بڑھتی آبادی کا شوشہ اور ملک کا اصلمسئلہ
نسل نو کو باصلاحیت اور معاشی ترقی میں رول ادا کرنے کے قابل بنانے کی ضرورت
ابوعافیہ، حیدرآباد
ملک میں ایک مرتبہ پھر آبادی پر بحث چھڑ گئی ہے، اس بحث سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کا حکمراں جماعت کے نمائندوں کو جیسے سنہرا موقع ہاتھ لگ گیا ہے چناں چہ انہوں نے مسلمانوں پر آبادی بڑھانے کا الزام لگانا شروع کر دیا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اندر آبادی میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن وہ لوگ حسبِ عادت بغیر کسی اعداد و شمار اور بغیرکسی دلیل کے اپنے نفرت بھرے تیر مسلمانوں پر برسانے لگے۔
دنیا کا ترقی یافتہ ملک جاپان اس وقت آبادی کی کمی سے بے حد پریشان ہے۔ سال 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان کی آبادی میں پانچ لاکھ افراد کی کمی واقع ہوئی ہے، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے ممالک بڑھتی آبادی سے پریشان رہتے ہیں لیکن جاپان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ 2021 میں جاپان کی آبادی میں پانچ لاکھ کی کمی واقع ہوئی ہے، یہ ہمارے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیوں کہ ہمارا ملک کثیر آبادی والا ملک ہے لیکن جاپان جیسے چھوٹے ملک کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ اس کمی کا راست اثر اس کی معیشت پر پڑنے والا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب کسی ملک میں آبادی کم ہونے کا رجحان پیدا ہوتا ہے تو اس ملک میں نوجوانوں کی آبادی کم ہونے لگتی ہے۔ جاپان پہلے ہی سے عمر رسیدہ افراد پر مشتمل آبادی والا ملک ہے، اسی کے ساتھ یہاں پیدائش سے زیادہ مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایسی صورت حال میں اس کے ہاں آبادی کا کم ہونا اور بھی زیادہ تشویش ناک امر ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس ملک میں شرح پیدائش کم اور شرح اموات زیادہ ہوتی ہے اس ملک کی آبادی میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ جس ملک میں شرح پیدائش و شرح اموات برابر ہوں تو آبادی کا تناسب برابر رہتا ہے اور جس ملک میں شرح پیدائش زیادہ اور شرح اموات کم ہو تو وہاں کی آبادی بڑھتی رہتی ہے۔ جاپان کی پریشانی یہ ہے کہ وہاں شرح پیدائش کم ہے اور شرحِ اموات زیادہ، اس عدم توازن کا نتیجہ ہے کہ وہاں نوجوان نسل میں کمی واقع ہونی شروع ہو گئی ہے اور عمر رسیدہ لوگوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ جاپان کی صورت حال یہ ہے کہ وہ آہستہ آہستہ بیت المعمرین میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آبادی میں کمی کی وجہ سے کس طرح معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کام کرنے والا طبقہ جو زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں کمی ہوگی تو کام کرنے والوں کی تعداد میں بھی کمی ہو گی، دوسرے الفاظ میں کمانے والوں کی تعداد میں کمی ہو گی، کاریگر کم ہوں گے تو پیداوار میں بھی کمی واقع ہو گی نتیجے میں آمدنی میں بھی کمی واقع ہو گی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ نوجوان کم ہوں گے تو مال کی کھپت میں بھی کمی واقع ہو گی، اور جب کھپت میں کمی ہو گی تو طلب میں بھی کمی واقع ہو گی، اور جب شئے کی طلب میں کمی ہو گی تو اس کی قدر بھی گھٹ جائے گی جس سے معیشت پر برا اثر پڑتا ہے۔
جہاں کہیں بھی سن رسیدہ لوگوں کی کثرت ہو گی وہاں آمدنی کم ہو گی اور خرچ زیادہ ہو گا۔ ضعیفوں کی صحت پر، ان کے تحفظ پر اور دیگر چیزوں پر اخراجات میں اضافہ ہو گا نتیجے میں معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کے مسائل دنیا بھر میں دوسرے ترقی یافتہ ممالک جیسے جرمنی، آسٹریلیا، امریکہ، فرانس وغیرہ کو بھی لاحق ہیں لیکن ان ممالک نے اس کا حل یہ نکالا کہ ترقی پذیر ممالک یا غریب ممالک کے ماہر نوجوانوں کو اپنے ہاں کام کرنے کے مواقع فراہم کیے، بعض نوجوان ماہرین کو شہریت بھی دی۔ نتیجے میں آج مغربی ممالک میں تارکین وطن وہاں کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، نہ صرف معیشت بلکہ وہاں کی سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ میں ہندوستانی نژاد امریکی 40 لاکھ کے قریب ہیں اور یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔ ان لوگوں نے نہ صرف وہاں کی شہریت اختیار کر لی ہے بلکہ معیشت میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، کمانے کے ساتھ خرچ بھی کر رہے ہیں، کئی ماہرین نے تو سرمایہ کاری بھی کی ہوئی ہے جس سے وہاں کی معیشت مزید مضبوط اور مستحکم ہوئی ہے۔
