بینکنگ سیکٹرس: افراتفری کا ماحول

جاوید عالم خان،ماہر معاشیات ،نئی دلی

جب ہم ہندوستانی بینکنگ سیکٹرس کی بات کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ یہاں بینکوں کا وجود اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں کے اوائل میں ہوا۔ البتہ اس کی شکل موجودہ بینکوں سے کچھ مختلف تھی وہ یہ کہ اُس وقت کے بینکنگ نظام پر ساری بالادستی اس دور کے سودا گروں اور ساہو کاروں کے ہاتھوں میں تھی۔ اس وقت کے بینکنگ کی شکل کا موجودہ آئینہ دور حاضر کے ’’کمر شیل‘‘ بینکس ہیں کہ عوام کے ذریعہ سے رقم جمع کرنا اور پھر اس کو منظم کرکے عوام تاجروں اور ساہو کاروں کو لون ’’ادھار‘‘ دینا۔
۱۹۴۵ میں بینک کی ایک نئی شکل وجود میں آئی جسے آر بی آئی (RBI)کے نام سے جانا گیا، اس کی حیثیت شخصی، عوامی اور سرکاری بینکوں پر ایک سرپرست بینک کی تھی۔ جس کا مقصد منی سپلائی اور کریڈٹ کنٹرول تھا۔ پھر ۱۹۴۹ میں RBIکو حکومت ہند نے ایک سرکاری بینک میں تبدیل کردیا اور اس کے دائرہ کار کو مزید وسیع کرکے درج ذیل ذمہ داریاں سونپی ۔
۱۔ کرنسی پرنٹنگ جاری کرنا۔
۲۔حکومت کے لیے ایک سرپرست بینک کے طور پر کام کرنا۔
۳۔کریڈٹ کنٹرول اور مونیٹری پالیسی ۔
۴۔زر مبادلہ کی نگرانی۔
۵۔زرعی شعبے کے لیے کریڈٹ کا انتظام۔
آزادی کے بعد حکومت نے اہل ہند کی ترقی اور فلاح کی خاطر اپنی پالیسیوں کو پیش کیا وہ یہ کہ غریب اور کمزور طبقہ کے ساتھ ساتھ ان تمام ترقی کے شعبے ، سیکٹر کے لیے بھی کریڈٹ کا انتظام کیا جائے جنہیں اس وقت اس کی فوری حاجت تھی۔ چنانچہ حکومت نے اس وقت کے چھوٹے چھوٹے اور علاقائی بینکوں کے کردار کو اہم قرار دیا اور ’’پنچورشی یوجنا‘‘ پانچ سالہ منصوبہ کو پیش کیا اس کا مقصد یہ تھا کہ عوام اور چھوٹے چھوٹے پرائیویٹ سیکٹرس کو ہر ممکن سہولت دستیاب کرائی جاسکے۔
۱۹۴۹میں جب حکومت نے دیکھا کہ اس وقت کے بینک پرائیویٹ سیکٹرس کو مطلوبہ کریڈٹ نہیں دے پارہے ہیں تو تقریباً بڑے بینکس کو جو پرائیویٹ سیکٹرس میں متحرک تھے ، سرکاری قرار دیا ان میں الہ آباد بینک، پنجاب نیشنل بینک، سینٹرل بینک آف انڈیا ، بینک آف بڑودا، یونائیٹیڈ بینک آف انڈیا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
۱۹۹۲ میں جب حکومت ہند اقتصادی بحران کا شکار ہوئی تو اس کی اصلاح کے لیے حکومت نے پھر سے پرائیویٹ سیکٹرس اور بینکوں کے دائرہ کار کو بڑھایا اور اس بار اس نے نہ صرف ہند بلکہ بیرون ہند کی کمپنیوں کو بھی آگے بڑھ کر کام کرنے کی اجازت اور ترغیب دی، کیونکہ حکومت نے اس وقت یہ بات محسوس کرلی تھی کہ گورنمنٹ سیکٹرس کی مطلوبہ کارکردگی ناکافی اور غیر اطمینان بخش تھی۔
موجودہ بینکنگ سیکٹرس کی افراتفری
گزشتہ چند سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستانی پرائیویٹ اور سرکاری بینکوں میں پوری افراتفری کا ماحول ہے اور بہت بڑے خسارے سے دوچار ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بینکوں نے جن سیکٹرس، کمپنیوں اور لوگوں کو سیاسی رہنمائوں کے کہنے پر قرض دیا تھا وہ یا تو قرض لے کر بھاگ گئے یا خود کو دیوالیہ قرار دے لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک بہت بڑے مالی بحران کا شکار ہوگئے۔ ایسا نہیں ہوا کہ اس بحران کا شکار صرف بینکس ہی ہوئے بلکہ Non Banking Financial Sectorsبھی اس بحران اور افراتفری سے دوچار ہوئے۔
