بیالیس سالہ طویل جنگ ِافغانستان

نقصانات کا ایک جائزہ۔امریکہ کے اربوں ڈالر خرچ

ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی

طالبان۔امریکہ امن معاہدے کے بعد افغانستان میں حالات پرامن نظر آرہے ہیں، امریکی فوجیوں کا انخلا بھی شروع ہوچکا ہے اور طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی ہورہا ہے، اگرچہ افغان حکومت کی طرف سے اس میں رکاوٹیں ڈالنے کی خبریں آرہی ہیں۔یہ موجودہ تاریخ کی سب سے طویل اور خون ریز جنگ ہے، جس سے افغانستان گزر رہا ہے، تقریباً 42سالوں سے افغانستان کا علاقہ جنگوں کا شکار ہے، یہ جنگیں تین مرحلوں میں ہوئی ہیں، پہلا مرحلہ سویت یونین کے ساتھ افغانیوں کی جنگ، دوسرا مرحلہ آپسی خانہ جنگیاں، تیسرا مرحلہ طالبان کی امریکہ اور امریکی پٹھو افغان حکومت کے خلاف جنگ؛ ان تینوں مراحل میں ہر فریق کو بے انتہا نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے، ہم یہاں افغان قوم کو جو نقصانات ہوئے ہیں ان کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے:
افغان جنگ کا پہلا مرحلہ
(روس کا افغانستان پر حملہ)
افغانستان میںامریکی سپاہیوںکی تعیناتی پر مصارف
( 2001تا2019)
سویت یونین یعنی موجودہ روس نے 25ڈسمبر 1979 کو افغانستان پر حملہ کیا تھا، جس کے اہم مقاصد یہ تھے کہ افغانستان کے قدرتی وسائل کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے، اس علاقے میں امریکہ کی رسائی کو روک دیا جائے، کیوں کہ امریکی یہاں پٹرول کے چشموں تک پہنچ چکے تھے، اور چین کو مغربی جانب سے گھیر دیا جائے، اسی طرح اس وقت کے سویت یونین کے ماتحت وسطی ایشیا کے علاقے میں آزادی کی کسی تحریک کو پنپنے کا موقع نہ ملے (حالاں کہ اسی جنگ میں شکست سے دوچار ہونے کی وجہ سے سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور کئی مسلم ممالک اس کے تسلط سے آزاد ہوگئے یعنی اس کی چال الٹی پڑی)، افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کو مدد فراہم کی جائے، اسی طرح بولنڈا میں سویت یونین کے فوجی اڈے کی کمزوری کی وجہ سے دوسری جگہ مضبوط فوجی اڈے کی ضرورت تھی، جس کے لیے افغانستان کی زمین کا انتخاب کیا گیا۔
ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا اور ایک مرحلہ ایسا آیا کہ سویت یونین نے یہاں اپنے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تک بڑھادی، لیکن یہاں جس قوم سے واسطہ پڑا وہ ناقابلِ تسخیر قوم تھی، صرف دس سالوں میں ہی یعنی 15فروری 1989میں روس کو یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا، اس جنگ میں افغان قوم کا ساتھ امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان نے دیا، روسی قبضے کے دوران اقوامِ متحدہ کی اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں جملہ مقتولین کی تعداد تیرہ لاکھ سے سترہ لاکھ کے درمیان ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے تیس لاکھ افغانی پاکستان میں اور بیس لاکھ ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، تیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اب بھی تیس لاکھ افغانی پناہ گزین پاکستان اور ایران میں ہی رہنے پر مجبور ہیں۔
روس یہاں سے نکلا تو اپنے پیچھے اس نے بارودی سرنگیں چھوڑیں، ھالو ٹرسٹ انٹرنیشنل تنظیم کے مطابق افغانستان میں 1979سے چھ لاکھ چالیس ہزار بارودی سرنگیں نصب کی گئی تھیں، جن میں سے اکثر بارودی سرنگیں روسی فوج کی طرف سے نصب کی گئی تھیں۔ مذکورہ تنظیم کے مطابق ان بارودی سرنگوں کی وجہ سے تئیس ہزار پانچ سو (23500) افغانی مارے گئے۔
جب کہ روسی حملوں کی وجہ سے ملک کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔
ورلڈ پیس فاؤنڈیشن کی7۔اگسٹ 2015میں شائع رپورٹ کے مطابق سویت یونین کی طرف سے افغانستان پر تھوپی ہوئی جنگ میں کم از کم پانچ لاکھ افغان شہری مارے گئے، جب کہ یہ اندازہ صحیح ہونا ضروری نہیں ہے، یہ تعداد وہ ہے جو ریکارڈ کی گئی ہے، جو مقتولین ریکارڈ میں نہیں ہیں، ان کی تعداد کا اندازہ نہیں ہے۔
’’اگست سے ڈسمبر 1987تک ، پاکستان میں افغان مہاجرین کے کیمپوں میں ایک سروے کیا گیا تاکہ جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکے ، اس میں موت کی دوسری وجوہات بھی شامل ہیں، صرف قتل ہی سبب نہیں ہے، مارک سلیونسکی کے اعداد و شمار کے مطابق 1987کے آخر تک افغانستان کی 9فیصد آبادی جنگ کے نتیجے میں مر چکی تھی۔ اس میں مجموعی طور پر جنگ کی شرح اموات دس سے پندرہ لاکھ تھی۔ 11 مارچ 1988کو ایک انٹرویو میں سلیونسکی نے مزید بتایا کہ متاثرین میں سے 80فیصد عام شہری تھے ، جن کی عمر 15سال سے کم یا 55سال سے زیادہ بیان کی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ46فیصد اموات سوویت بمباری کی وجہ سے ہوئی ہیں۔‘‘( ورلڈ پیس فاؤنڈیشن 7۔اگسٹ 2015)
