بھارت ۔ مالدیپ تعلقات کشیدگی کا شکار
سیاسی مفاد کے لیے پارٹیاں ہندمخالف جذبات کو ہوادے رہی ہیں
اسد مرزا
مختلف پراجیکٹس کے ذریعے مالدیپ میں فوجی طاقت اور اثرورسوخ بڑھانے کا الزام
جنوبی بھارت کی ساحلی سرحد سے 430 کلو میٹر دور ایشیا کا سب سے منفرد مختصر اور خود مختار ملک مالدیپ 1196 جزائر پر مشتمل ہے۔ مالدیپ کو مارکو پولو نے بحر ہند کا ’’گلِ سرسبد‘‘ کہا تھا اور ابنِ بطوطہ نے اس کو دنیا کے عجائب میں سے ایک قرار دیا تھا۔
بھارت اور مالدیپ کے باہمی تعلقات جو کبھی نہایت قریبی اور خوش گوار مانے جاتے تھے اور عالمی سطح پر جن کی مثال بھی دی جاتی تھی، وہ گزشتہ دس برسوں بالخصوص پچھلے تین برسوں کے درمیان عوامی سطح پر کافی ناخوشگواری اور کشیدگی کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایک زمانے میں آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی اور مالدیپ کے سابق صدر مامون عبدالغیوم کے درمیان تعلقات بہت ہی قریبی مانے جاتے تھے۔ دونوں نے ہی ناوابستہ تحریک کے علاوہ سارک (SAARC ) تنظیم کے قیام میں عملاً بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ مجموعی طور پرتاثر یہی قائم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات کو جان بوجھ کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت خراب کیا گیا ہے۔
گزشتہ تین برسوں کے دوران کبھی کبھار سوشل میڈیا پر بھارت مخالف الزامات کی بارش اور بالخصوص ’انڈیا آؤٹ‘ کی مقبولیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب نومبر2021 میں مالدیپ کی عدالت عظمیٰ نے سابق مالدیپ صدر عبداللہ یامین کو مالی خرد برد اور مالی غبن کے الزامات سے بری کرکے انہیں دوبارہ عملی سیاست میں آنے کی اجازت دے دی۔ بھارت اور مالدیپ کے درمیان تعلقات یامین کے دورِ اقتدار میں سب سے زیادہ کشیدہ ہوگئے تھے کیونکہ انہیں چین کا حامی مانا جاتا تھا اور شاید اسی وجہ سے وہ بھارت مخالف رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
عبداللہ یامین کی قیادت اور Progressive Party of Maldives یعنی پی پی ایم کے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات سب سے زیادہ کشیدگی کا شکار ہوئے تھے۔ گو کہ انہیں کی حکومت نے ’بھارت پہلے‘ کی پالیسی پر بھی عمل درآمد کرنے کی شروعات کی تھی۔ دراصل یامین کو جب یہ اندازہ ہوا کہ بھارت مخالف رویہ اختیار کرنے پر ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے تو وہ ایک طرف چین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہے اور دوسری طرف ہند مخالف عوامی جذبات کو بھی بھڑکاتے رہے۔
دراصل دونوں ملکوں کے درمیان جو باہمی تعلقات قائم تھے وہ باہمی فوائد اور بھارت کی جانب سے ہر موقع پر مالدیپ کی مدد کرنے کی وجہ سے تھے یہی چیز مالدیپ میں بھارتی موجودگی میں اضافے کے لیے بھی ذمہ دار تھی اور شاید ایک وجہ یہ بھی تھی جس نے ہند مخالف جذبات کو بھڑکانے میں کردار ادا کیا ہے۔
تجارتی تعلقات
دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت تاریخی طور پر ہمیشہ سے قائم ہے۔ اس میں کلیدی کردار کیرالا اور تمل ناڈو کے تاجروں نے ادا کیا ہے۔ 2020 میں بھارت مالدیپ کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ملک تھا۔ 2020میں ہی بھارت نے 243کروڑ ڈالر کی مالیت کا سامان مالدیپ کو برآمد کیا تھا اور2021 میں اگست کے مہینے تک بھارتی برآمدات کی مجموعی مالیت 198کروڑ ڈالر تھی۔ اس کے علاوہ بھارت نے مالدیپ کی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ 1995 میں بھارت نے مالے میں اندرا گاندھی میموریل اسپتال قائم کیا تھا اور ابھی بھی تکنیکی سطح پر اسپتال کے ترقیاتی منصوبوں میں بھارتی شمولیت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 1992 میں اس نے مالدیپ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن قائم کیا اور اس کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں دیگر تعلیمی اداروں میں بھی بھارتی امداد اور صلاح واضح طور پر نظر آتی ہے۔ بھارت سے مالدیپ جانے والے سیاحوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے بڑے اور چھوٹے ہوٹلوں میں بھارت کی بڑی ہوٹل چینس بخوبی اپنا کردار نبھا رہی ہیں۔ حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق فی الوقت تقریباً 30 ہزار بھارتی شہری مالدیپ میں موجود ہیں جو کاروبار اور ملازمت دونوں شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بھارت اور مالدیپ کے درمیان دفاعی تعلقات بھی بحر ہند میں مالدیپ کے اہم مقام کی وجہ سے کافی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ مالدیپ نیشنل ڈیفنس فورس (MNDF) کے زیادہ تر فوجیوں کو بھارتی فوجی ادارے ٹریننگ اور تربیت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت مالدیپ کی فوج، بحریہ اور فضائیہ سبھی کے لیے اسلحہ بھی مہیا کراتا ہے اور ان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتا ہے۔ بحرہند اور بحرالکاہل کی موجودہ فوجی نوعیت اور حالیہ امریکی معاہدوں جیسے کہ AUKUS اور QUADکے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی دفاعی تعلقات میں اور زیادہ اشتراک کی امید کی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ بھارت نے 2010 اور 2015میں مالدیپ کو دو جنگی ہیلی کاپٹر بھی مہیا کرائے تھے جن کا مقصد سمندر میں امدادی مدد پہنچانا، موسمیات کی جانکاری بہم کرانا اور مالدیپ کے مختلف جزائر کے درمیان مریضوں کو لانا لے جانا بھی شامل تھا۔ 2021 میں ہی بھارتی انجینئرس نے دارالحکومت مالے کے قریب UTF Harbor Project قائم کرنے کا کام بھی شروع کردیا جس کا معاہدہ یامین کے دورِ اقتدار میں ہی طے پایا تھا۔ 2016 میں بھارت اور مالدیپ کے درمیان ’دفاعی اشتراک‘ میں اضافے کی غرض سے ایک جوائنٹ ایکشن پلان بھی عمل میں آیا تھا۔ جس کے تحت دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساحلی علاقوں میں ایک دوسرے کی ترجیحات اور دفاعی ضروریات کو مستحکم کرنے کا عہد کیا تھا۔
بھارت مخالف جذبات
درحقیقت مالدیپ میں ہند مخالف جذبات کو شہ دینے میں مذکورہ تینوں پراجیکٹس نے بھی کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہند مخالف عناصر اور موجودہ حکومت کے مخالفین نے ان تینوں معاہدوں اور بھارتی مدد کو مالدیپ کی دفاع سے جوڑ کر یہ تشہیر کرنا شروع کردی تھی کہ ان معاہدوں اور اقدامات کے ذریعہ بھارت مالدیپ کی سالمیت اور دفاع کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔ ان جذبات میں کچھ حد تک وہ تجارتی عناصر بھی شامل ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ ان کے اپنے ہی ملک میں انہیں اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے وہ مواقع حاصل نہیں ہیں جو کہ بھارتی کاروباریوں کو ہیں اور ان کے ساتھ ہی چھوٹے پیمانے کے کاروبار میں بھی بھارتی موجودگی ان جذبات کو مزید بھڑکانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ان معاہدوں میں سے بعض اس وقت عمل میں آئے تھے جب خود یامین برسرِ اقتدار تھے تاہم ان پر لگائے گئے الزمات سے بری ہونے کے بعد انہوں نے عوامی جذبات کو بھانپتے ہوئے ہند مخالف تحریک کا حصہ بننا شاید اس لیے قبول کرلیا کیونکہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ شاید اس کے ذریعہ وہ عوام کی حمایت دوبارہ حاصل کرنے اور اقتدار میں واپس آنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ مالدیپ کی دیگر سیاسی جماعتوں جیسے کہ عدالت پارٹی نے اس مجموعی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل سابق صدر یامین نے بھارت مخالف جذبات کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے اور وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر پراجیکٹس خود انہیں کے دورِ اقتدارمیں شروع کیے گئے تھے۔ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر قائم ’آؤٹ انڈیا‘ تحریک عوام میں ہند مخالف جذبات پیدا کرنے کے لیے جان بوجھ کر فروغ دی جارہی ہے۔ عدالت پارٹی کے صدر صالح کی موجودہ حکومت میں ایک اہم شراکت دار ہے۔ دوسری سیاسی جماعت جمہوری پارٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ قانونی طور پرایسا نہیں کہا جاسکتا ہے کہ بھارت مالدیپ میں ان پراجیکٹس کے ذریعے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کررہا ہے یا وہ وہاں کوئی فوجی اڈہ قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ پارٹی کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ دفاعی تعلقات کا فائدہ مجموعی طور پر مالدیپ کے حق میں ہے کیونکہ اشتراک کے ذریعہ بھارت مالدیپ کی فوج کو تربیت اور اسلحہ دونوں سہولیات مہیا کرتا ہے۔
مجموعی طور پر بھارت اور مالدیپ کے سیاست دانوں نے اس معاملے پر احتیاط اور بردباری کا مظاہری کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اور زیادہ مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ موجودہ صدر صالح اور مالدیپ کی وزیر دفاع مریم دیدی نے گزشتہ سال مختلف موقعوں اور میٹنگوں میں دونوں ملکوں کے درمیان دوستی قائم رکھنے اور اسے اور زیادہ مستحکم کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ وہیں بھارت نے اس پورے معاملے پر سیاسی اور خارجی سطح پر خاموشی اختیار کی ہے تاکہ معاملہ مزید نہ الجھ جائے۔ انہیں اقدامات کی بنیاد پر اور دونوں ملکوں کے بردبار رویہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ جلد ہی مالدیپ میں ہند مخالف جذبات میں شاید کمی رونما ہو اور باہمی تعلقات پھر اپنی پرانی روش پر قائم ہوسکیں اور اس کے ذریعہ ہند مخالف علاقائی ممالک کی شکست بھی ہو۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com
***
***
گزشتہ تین سال کے عرصے میں بھارت اور مالدیپ کے درمیان تعلقات جو کبھی بہت خوشگوار تھے، مالدیپ کی داخلی سیاست کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوگئے ہیں۔مجموعی طور پر دونوں حکومتیں ان کو بہتر کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 09 جنوری تا 15 جنوری 2022