آر بی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق (Financial stability Report 2019)ملک بھر میں دیے گئے لون میں سے 12.7فیصد رقم کوNon Performingیعنی نامکمل غیر پیداواری لون قرار دیا گیا ۔ اس خسارے کو جب ہم اعداد وشمار میں بیان کریں گے تو پبلک سیکٹرس بینک کا کل خسار(NPA) ۱۱لاکھ کروڑ روپیے ہوگا جس میں ایس بی آئی کے تقریباً ۳لاکھ کروڑ روپیے شامل ہیں۔ جب ہم ان سیکٹرس پر نظر ڈالتے ہیں جن میں اتنی بڑی رقم کو قرض کے طور پر دیا گیا ہے تو ہمارے سامنے رئیل اسٹیٹ سیکٹرس، تعمیراتی سیکٹرس، توانائی سیکٹرس، ٹیلی کوم، ایرلائن اور جہاز رانی سیکٹرس کھل کر نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہہے کہ جب پارلیمنٹ میں حکومت سے ان سیکٹرس کے مالکان حضرات کے اسما گرامی کو واضح کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو حکومت نے اس سے انکار کردیا اس کے برعکس ملک کی موجودہ صورتحال میں ملک کی حفاظت کی خاطر پرامن احتجاج کرنے والوں پر جھوٹے اور فرضی مقدمات درج کرکے ان کی تصاویر اور تفاصیل شاہراہ عام پر لٹکادی جاتی ہے۔
گزشتہ برس ۲۰۱۹میں پی ایم سی بینک اور جاریہ سال Yes Bank کے ٹوٹ جانے سے لاکھو ںلوگ خود کو ٹھکا ہوا اور نقصان زدہ محسوس کررہے ہیں ان کے خون پسینے کی گاڑھی کمائی کو دن کے اجالے میں لوٹ لیا گیا ہے آج وہ خود کو بینکوں میں غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ لوگوں کا بھروسہ بینکوں سے اٹھتا جارہا ہے کیا پتا کب کس بینک کو دیوالیہ قرار دے کر برسوں کی کمائی پر پانی پھیردیا جائے جب ہم پی ایم سی بینک کے خسارے کو دیکھتے ہیں تو اس نے ریاستی سطح پر ہوتے ہوئے بھی ۴۳۵۵کروڑ کا نقصان اٹھایا ہے وہیں Yes Bankنے تقریباً2,41,000(دولاکھ اکتالیس ہزار) کروڑ کا لون دیا ہے جس میں ایک بہت بڑی رقم این پی اے ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
اب سب سے اہم بات ہمارے لیے یہاں یہ ہے کہ بینکنگ کے اس افراتفری کے دور میں بھولی بھالی عوام کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے ۔ کیا آر بی آئی جس کا مقصد وجود ہی تھا بینکنگ ریگولیشن کو مستحکم کرنا اور لون پالیسی پر نظر رکھنا یا وزارت خزانہ جن کی اہم ترین ذمہ داری ملک بھر کے اقتصادیات اور معیشت کو منتظم اور مستحکم کرنا تھا؟ لیکن موجودہ صورت حال میں غریب اور کمزور عوام کے اس سنگین مسئلہ سے سب ہی نے منھ موڑلیا ہے۔
اس صورتحال میں Yes Bankکو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے حکومت نے ایس بی آئی کی مدد لی ہے جب کہ اس سے پہلے حکومت نے انہیں پبلک سیکٹر بینکوں میں 3.5لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری کی ہے جو تاحال خسارہ سے دوچار ہیں۔ حکومت کے ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ حکومت کے پاس بینکنگ پالیسیز اور مسائل کو لے کر اپنی خود کی کوئی مستقل اور مستحکم پالیسی نہیں ہے جس سے وہ ان بینکوں کی حفاظت اور انتظام کرسکے۔
بینکوں کی اس افراتفری میں جو وجوہات ہمیں نظر آرہی ہیں وہ درج ذیل ہیں
l حکومت اور آر بی آئی کانجی اور سرکاری سیکٹرس کو بہت بڑی رقم لون میں دینے سے قبل نہ تو تفتیش کرنا نہ ہی پروجیکٹس کو بغور دیکھنا۔
l کچھ مخصوص افراد اور کمپنیوں کو ہی لون دینے میں ترجیح دینا جو سیاسی لیڈران کے ساتھ شناسائی ہیں۔
l کمپنیوں کو بڑے پروجیکٹس کے لیے لون کی شکل میں بہت بڑی رقم دے دینا۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔
بینکنگ سیکٹرس کی اس افراتفری سے نمٹنے کے لیے ایک طریقہ جو ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت بینکنگ پالیسی کو سخت ، مستحکم اور منظم بنائے اور بڑی بڑی کمپنیوں کو بہت بڑی رقم لون کی شکل میں دے کر چھوٹے ڈپازیٹرس کو تباہ نہ کرے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ موجودہ فاسد بینکنگ پالیسی آنے والے دنوں میں ہماری پوری اقتصادی اور معیشت کی کمر توڑ کر ملک کو تباہ و برباد کردے گی۔