بہار کے ایک ریلوے اسٹیشن پر بھوکے مہاجروں کے ذریعے بسکٹ کی لوٹ کے بعد اب دہلی میں روڈ پر راہگیروں نے ایک پھل فروش کے ٹھیلے سے آم لوٹے

نئی دہلی، مئ 22: مسلسل تعطل کی بدولت معاشی تباہی اور بے روزگاری کی وجہ سے کیا ہم اس صورتحال کی طرف جارہے ہیں جس کو ’’غذائی فساد‘‘ کہا جاتا ہے؟ کیوں کہ پچھلے ایک ہفتہ میں اس بحران کے دوران ایسے دو واقعات سامنے آئے ہیں۔

14 مئی کو کٹیہار ریلوے اسٹیشن کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں ایک شخص، بظاہر ایک مہاجر مزدور، پلیٹ فارم پر بسکٹ سے بھرا ہوا بیگ لیے ہوئے کھڑا نظر آیا۔ کچھ ہی دیر میں کچھ بھوکے ساتھی مسافروں نے اس کی طرف حملہ کیا اور جلد ہی ایک درجن کے قریب لوگ ایک پیکٹ بسکٹ کے لیے لڑنے لگے۔ انھوں نے ایک دوسرے سے چھین جھپٹ کی۔

ٹھیک ایک ہفتہ بعد 21 مئی کو اسی طرح کا ایک واقعہ قومی دارالحکومت دہلی میں پیش آیا۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ ویڈیو میں درجنوں افراد، جس میں راہگیر، آٹو ڈرائیور اور دیگر افراد کو ایک آم بیچنے والے کے ٹھیلے کو لوٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ٹھیلے والے نے، جس کا نام چھوٹے ہے، ان ڈی ٹی وی کے مطابق بتایا کہ ’’میرے پاس آم کی 15 کریٹ تھیں جن کی مالیت تقریباً 30،000 تھی۔ انھوں نے سب کچھ لوٹ لیا۔‘‘

یہ واقعہ شمالی دہلی کے جگت پوری علاقے میں پیش آیا۔

معلوم ہو کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے ملک 24 مارچ سے ملک گیر لاک ڈاؤن سے گزر رہا ہے۔ اس لاک ڈاؤن کے دوران لاکھوں تارکین وطن سیکڑوں کلومیٹر دور اپنے گھروں کی طرف پیدل مارچ کرتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔ ریاستی حکومتیں، معاشرتی گروہ اور سماجی کارکنان لاکھوں افراد کو کھانا کھلا رہے ہیں جو تقریباً مفلس ہو چکے ہیں۔ حالاں کہ 18 مئی سے شروع ہونے والے لاک ڈاؤن کے چوتھے مرحلے میں مرکزی اور کچھ ریاستی حکومتوں نے لوگوں اور کاروباری اداروں کی نقل و حرکت پر کچھ پابندیاں نرم کردی ہیں۔