بیدار مغز، مصلح و داعی۔ مولانا اشفاق احمد رحمانی
دلوں پر حکمرانی کا ہنر رکھنے والے عالم ربانی کی وفات
ڈاکٹر سید عروج احمد کھاچرود، اجین، ایم پی
خطہ مالوہ میں آباد اصلاحی ودعوتی میدان میں مولانا اشفاق احمد رحمانی کا نام بڑا جانا پہچانا تھا۔ آپ ہر دلعزیز تھے۔ مولانا مرحوم کو اللہ تعالی نے غیر معمولی خصوصیات اور امتیازات سے نوازا تھا۔ آپ حسن اخلاق ،تواضع و انکساری، رحمت و رافت اور شفقت ومحبت کے پیکر تھے۔ اور بیابان و صحرا میں کھڑے ایک بوڑھے برگد کی طرح ہر ایک کو اپنے سایۂ شفقت اور آغوش رحمت میں لینے کو بیتاب رہتے۔ جو بھی آپ سے قریب ہوتا وہ آپ کے علم و اخلاق کا اسیر ہو جاتا۔ کسرنفسی، تواضع اور عاجزی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ خودنمائی اور خود سری کے نام سے بھی آپ واقف نہ تھے۔ آپ بے نام و نشاں رہ کر متحرک و مشغول عمل رہتے اور کام کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے خاموشی سے اپنی دُھن میں لگے رہتے۔ لوگوں کےدکھ درد میں برابر شامل ہوتے۔ آپ کے مزاج میں خدمت خلق کاجذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ مجبور و پریشان حال لوگوں کی خفیہ امداد کرتے۔ مولانا مرحوم نے دعوت وتبلیغ اور اصلاح نفس کو اپنی زندگی کانصب العین بنایا تھا۔ بقول شاعر
مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی
اس شعر کے مصداق مولانا ہمیشہ دین کی فکر میں ڈوبے رہتے۔ ملت کی زبوں حالی کا بہت قریب سے مشاہدہ کرکے اس کے علاج کے لیے ہمیشہ غورو خوض کرتے اور امت مسلمہ کی اصلاح کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ خواہ شادی بیاہ کی خوشنما تقریبات ہوں یا کسی کی موت کا غم زدہ ماحول۔ مولانا ملت کی ٹیڑھی صفوں کو سیدھا کرنے کی سعی ضرور کرتے۔ اللہ تعالی نے مرحوم کو ایک درد مند دل کے ساتھ تقریر اور خطابت کا ایک سادہ اور بہترین انداز بھی عطا فرمایا تھا۔ آپ کی بات ہمیشہ واضح، صاف اور پر تاثیر ہوتی تھی جو سامعین کے دلوں کو جھنجوڑ دیتی تھی۔ دینی و ملی اصلاحی پروگرام اور علمی و ثقافتی اجتماعات میں خطاب کے لیے دور دراز کا سفر کرتے اس پیرانہ سالی میں بھی کبھی نہیں تھکتے۔مرحوم نے اپنی تقریروں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ سماجی و معاشرتی اصلاح کے کیمپ لگاتے، آپ کی تقریروں کی حکمت بیانی اہل علم اور عوام الناس کے لئے ہمیشہ نفع بخش ہوتی تھیں۔ پیشہ ور مقرروں کی طرح مولانا کی آواز میں گھن گھرج نہیں ہوتی بلکہ نہایت شیریں، دلکش و دردمند انداز میں پر مغز خطاب فرماتے۔ آپ کا اسلوب بیان اور انداز خطابت دل پذیر و پُر تاثیر ہوتا تھا۔ جس میں غیر معیاری اور سوقیانہ الفاظ کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے کلام سے مولانا کو بڑا شغف تھا۔ وہ نوجوانان ملت کے لیے کلام اقبال کو مشعل راہ گردانتے اور علامہ کے اشعار کی روشنی میں ہمیشہ نوجوانان قوم وملت کوان کی زندگی کا مقصد حاصل کرنے کی سعی کرنے پر آمادہ کرتے اور بگڑتے حالات میں انہیں حوصلہ دیتے۔ اس بوڑھے کمزور اور ضعیف جسم میں ہمیشہ ایک متحرک، دردمند اور پرشباب جواں دل دھڑکتا تھا جو آخری دم تک اپنی قوم کے نوجوانوں کو اٹھ کھڑا ہونے کا پیغام دیتا رہا۔ اپنی گوناگوں اور ہمہ جہت مخدمات میں مصروف اس مصلح قوم نے 12/جنوری2021 کو خاموشی سے اس دنیا کو الواداع کہا۔ ان کی وفات سے مالوہ کی سر زمین میں ایک بڑا علمی خسارہ محسوس کیا جا رہا ہے۔
مولانا موصوف اس دنیائے فانی سے تو رخصت ہوگیے لیکن ان کی شخصیت اور ان کی اصلاحی خدمات کا عکس و نقش ہمشہ مالوہ کے فکر مند مسلمانوں کے دل ودماغ میں قائم رہے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت کی راحتیں عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021