بھٹکل: گائے پالنے والے نوجوانوں پر پولیس کی طرف سے مبینہ زیادتی

متاثرین پر جانوروں کا خیال نہ رکھنے اور چارہ نہ دینے کے الزامات

سید احمد سالک ندوی

 

خاطی پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کا مطالبہ ،ٹویٹر پر چھڑی مہم
پچھلے کچھ برسوں سے ملک میں جانور لے جانے یا ذبح کرنے کے نام پر فرقہ پرستوں کی طرف سے مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات رونما ہونا عام بات ہو گئی ہے، لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے کہ صرف جانور پالنے کے نام پر کسی کی پٹائی کی گئی ہو۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ کچھ روز قبل کرنا ٹک کے ساحلی شہر بھٹکل میں پیش آیا جہاں مبینہ طور پر مقامی پولیس کے بعض اہلکار مبینہ طور پرایک گھر میں گھس کر گھر والوں کی پٹائی کرتے ہوئے پانچ لوگوں کو اپنے ساتھ ہولیس تھانہ لے گئے جہاں لاتوں اور ڈنڈوں سے ان کی پٹائی کی گئی۔ واقعہ میں متاثر ہونے والے ایک نواجون کو اتنا ٹارچر کیا گیا تھا کہ اُسے بھٹکل کے سرکاری ہاسپٹل میں ابتدائی طبی مدد دے کر بہتر اور مناسب علاج کے لیے منگلور کے ہاسپٹل لے جانا پڑا۔
اصل واقعہ مقامی میڈیا کی نظر میں
بھٹکل اور اطرافِ بھٹکل میں مستند خبروں کے لیے معروف ایک مقامی میڈیا ہاوس ’’ساحل آن لائن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پولیس کی زیادتی کا شکار بھٹکل کا نوجوان عبدالمقسط شینگیری نے بتایا کہ ’’صبح ان کا ایک جانور گھر سے بھاگ گیا تھا تو دوستوں کی مدد سے جانور کو پکڑ کر واپس گھر لایا گیا، صبح قریب نو یا ساڑھے نو بجے وہ لوگ جانور کو کمپاونڈ کے اندر باندھ ہی رہے تھے کہ اچانک پولیس آئی اور کمپاونڈٖ کے اندر گھس کر جانوروں کی رسی کھول کر اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرنے لگی، جب عبدالمقسط نے پولیس والوں سے وجہ جاننے کی کوشش کی تو پولیس نے اس کی ہی پٹائی کرتے ہوئے اسے اپنی گاڑی میں بٹھایا، جب ان کے بھائی مولوی عبدالمقیت نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے اُسے بھی گاڑی کے اندر گھسیٹ لیا اور گھر پر بندھے ہوئے دو جانوروں سمیت ان دونوں بھائیوں کو بھی پولیس تھانہ لے گئی، کچھ ہی دیر بعد پولیس پھر ان کے گھر آ دھمکی تھی اور گھر کے 16/17 سال کے دو لڑکوں اور 18 سال کے ایک نوجوان کو بھی گھر کے اندر گھس کر گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میںاپنی گاڑی میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئی اور ان تینوں کی بھی پولیس اسٹیشن میں بری طرح پٹائی کی۔ عبدالمقسط نے پولیس پر الزام لگایا کہ پولیس نے تھانہ لے جانے کے بعد بھی اس کی اور اس کے بھائی کی بہت بری طرح پٹائی کی۔ بالخصوص عبدالمقسط کے پیٹ پر پے درپے لاتوں سے مارا گیا۔ جب اس کی حالت بگڑنے لگی تو پولیس نے ہی اسے شام قریب آٹھ بجے بھٹکل سرکاری اسپتال میں داخل کرایا، جہاں ڈاکٹروں نے اسے منگلور ہاسپٹل لے جانے کا مشورہ دیا‘‘۔
کیا جانور پالنے کے لیے اجازت مطلوب ہے؟
پولیس کی مبینہ زیادتی کے شکار عبدالمقسط کا کہنا ہے کہ ان کے یہاں باپ دادا کے زمانے سے جانوروں کو پالا پوسا جا رہا ہے اور کبھی انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی، مگر 8؍ جون کو ایک جانور بھاگنے کے بعد پکڑ لانے کی وجہ سے پولیس نے ان کے گھر میں گھس کر پھر انہیں تھانہ لے جا کر خوب زدو کوب کیا۔ عبدالمقسط پوچھتے ہیں کہ کیا اب جانوروں کو پالنے پوسنے کے لیے بھی اجازت لینی ہو گی؟ یا کسی بھی قسم کے کاغذات رکھنے ہوں گے؟ واضح رہے کہ کرناٹک میں گئو کشی پر پابندی ہے مگر گائے پالنے کے لیے کوئی قانونی دشواری نہیں ہے۔
اپنے بچاؤ کے لیے پولیس کی چالاکی؟
