوالیہ نکلا تو اس کو سرکاری بینک میں ضم کر دیا گیا۔ حال ہی میں ایک اور خانگی ’’یس بینک‘‘ کا بھی دیوالیہ ہوا تو اسے بھی سرکاری بینک میں ضم کر دیا گیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سرکاری بینک دیوالیہ نہیں ہو رہے ہیں بلکہ خانگی بینک دیوالیہ ہو کر بند ہورہے ہیں۔ پھر حکومت کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری بینک فعال اور نفع بخش نہیں ہوتے، اگر اس میں کچھ سچائی ہوتی تو دیوالیہ ہونے والے ان خانگی بینکوں کو سرکاری بینکوں میں ضم کرنے کی نوبت ہی کیوں پیش آتی؟ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب حکومت کے پاس بھی نہیں ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ سرکاری بینکوں کے نقصان میں چلنے کا سرکاری دعویٰ کتنا صحیح ہے؟ اگر ہم ۲۰۲۱ ۔ ۲۰۲۰ کے حسابات کا تختہ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، صرف اس سال سرکاری بینکوں کو صنعتوں سے جو فائدہ ہوا ہے وہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صرف کارگزار فائدہ ایک لاکھ ۹۷ ہزار ۳۷۴ کروڑ روپے رہا، یعنی تقریباً ۲ لاکھ کروڑ کا منافع صرف ایک سال میں سرکاری بینکوں نے حاصل کیا ہے۔ اگر ہم گزشتہ بارہ سالوں کے اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہ مسلسل فائدہ میں ہی ہیں۔ گزشتہ ۱۲ سالوں میں سرکاری بینکوں کو ۱۶ لاکھ ۵۵ ہزار ۲۱۵ کروڑ کا فائدہ ہوا ہے، یعنی کسی بھی سال انہیں نقصان اٹھانا نہیں پڑا۔ پھر کس طرح حکومت یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ سرکاری بینک نقصان میں ہیں؟
یہاں پر ایک بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بڑی صنعتیں سرکاری بینکوں سے قرض لیتی ہیں، بینک سیاسی آقاؤں کے دباؤ میں ان کو قرض دیتے ہیں، یہ بڑی صنعتیں قرض تو لیتی ہیں مگر اسے واپس نہیں کرتیں، اصولاً اگر کوئی صنعت قرض واپس نہ کرے تو ایسی صورت میں بینک کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس کی جائیدادوں کی قرقی کے ذریعے پابجائی کرلے، لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بینک سیاسی دباؤ میں کام کرتے ہیں اور وہ ان کے قرض واپس نہ کرنے پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اسی کا فائدہ صنعتیں اٹھاتی ہیں، یوں وہ سرکاری بینکوں کو چونا لگا جاتی ہیں اور حسب سابق اپنی کمپنیوں میں کارکردگی جاری رکھتے ہیں اور انہیں کسی کا خوف بھی نہیں ہوتا کیوں کہ سیاسی رہنما ان کی جیب میں جو ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب تو بہت سے سیاسی قائدین کی خود اپنی اپنی صنعتیں ہیں، اب اگر ایسی صنعت جو کسی سیاسی لیڈر کی ہو قرض واپس نہ کرے تو پھر کون ہے جو اس سے واپس لے سکتا ہے؟ حکومت کے پاس یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ اس پر گرفت کرے لیکن حکومت ایسا نہیں کرتی کیوں کہ ان میں سے تو کئی صنعتوں کے مالکین ارکان پارلیمنٹ ہیں اور کئی اراکین اسمبلی ہیں، پھر کس میں اتنی جرأت ہے کہ ان سے قرض واپس لے؟
اس کیفیت کو حکومت نقصان سے ظاہر کرتی ہے یعنی صنعتیں جو قرض واپس نہیں کرتیں اسے نقصان بتایا جاتا ہے اور ان صنعتوں کے قرض جو وصول طلب ہیں انہیں معاف کر دیا جاتا ہے جسے بینکنگ کی اصطلاح میں ’’رائٹ آف‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو قرضے وصول طلب ہیں انہیں بینک کے تختہ حسابات سے حذف کردیا جاتا ہے اور جو فائدہ بینکوں کو حاصل ہوتا ہے اسے ان نقصانات میں بتایا جاتا ہے۔ سال ۲۰۲۰ اور ۲۰۲۱ میں ان نجی صنعتوں سے جو قرض کی رقم وصول طلب تھی وہ ۴ لاکھ ۹۰ ہزار ۹۷۲ کروڑ روپے تھی یعنی تقریباً پانچ لاکھ کروڑ روپے، اس وصول طلب قرضوں (بیڈ لون) کو بینکوں نے اپنی بیلنس شیٹ صاف دکھانے کے لیے رائٹ آف کے نام پر حذف کردیا اور یہ رائٹ آف تین سالوں میں ہوا ہے جبکہ منموہن سنگھ کی حکومت میں کسانوں کے قرض کو معاف کیا گیا تھا اس وقت اس کی جملہ رقم صرف ۷۲ ہزار کروڑ تھی۔ حزب مخالف نے قرضے معاف نہ کرنے پر ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ ماہرین نے کہا تھا کہ ملک معاشی دیوالیہ کا شکار ہو جائے گا وغیرہ لیکن ان کی زبانیں ان بڑی بڑی صنعتوں کی قرض معافی پر بند ہیں۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہےکہ بینکوں کو نقصان عدم فعالیت سے نہیں بلکہ ان بڑی بڑی صنعتوں کے قرضوں کو معاف کرنے سے ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ بینک کی نجکاری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ قرض وصولی کا کوئی مؤثر قانون بنائے اور اسے سختی کے ساتھ نافذ کرے، ایسے ارکان پارلیمنٹ یا اسمبلی کو نااہل قرار دے کر انہیں برخواست کرے جن کی صنعتیں قرض واپس نہیں کرتیں، ان پر سخت کارروائی کی جائے اور آئندہ کسی ایسے صنعت کار کو جس نے بینکوں کا قرض واپس نہ کیا ہو اسے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔
***

 

***

 یہاں پر ایک بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بڑی صنعتیں سرکاری بینکوں سے قرض لیتی ہیں، بینک سیاسی آقاؤں کے دباؤ میں ان کو قرض دیتے ہیں، یہ بڑی صنعتیں قرض تو لیتی ہیں مگر اسے واپس نہیں کرتیں، اصولاً اگر کوئی صنعت قرض واپس نہ کرے تو ایسی صورت میں بینک کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس کی جائیدادوں کی قرقی کے ذریعے پابجائی کرلے، لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بینک سیاسی دباؤ میں کام کرتے ہیں اور وہ ان کے قرض واپس نہ کرنے پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 جنوری تا 22 جنوری 2022