بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ’بلڈوزردہشت‘ کی عالمی میڈیا میں گونج

الجزیرہ، نیویارک ٹائمز، دی واشنگٹن پوسٹ، العربیہ میں مخالف اقلیت خوفناک کارروائی پرخصوصی رپورٹس کی اشاعت

سبطین کوثر

مسلمانوں کوجبرکا نشانہ بنانے کی حکومتی کوششوں کی چہار سو مذمت
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری سخت کارروائیوں اور بالخصوص مسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزرچلاتے ہوئے ساری برادری کو دہشت زدہ کرنے کی گونج پوری دنیا میں سنی جا رہی ہے اور اس پر تجزیاتی و تنقیدی مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا میں نہ صرف ان کارروائیوں پر باضابطہ خصوصی رپورٹس شائع کی جا رہی ہیں بلکہ اسپیشل بلیٹن کے ذریعہ بھی ان واقعات کو اہمیت کے ساتھ اجاگر کیا جا رہا ہے۔
دنیا کے معتبر ترین میڈیا ہاؤس ’الجزیرہ‘ نے الہ آباد(پریاگ راج)میں10جون کو بعد نماز جمعہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیؐ کے خلاف بی جے پی رہنماؤں نوپور شرما اور نوین کمارجندل کے ہتک آمیز تبصروں کے خلاف احتجاج و پرتشدد مظاہرے میں ممتاز سماجی کارکن جاوید محمدکوکلیدی ملزم بناتے ہوئےان کے مکان کو دوسرے روز ہی آناً فاناً میں پولیس کی بھاری نفری کی تعیناتی کرکے بزور قوت زمین بوس کیے جانے کی خبر پر اسپیشل کور اسٹوری کی ہے۔ الجزیرہ چینل نے اس پورے واقعہ کو’ خوفناک انتقامی کارروائی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ چینل نے نہ صرف اس واقعہ کو بلکہ مدھیہ پردیش، دہلی اور اترپردیش کے کئی اضلاع میں کئی مسلم رہنماؤں بلکہ احتجاج کرنے کی پاداش میں متعدد مسلمانوں کے املاک کو قرق کرنے اور ان کے مکانات پربلڈوزر چلاکر انہیں مسمار کرنے سے متعلق واقعات پر بھی کئی رپورٹس شائع کی ہیں۔ اس چینل نے جاوید محمد کی دختر جے این یو کی طالبہ اور سماجی کارکن آفرین فاطمہ کا اس واقعہ پر تفصیلی انٹرویو بھی شائع کیا ہے جس کی کلپنگ ٹویٹر پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس انٹرویو میں چینل نے ان کے اہل خانہ کی گرفتاری، ان کے رہائشی مکان کی مسماری، ان کے والد کی مظاہرے میں شرکت اور اس میں ان کے رول، مسماری سے قبل قانونی نوٹس، ان کے اہل خانہ کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے حالات سمیت متعدد امور پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔اس انٹرویو میں جس طرح کی صحافت جھلکتی ہے اورحکومت کی اس کارروائی پر الجزیرہ نے جتنی بے خوفی کے ساتھ رپورٹنگ کی ہے وہ ہر صحافی کے ساتھ ساتھ ہر امن پسند شہری کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ چینل نے ان تمام الزامات کا بھی جائزہ لیا ہے جو جاوید محمد اور ان کے کنبہ پر یوگی حکومت نے پولیس کے ذریعہ سے عائد کی ہے۔ چینل نے اس کا نتیجہ بھی واضح انداز میں یہ کہہ کر نکالا ہے کہ اس واقعہ کے تمام پہلوؤں پر غور و خوض کیا گیا اورقانونی شقوں کے بارے میں تمام تر معلومات حاصل کی گئیں جس کے بعد یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اترپردیش کی حکومت نے اس وحشیانہ بلڈوزر کارروائی میں نہ تو طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیا ، نہ ہی قانون و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا، نہ ہی عدالت میں مقدمہ لے جانے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی اس مکان کے مالکانہ حقوق کے تعلق سے اطلاعات جمع کیں (کیوں کہ یہ مکان جاوید محمد کی اہلیہ کے نام پر ہے اور ان کی اہلیہ کو یہ مکان ان کی والدہ نے تحفتاً دیا تھا جس کا ٹیکس بھی بلا ناغہ ادا کیا گیا ہے اور سارے بلوں ، پانی اور بجلی وغیرہ کی بھی ادائیگی کی جا چکی ہے نیز جس زمین پر یہ گھر تعمیر ہوا ہے وہ ان کی آبائی جائیداد ہے۔ جاویدمحمد کا اس گھر پر کوئی قانونی حق نہیں ہے)۔ چینل نے یہ بھی رپورٹ کی ہے کہ ملزمین پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ طاقت کے نشے میں اندھی ہوجانے والی حکومت کی یہ جابرانہ کارروائی ہے جو ایک خاص طبقے کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے اور انہیں معاشرے میں حاشیے پر لانے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے کی گئی ہے۔