بھٹکل میں موجود قانون کی جانکاری رکھنے والوں نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ غالباً پولیس نے انہیں جانور چوری کے غلط انفارمیشن کے شبہ میں پیٹا تھا لیکن جب معلوم ہوا کہ یہ جانور چوری کا معاملہ نہیں ہے تو پولیس نے کمال ہوشیاری سے جانور کو بھوکا رکھنے اور غیرقانونی طور پر ذبح کرنے کی نیت سے جانور رکھنے کے معاملات کے تحت کیس درج کیا اور خود متاثرین کو ہی مورد الزام ٹہراتے ہوئے اپنے بچاؤ کی راہیں تلاش کیں لیکن گھر والوں نے بھٹکل پولیس تھانہ میں بھٹکل پی ایس ائی سومابی (خاتون افسر) اور دیگرکے خلاف شکایت کر کے خاطی اہلکاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے ۔
تین اہم سوالات
مقامی پولیس کی جانب سے عبدالمقسط اور ان کے بھائیوں پر کی گئی ایف آئی آر کے مطابق ملزمین نے جانوروں کو بھوکا رکھا تھا جس کی وجہ سے جانوروں کی کنڈیشن بے حد خراب تھی۔ ایف آئی آر میں درج اس نکتہ پر کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ جانور کی خراب حالت کے لیے پولیس نے کسی ویٹرنری ڈاکٹر سے سرٹیکفیٹ لیا یا کسی ماہر حیوانیات نے انہیں بتایا تھا کہ وہ جانور بھوکے ہیں؟ اگر یہ کام نہیں ہوا تو پولیس کے اس دعویٰ کی سچائی کیسے سامنے آئے گی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پولیس نے جائے واردات میں پنج نامہ کرتے ہوئے ان کا اسٹور روم چیک کیا تھا کہ ان کے پاس کتنا چارہ یا کیٹل فیڈ موجود تھا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ جب ایک جانور 300کلو اور دوسرا جانور 200 کلو کا ہے تو پولیس کس قسم کے خراب کنڈیشن کی بات کر رہی ہے، یہ کس بنیاد پر کہہ رہی ہے کہ انہوں نے جانوروں کو بھوکا رکھا تھا؟ کیا پولیس ان تمام سوالوں کے تشفی بخش جوابات دے پائے گی؟
عوامی نمائندوں اور سیاسی تنظیموں نے بھی کی کارروائی کا کیا مطالبہ
بھٹکل بلدیہ کے مسلم کونسلرس نے اسسٹنٹ کمشنر کو ایک یادداشت سونپتے ہوئے واقعہ میں ملوث خاطی پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح ایس ڈی پی آئی اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا سمیت دیگر ملی تنظیموں نے اس واقعہ پر سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے خاطیوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا پولیس کو کسی کو بھی غیر قانونی طور پر ہراساں کرنے یا مارنے پیٹنے کی اجازت ہے؟ یا قانون کے رکھوالوں کو اپنے سارے کام قانون کے دائرے میں ہی رہ کر انجام دینا ہے؟ کل ملا کر اس واقعہ کو لیکر عوامی سطح پر بھی غصہ پایا جا رہا ہے۔
بھٹکل پی ایس آئی کی معطلی کا مطالبہ، ٹویٹر پر چلایا گیا ٹرینڈ
اس واقعہ میں متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے یوتھس آف بھٹکل نے ٹویٹر پر ہیش ٹیگ ’جسٹس فار مقسط‘ اور ’سسپینڈ بھٹکل پی ایس آئی سومابی‘ کے نام سے ٹرینڈ چلایا جس میں کئی ملی وسیاسی تنظیموں نے بھی حصہ لیا۔ ان میں سے کئی ٹویٹس میں وزیر داخلہ کرناٹک، سپرٹنڈنٹ آف پولیس (ضلع اتر کنڑا) ڈپٹی کمشنر (ضلع اتر کنڑا) آئی جی پی ویسٹرن رینج کو ٹیاگ کیا گیا اور پی ایس آئی کو برخواست کرنے اور عبدالمقسط کو انصاف دلانے کا مطالبہ کیا گیا۔
ایک گزارش
بظاہر یہ عام واقعہ لگتا ہے لیکن قانون کے رکھوالوں کی طرف سے گائے کے نام پر اس قسم کی کارروائی اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے۔ ایسے میں عید قربان کے قریب مسلم نوجوانوں کو بالخصوص احتیاط کرنا چاہیے اور اپنے سارے کام حدود میں رہ کر ہی انجام دینا چاہیے، خدانخواستہ اگر کوئی انہونی پیش آتی ہے تو قانونی گرفت سے بھی بچا جا سکے اور دستوری حدود میں رہ کر اپنا بچاؤ بھی کر سکیں، دراصل یہی حکمت ہے اور اس وقت اسی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021