اس کے برعکس جاپان میں تارکینِ وطن کے لیے قوانین بہت سخت ہیں، وہ دوسرے ملک کے عوام کو شہریت نہیں دیتے، کسی دوسرے ملک کا شہری وہاں مستقل سکونت اختیار نہیں کر سکتا۔ اس وقت جاپان کو یہی مسئلہ در پیش ہے کہ وہ آبادی کیسے بڑھائے کیوں کہ وہاں کے نوجوان شادی کرنا نہیں چاہتے، انہیں شادی کرنے بچے پیدا کرنے اور خاندان بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہاں کے سیاست داں سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ کس طرح اس پریشان کن صورتحال سے نکلا جائے۔ پہلے آبادی پر کنٹرول کے قوانین بنائے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ شادی سے ہی کترانے لگے، اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ ملک میں ہر طرف معمر حضرات نظر آتے ہیں۔
ہمارے ملک بھی حکومت آبادی پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے، اس کے سامنے فوری طور پر تو اس طرح کا مسئلہ درپیش نہیں ہے، لیکن جس طرح کا قانون جاپان نے اپنایا تھا اسی طرح کا قانون اگر ہمارا ملک بھی اپناتا ہے تو اسے بھی وہی مسئلہ درپیش ہو گا۔ مستقبل میں ہمیں بھی جاپان جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ وقت قریب ہے یا دور، بیس سال بعد آئے گا یا پچاس سال بعد ابھی نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ہمیں بھی یہ مسئلہ درپیش ہو گا۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 (2019 تا 2021) کے مطابق پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں شرح پیدائش میں گراوٹ آئی ہے جو پہلے برابری پر ہوا کرتی تھی یعنی شرحِ پیدائش و شرح اموات مساوی تھے، لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ شرحِ پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں ایک عورت دو بچے یا ایک بچہ جنم دے رہی ہے، اس سے پہلے اعداد و شمار مستحکم تھے، یعنی شرح پیدائش 2.1 فیصد ہوتی تھی، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والوں کی تعداد اور مرنے والوں کی تعداد مساوی ہوتی ہے۔ لیکن اب یہ فیصد کم ہو کر 2.0 سے بھی کم رہ گیا ہے یعنی پیدا ہونے والوں کی تعداد مرنے والوں کی تعداد برابر نہیں رہی اور شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے ملک میں بھی مستقبل قریب میں جاپان جیسی صورت حال پیدا ہو گی۔ شرح پیدائش کم ہو گی تو آہستہ آہستہ نوجوان نسل میں بھی کمی واقع ہو گی، بالآخر ہمارا ملک بھی بیت المعمرین کی صف میں شامل ہوجائے گا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اس طرح کے مسائل پیدا نہ ہوں تو ہمیں چاہیے کہ آبادی پر کنٹرول کرنے والے قوانین بنانے کے بجائے نوجوان نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی مہارت سے لیس کروائیں تاکہ ہمارا ملک معاشی طور پر مستحکم ہو۔ ہمیں چاہیے کہ نوجوان نسل کو بہتر سے بہتر تعلیم سے آراستہ کریں، صحت مند زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں، مذہبی منافرت پھیلانے کے بجائے انہیں فنی ماہرین بننے کے راستے بتائیں، انہیں ذات پات کے جھگڑوں میں الجھانے کے بجائے معیشت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے والا بنائیں، تب ہی ہمار ملک معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مستحکم بن سکتا ہے۔
***
آبادی پر کنٹرول کرنے والے قوانین بنانے کے بجائے نوجوان نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی مہارت سے لیس کروائیں تاکہ ہمارا ملک معاشی طور پر مستحکم ہو۔ نوجوان نسل کو بہتر سے بہتر تعلیم سے آراستہ کریں، صحت مند زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں، مذہبی منافرت پھیلانے کے بجائے انہیں فنی ماہرین بننے کے راستے بتائیں، انہیں ذات پات کے جھگڑوں میں الجھانے کے بجائے معیشت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے والا بنائیں، تب ہی ہمار ملک معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مستحکم بن سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 جولائی تا 30 جولائی 2022