چینل نے انٹرویو سے یہ بھی نتیجہ نکالا ہے کہ جاوید محمد کے خلاف کسی طرح کا وارنٹ جاری بھی کیا گیا، انہیں بھیجی جانے والی قانونی نوٹس بھی بہت جلد بازی میں تیار کی گئی اور رات کے اندھیرے میں نوٹس ان کے گھر پر چسپاں کیا گیا تاکہ ملزمین کو قانون کے تحفظ میں جانے کا کوئی موقع نہ ملے کیونکہ اگر معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو سب کچھ سامنے آ جاتا اور حکومت کے کھوکلے دلائل وہاں لمحے بھر بھی نہیں ٹک سکتے ۔ ان تمام حقائق سے واضح ہے کہ یہ ساری کارروائی ایک خاص نیت سے کی گئی ہے۔
خلیجی ممالک سے شائع ہونے والے سب سے بڑے اور معروف اخبار / ویب سائٹ ’العربیہ‘ نے بھی بھارت میں مسلمانوں کو بلڈوزر کا خوف دکھا کر کی جانے والی خوفناک سیاست کے تعلق سے بھر پور انداز میں رپورٹنگ کی ہے۔’العربیہ‘نے گذشتہ ماہ ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والےفرقہ وارانہ فسادات، رام نومی کے جلوسوں میں اشتعال انگیز نعروں اور ہتھیاروں کی نمائش، مساجد پر بھگوا جھنڈے کو لہرانے اور مسلم علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزبیانات دینے اور اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی اور انہیں ملزم بناکر ان کے گھروں کو مسمار کردینے کے واقعات پر خبریں شائع کی ہیں۔ ’العربیہ‘نے واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)جب سے اقتدار میں آئی ہے ، ملک گیر سطح پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ان کے مذہبی شعائر پر پابندیا ں عائد کرنے کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں اور مسلمانوں کو ملک میں چین سے نہ رہنے دینے کےلیے مسلسل پالیسیاں وضع کی جا رہی ہیں جس سے پورے ملک میں نفرت کی فضا بن گئی ہے اور مسلمان وہاں خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں۔ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں مسلمانوں پر زمین اور بھی تنگ کی جا رہی ہے۔ دوسری بار وزیراعلی کی کرسی پر براجمان ہونے والے ’بھگوا دھاری بابا‘یوگی آدتیہ ناتھ نے ملک کی آئین اور دستور کو طاق پر رکھ کر اور عدالتوں میں مقدمات کا تصفیہ کرائے جانے کے بجائے فوری طورپر فیصلے لینے کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی معاندانہ کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ پریاگ راج میں جاوید محمد کے مکان کی مسماری پر ’العربیہ‘ نے لکھا ہے کہ قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر (جبکہ ملزم کا قصور ابھی ثابت نہیں ہوا ہے)کی جانے والی کارروائی کو ’وحشیانہ کارروائی‘کے زمرے میں نہ رکھا جائے تو اسے اور کیا کہا جائے گا۔ ’العربیہ‘ نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہندوستان میں جمہوریت باقی نہیں ہے؟کیا وہاں حکومتیں ، عوام کے ذریعہ نہیں چنی جاتیں؟ کیا وہاں کے آئین میں ترمیم کردی گئی ہے کہ ایک خاص طبقے کے خلاف ہر طرح کی ظالمانہ کارروائی ’عین انصاف‘ہے؟ آخر یہ ملک کدھر جا رہا ہے اور یہ سلسلہ کب تھمے گا؟
ریاستہائے متحدہ امریکہ سے شائع ہونے والا اور پوری دنیا میں معتبرترین ذرائع ابلاغ کا ادارہ’نیو یارک ٹائمز‘ نے بھی بھارت میں رونما ہونے والے پے درپے واقعات پر کھل کر رپورٹنگ کی ہے۔ 11 جون، 2022 کو شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ میں ’نیو یارک ٹائمز‘ نے لکھا ہے کہ ہندتوا کی علمبردار سیاسی جماعت اور برسر اقتدار پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے جس طرح پہلے مسلمانوں کے جذبات مشتعل کیے (پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کے خلاف بدزبانی اور ان کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش اور اہانت)اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو ایک طبقے کے خلاف کر دیا گیا،ایسامحسوس ہوتا کہ ہے یہ محض اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت انجام دیا گیا ہے ۔ گرچہ بی جے پی نے اپنی ترجمان نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہے لیکن انہیں تحفظ فراہم کرکے ایک خاص طبقے کو بالواسطہ یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ’نیو یارک ٹائمز‘ نے اترپردیش کے پریاگ راج میں سماجی خدمتگار جاوید محمد کے خلاف قانونی کارروائی اوران کے گھر کی مسماری کو مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ حکومتی کارروائی قرار دیا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ جس طرح افرین فاطمہ اور ان کے اہل خانہ کو بغیر کسی وارنٹ کے حراست میں لیا گیا وہ حکومت کے خلاف پہلے کیے جانے والےان کےمظاہروں اور ریلیوں میں شرکت اور احتجاج میں حصہ لینے کی پاداش میں ہوئی ہے۔ سی اے اے مخالف مظاہروں، جے این یو میں نجیب کی گمشدگی کے لیے کیے جانے والے احتجاج اور دیگر مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی وجہ سے وہ حکومت کی نظر میں آگئی تھیں جس کی وجہ سے وہ انتقامی کارروائی کی زد میں آگئیں۔ رانچی میں ہونے والے مظاہرے میں مدثر عالم اورساحل انصاری کی پولیس گولیوں سے ہونے والی اموات پر بھی ’نیو یارک ٹائمز‘ نے سوال اٹھایا ہے کہ جھارکھنڈ کی حکومت نے جب پولیس کو مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کا حکم نہیں دیا تو اچانک ان بچوں کو کئی گولیاں کیسے لگ گئیں؟متعدد افراد زخمی کیسے ہوگئے؟کیا پولیس نے جان بوجھ کر مظاہرین کو نشانہ بنایا تاکہ مظاہروں کی شدت میں اضافے کو روکا جاسکے؟ پولیس کا کام لاء اینڈ آرڈر کا قیام ہے یا شہریوں پر نشانہ لگانا؟’نیو یارک ٹائمز‘ نے پرتشدد مظاہروں اور اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کارروائی پر فوٹو فیچر بھی شائع کیا ہے جس کا کیپشن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ تمام تصاویر بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹرز‘ اے پی اور اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔
امریکہ سے ہی شائع ہونے والے کثیر الاشاعت اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ نے بھی بھارت میں بلڈوزر کے ذریعہ کی جانے والی خوف کی نئی سیاست پر جو سرخی لگائی ہے وہ بہت ہی معنی خیز ہے۔ ’دی واشنگٹن پوسٹ‘نے اس خبر کی سرخی’ بھارت میں بلڈوزر ہندو قوم پرستی کی علامت کیسے بن گیا؟‘ لگائی ہے۔ جب کہ شہ سرخی میں اخبار نے لکھا ہے کہ ’ جیسے جیسے مذہبی کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ویسے ویسے حکمراں جماعت ( بی جے پی)نےمسلمانوں کی اکثریت والے محلوں میں انہدامی کارروائی تیز کردی ہے‘۔
’دی واشنگٹن پوسٹ‘نے بھارت میں سلسلہ وار طریقے سے ہونے والی بلڈوزر کی کارروائی پر اسپیشل اسٹوری کی ہے۔ اخبار نے شمال مشرقی دہلی کے جہانگیر پوری میں ہندوؤں کے ایک گروپ کی جانب سے نکالی گئی رام نومی کی ریلی کے بعد ہونے والے تشدد اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور مسلمانوں کے خلاف دہلی پولیس کے کریک ڈاؤن سے اپنی رپورٹ کی ابتدا کی ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ بھارت میں برسراقتدار ہندتواکی حامی حکومت نے دائیں بازو کی شدت پسند ہندو تنظیموں کو تو کھلے عام چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہیں دن کے اجالے میں کریں ، انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے لیکن اگر ان کی حرکتوں کے خلاف کوئی ایک طبقہ اعتراض کرتا ہے تو اسے نشان زد کرکے پہلے تو اس پر قانونی کارروائی کی جاتی ہے اور پھر اس کے گھرکو ملیامیٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہ بھارت میں اب عام ہوتا جا رہا ہے اورحکومتی ایجنسیوں کو اقلیتوں کے خلاف کارروائی کرنے کی پوری چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اب مقدمات کا تصفیہ عدالت کے فیصلوں پر منحصر نہیں ہے بلکہ بی جے پی کے زیراقتدار ریاست کے حکمران فیصلہ سازی میں راست طور پر دخل انداز ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ایک طبقے کے خلاف نفرت کا ماحول ہے اور اکثریتی طبقے کو جنونی بنانے میں حکومت خاموشی سے کام کر رہی ہے جس کا فائدہ بھی اسے ریاستی و دیگر انتخابات میں حاصل ہو رہا ہے۔ اخبار نے بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے زہر آلود اور مسلم منافرت پر مبنی بیان کو بھی شائع کیا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کے رہنما(مندروں اور مٹھوں کے مہنت، مذہبی شخصیات)کھلے عام مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے ہیں اور ان کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں ہوتی لیکن اگر ایک بھی مسلمان ملک کے کسی حصے میں ان واقعات کی مخالفت میں بولتا ہے تو اسے بد نام زمانہ قانون یو اے پی اے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے جرم میں فی الفور گرفتار کر لیا جاتا ہے اور پھر اس کی رہائی کو کافی مشکل بنا دیا جا تا ہے۔ اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں کو بنگلہ دیشی کا لیبل لگا کر بھی ہراساں کیا جا رہا ہے جبکہ وہ اور ان کے آباء و اجداد یہیں کے باشندے ہیں اور ان کے پاس قانونی دستاویزات بھی موجود ہیں۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ بلڈوزر کو قانون و انتظام نافذ کرنے والے آلے کی طرح دکھایا جا رہا ہے جو کسی جمہوری ملک کے لیے خطرناک ہے۔ مسلمانوں کو ان کے دینی شعائر اختیار کرنے پر بھی پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ اخبار نے مزید لکھا ہے مودی حکومت نے تین طلاق کی پریکٹس کو ختم کرنے کے لیے باضابطہ قانون بنا دیا ہے۔ کرناٹک میں مسلم بچیوں کو حجاب پہن کر اسکولوں اور کالجوں میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا ہے۔ سڑک کے کنارے لگے ان کے اسٹالز کو ہندو تنظیموں کے کارکنان بزور قوت بند کرا رہے ہیں۔کھلی جگہوں پر نماز جمعہ پڑھنے سے بھی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کو روکا گیا ہے۔ اخبار نے واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حکومت کی کارروائی سے ملک میں فی الوقت تو بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے اور اگر صورتحال یہی رہی تو اسے بدامنی میں تبدیل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت میں بلڈوزر کی سیاست پراپنا سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اس کے خصوصی نمائندہ آکارپٹیل نے ایک بیان میں کہا کہ ’’حکام چن چن کر اور بے رحمی سے ان مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں جو بولنے کی جرات کرتے ہیں۔انہیں اس وقت امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔طاقت کا بے تحاشا استعمال، من مانی گرفتاریاں اور تعزیری طورپر گھروں کے انہدام کے ساتھ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی ہے اور بھارت کے انسانی حقوق سے متعلق وعدوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے‘‘۔
ایمنسٹی نے حراست میں لیے گئے مظاہرین کی ’فوری اور غیرمشروط رہائی‘کامطالبہ کیا ہے۔پٹیل کا کہنا ہے کہ ’’یہ گرفتاریاں اورانہدامی کارروائیاںمسلمانوں کو نشانہ بنانے والی ریاستوں کے اقدامات میں تشویش ناک اضافے کا حصہ ہیں‘‘۔
مسٹر پٹیل نے واضح لفظوں میں اپنے بیان میں کہا ہےکہ 2014ء میں نریندرمودی کے برسراقتدارآنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیزظالمانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اورہندوقوم پرست، مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنا پرمعاندانہ کارروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کے خلاف حالیہ انتقامی کارروائیوں نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ماضی میں محض احتجاج کی پاداش میں لوگوں کے گھرمسمار نہیں کیے جاتے تھے لیکن اب، ہندو قوم پرست رہنماؤں کے اشارے پر احتجاج و مظاہروں میں پیش پیش رہنے والوں کے مکانات کو منہدم کیا جا رہا ہے اور کھلے عام اورکیمرے کے سامنے انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کوروٹین کا حصہ بناکر پیش کیا جا رہا ہے جو بہت خطرناک نتائج کا حامل ہوگا۔

 

***

 ’’ماضی میں محض احتجاج کی پاداش میں لوگوں کے گھرمسمار نہیں کیے جاتے تھے لیکن اب، ہندو قوم پرست رہنماؤں کے اشارے پر احتجاج و مظاہروں میں پیش پیش رہنے والوں کے مکانات کو منہدم کیا جا رہا ہے اور کھلے عام اورکیمرے کے سامنے انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کوروٹین کا حصہ بناکر پیش کیا جا رہا ہے جو بہت خطرناک نتائج کا حامل ہوگا۔‘‘(آکار پٹیل)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022