بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی سے قانون کی بالادستی مفلوج ہوگی

تعلیم کے فروغ میں مدارس کا مثبت رول ۔ سیاسی مفاد کے لیے بدنام نہ کیا جائے: جماعت اسلامی ہند

نئی دلی (دعوت نیوز ڈیسک)

’’بلقیس بانو کی عصمت دری اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے مجرموں کی رہائی اور گجرات حکومت کا اس رہائی میں کلیدی کردار ادا کرنا، ایک انتہائی شرمناک عمل ہے۔ ’عام معافی‘ کی آڑ میں کیا جانے والا یہ فیصلہ مجرموں کا حوصلہ اور بڑھائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ان گھناؤنے مجرموں کی عزت افزائی کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خواتین کی جانب سے صدر جمہوریہ ہند سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے توسط سے گجرات کی حکومت کو اس فیصلے کو واپس لینے کی ہدایات جاری کریں۔‘‘ یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے جماعت کی جانب سے مرکز، نئی دہلی میں منعقدہ کانفرنس میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ملک کے سنجیدہ شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ غریب طبقے میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ خود کشی کرنے والوں میں سیلف ایمپلائیڈ، (کاروباری طبقہ) طلباء، کسان اور زرعی مزدوروں کی تعداد زیادہ ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں نے سب سے زیادہ خود کشیاں کی ہیں جو انتہائی تشویش کی بات ہے۔ اگر ایس سیز اور ایس ٹیز پر ہونے والے مظالم کی بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق ریاست اتر پردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش، بہار اور اڑیسہ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی ان پر سب سے زیادہ مظالم ہوئے ہیں“۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ملک کی مختلف عدالتوں میں کروڑوں مقدمات زیر تصفیہ ہیں۔ انصاف میں تاخیر، انصاف ملنے سے محرومی کا سبب بنتی ہے۔ اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں میں 4.70 کروڑ سے زیادہ مقدمات زیر دوراں ہیں“۔ زرعی بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میڈیا کی رپورٹ کے مطابق زراعت کے شعبے میں روزانہ تقریباً 30 افراد خود کشی کرتے ہیں۔ کسانوں کو ایم ایس پی نہیں ملتا۔ وہ معاشی تنگی کے سبب زراعت کے لیے مطلوبہ لازمی اشیاء خریدنے سے قاصر رہتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کی معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لیے انہیں بلا سودی قرض فراہم کرے اور مستحق و پسماندہ کسانوں کے قرضوں کو معاف کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ”آسام یا دیگر ریاستوں میں مدارس کے خلاف انتقامی کارروائی یا انہیں بند کرنا غلط ہے۔ کچھ مدارس فرضی ہو سکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام مدارس کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا جائے جبکہ تعلیم کے فروغ میں مدرسوں کا مثبت کردار نوٹ کیا گیا ہے۔ ان مدارس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ حکومت کی کسی بھی طرح کی امداد کے بغیر غریب و نادار طلباء کو تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔ آج کل بیشتر مدارس میں عصری علوم کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور ان کی ڈگریوں کو کئی یونیورسٹیز تسلیم کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں مدارس کو بدنام کرنا سیاسی مفاد کے لیے ہی ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند ویمن ونگ کی نیشنل سکریٹری محترمہ عطیہ صدیقہ نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ”وزیر اعظم 15 اگست کو خواتین کی عزت و وقار اور ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے جانے کے خلاف اپنے سخت لب و لہجے کا اظہار کر رہے تھے اور اسی دن ایک خاتون کی عصمت دری کرنے اور اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والوں کی رہائی کا اعلان کیا جا رہا تھا۔اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حکومت خواتین کے تحفظ کے تئیں مخلص نہیں ہے۔ گجرات کی حکومت نے مجرموں کی رہائی کو یقینی بنانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ سب سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے جرائم کرنے والوں کا حوصلہ مزید بڑھے گا اور قانون کی بالادستی بے اثر ہو جائے گی۔ ’عام معافی‘ کا اطلاق چھوٹے جرائم کے سبب جیلوں میں بند مجرمین پر ہونا چاہیے نہ کہ عصمت دری اور قتل جیسے سنگین جرائم انجام دینے والوں پر؟
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022