بچوں سے باتیں!

پیارے بچو! کورونا وائرس (Covid-19) کی بڑھتی ہوئی دہشت کے پیش نظر اکثر اسکولوں کو اچانک تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ یوں آپ کو چھٹیوں سے پہلے چھٹیاں مل گئی ہیں۔ چھٹی کا مطلب ہوتا ہے فراغت یعنی فرصت ہی فرصت۔ لیکن آپ لوگ ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔ تم نے یہ محاورہ سنا ہوگا کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔ تو جو لوگ وقت کو برباد کرتے ہیں، وقت انہیں برباد کرتا ہے۔ ہمارے پیارے نبیﷺنے وقت کی اہمیت اور اس کے صحیح استعمال پر بے حد زور دیا ہے۔ آنحضرت صلعم کی ایک مشہور حدیث ہے۔’’پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو!
اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے
اپنی صحت کو بیماری سے پہلے
اپنی مالداری کو تنگدستی سے پہلے
اپنی فراغت کو مشغولیت سے پہلے اور
اپنی زندگی کو موت سے پہلے (ترمذی شریف)
بچو! آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ اسلام ہم کو ڈسپلن سکھاتا ہے اور وقت کے صحیح استعمال میں ڈسپلن کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اب آپ نماز ہی کو لیں، نماز جہاں آپ کو ہمیشہ اللہ کی بندگی میں بندھے رہنے کا سبق بار بار یاد دلاتی ہے وہیں یہ آپ کو وقت کی پابندی بھی سکھاتی ہے۔ اگر آپ اپنے ہر کام کو متعینہ وقت میں کریں گے تو اس کا آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ اسی لیے آپ اپنا ایک شیڈول بنالیں۔ سونے، جاگنے، کھانے، کھیلنے اور تعلیم کے اوقات مقرر کرلیں۔ امید ہے کہ آپ ان پر عمل کریں گے۔ اس صفحہ کی باقی چیزیں پڑھنے سے پہلے اس شعر پر تھوڑا سا غور کریں۔ شاعر نے کتنی خوبصورت اور کام کی بات کہی ہے ؎
جس قوم کے بچے نہ ہوں خود دار و ہنر مند
اس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو
عقاب
پیارے بچو! اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں بے شمار مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔ ہمارے ذہن اللہ کی اس قدرت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ وہ ایسا عظیم خالق ہے کہ اس نے اپنی ہر مخلوق کے اندر کوئی نہ کوئی الگ نوعیت کی خصوصیت رکھی ہے۔ آئیے! آج ہم بات کرتے ہیں عقاب کی۔ عقاب ایک گوشت خور پرندہ ہے۔ اس کی عمر 70 سال کے قریب ہوتی ہے۔ اس عمر تک پہنچنے کے لیے اسے سخت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب اس کی عمر چالیس سال ہوتی ہے تو اس کے پنجے کُند ہو جاتے ہیں جس سے وہ شکار نہیں کر پاتا۔ اسی طرح اس کی مضبوط چونچ بھی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ٹیڑھی ہونے لگتی ہے۔ اس کے پَر جس سے وہ اڑان بھرتا ہے بہت بھاری ہو جاتے ہیں اور اس کے سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے اسے اڑنے میں بے حد مشکل پیش آتی ہے۔ اس مرحلے میں اس کے سامنے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو وہ موت کو تسلیم کر لے یا پھر150 دن کی سخت ترین مشقت کے لیے تیار ہو جائے۔ چنانچہ وہ پہاڑوں میں چلا جاتا ہے اور سب سے پہلے اپنی چونچ کو پتھروں پہ مارتا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ کچھ دن بعد جب نئی چونچ نکلتی ہے تو وہ اس سے اپنے سارے ناخن جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ پھر جب اس کے نئے ناخن نکل آتے ہیں تو وہ چونچ اور ناخن سے اپنا ایک ایک بال نوچ کر پھینک دیتا ہے جس کے بعد اس کے نئے بال وپر نکل آتے ہیں۔ اس سارے عمل میں اسے پانچ ماہ کی طویل مشقت سے گزرنا پڑتا ہے۔ پانچ ماہ بعد جب وہ اڑان بھرتا ہے تو گویا وہ دوبارہ نوجوان عقاب بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ تیس سال مزید زندہ رہ پاتا ہے۔ عقاب کی یہی وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے اسے پرندوں کی دنیا کا سب سے جفا کش پرندہ کہا جاتا ہے۔ مشکل حالات میں حوصلوں کو ٹوٹنے نہیں دینا کوئی اس پرندے سے سیکھے۔ اسی لیے علامہ اقبال نوجوانوں میں عقابی روح دیکھنا چاہتے تھے جیسا کہ ان کا شعر ہے:
عقابی روح جب پیدا ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
محمد صدیق،حیدرآباد