نور احمد خالدی کا 1991میں لکھا گیا ایک مقالہ اسی اعداد و شمار پر مبنی ہے جس کے ساتھ سلیونسکی نے کام کیا تھا ، خالدی کا کہنا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں مجموعی طور پر876825افغان ہلاک ہوئے ، جن میں650056مرد اور 227769خواتین شامل ہیں۔ (ایضاً)
نور احمد خالدی نے ان ہلاکتوں کی 1978سے 1987 تک سال بہ سال تفصیلات بیان کی ہیں، 1978میں 34731 ہلاکتیں، 1979میں 69963ہلاکتیں، 1980میں 78945 ہلاکتیں، 1981میں 63300ہلاکتیں، 1982میں 66356 ہلاکتیں، 1983میں 103622 ہلاکتیں، 1984 میں 150958 ہلاکتیں، 1985 میں 120418ہلاکتیں، 1986 میں 109608 ہلاکتیں، 1987 میں 78919 ہلاکتیں ہوئیں۔ (ایضاً)
صحافی احمد راشد کے مطابق صرف مارچ 1979 میں بیس ہزار افغانی مارے گئے تھے۔
جنگ کا دوسرا مرحلہ (خانہ جنگیاں)
جنگ کا دوسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب سویت یونین کی فوجیں افغانستان سے نکل گئیں اور نجیب اللہ کی حکومت جاری رہی، لیکن افغان مجاہدین ان کی حکومت پر کسی طرح راضی نہیں ہوئے، اور حکومت کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں، مجاہدین 1992 کو کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور نجیب اللہ نے اقوام متحدہ کی ایک عمارت میں پناہ لی۔ پھر برہان الدین ربانی عارضی صدر مقرر ہوئے۔ پھر خانہ جنگیوں کا سلسلہ اس وقت تک نہیں تھما جب تک کہ طالبان کی حکومت قائم نہیں ہوئی۔1992میں نجیب اللہ کی طرف سے حکومت سے دست بردار ہونے پر مجبور ہونے تک چالیس ہزار سے زائد افغانی خانہ جنگیوں میں مارے گئے تھے، پھر اس کے بعد کے سالوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
ایٹین گیل اپریل 1992 اور مارچ 1995 کے درمیان ہلاک ہونے والے کم از کم 9800افراد کی تعداد پیش کرتی ہے ، تاہم دیگر سروے میں ہلاکتوں کی زیادہ تعداد بیان کی جاتی ہے۔
جنگ کا تیسرا مرحلہ
تیسرا مرحلہ طالبان اور امریکہ کے درمیان جنگ کا ہے، طالبان کی حکومت 1996میں قائم ہوئی، اس دوران طالبان اور دیگر دھڑوں کے درمیان جنگیں جاری رہیں،پھرگیارہ ستمبر 2001میں امریکہ پر ہونے والے فدائی حملوں کا الزام طالبان پر لگاکر امریکہ اور حلیف حکومتوں نے 7۔اکتوبر 2001میں افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں سے طالبان کو ختم کرنے کی کوشش کی، اس سے پہلے بھی ہزاروں لوگ مارے گئے، لیکن انیس سال بعد اب دونوں کے درمیان امن معاہدہ ہوا ہے، جس کے جاری رکھنے کی پوری دنیا کے لوگ امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔
اس جنگ کے دوران امریکہ اور افغانیوں دونوں کو بے انتہا نقصانات برداشت کرنے پڑے، صرف آخری تین سالوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2017 میں 19694 لوگ قتل ہوئے تھے، جن میں افغان فوجی، طالبان کے جنگجو اور امریکی فوجیوں کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے، اسی طرح2018 میں بیس ہزار سے زائد لوگ مارے گئے، جب کہ افغانی دھڑوں کے درمیان ہونے والی خانہ جنگیوں میں سب سے زیادہ خون ریز سال 1994کو مانا جاتا ہے، جس میں بھی 9055لوگ مارے گئے تھے، جب کہ2019کا سال اس سے بھی زیادہ خون ریز تھا۔
’’امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زادہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ جنگ ’بہت طویل ہوگئی‘ ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی جانب سے رپورٹ میں کہاگیا تھا کہ 2019 کی پہلی سہ ماہی میں ملک میں ایک ہزار 7سو 73 شہریوں کو نقصان پہنچا، جس میں 581 افراد ہلاک اور ایک ہزار 192 زخمی ہوئے، اسی طرح 582 بچوں کو بھی نقصان پہنچا جس میں 150 بچے جاں بحق اور 432 زخمی ہوئے۔
ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ اس عرصہ کے دوران طالبان کے مقابلے میں امریکی اور افغان فورسز نے افغانستان میں شہریوں کو زیادہ قتل کیا‘‘۔(عالمی اخبار 26۔اپریل2019)
فروری 2019ء میں اقوام متحدہ کی جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق 40ہزار شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 32000 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