اسد مرزا
ملک تکثیری سماج کی شناخت کھودینے کے درپے
برطانیہ کی کنزرویٹو حکومت نے ایک نیا شہریت بل ہاؤس آف کامنس میں پاس کروایا ہے جس کی تشبیہ ایسے کالے قانونوں سے بھی کی جاسکتی ہے جو اس نے مختلف ممالک میں اپنے استعماریت کے دور میں لاگو کیے تھے۔
بورس جانسن کی قیادت میں برطانیہ کی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی جو حالیہ دنوں میں کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدام نہ کرنے کے لیے لگاتار تنقید کا نشانہ بنی ہے اور ہاؤس آف کامن میں اس کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد وہ صرف چند ووٹوں سے ہی جیت پائی تھی، اب اس نے چپ چاپ طریقے سے ایک نئے شہریت ترمیمی بل کو ہاؤس آف کامنس میں صرف دو مرتبہ بحث کے بعد بل کو پاس کروالیا ہے۔
اس نئے بل کو مرتب کروانے اور اسے پاس کروانے میں کلیدی رول ادا کرنے والی برطانیہ کی وزیر داخلہ محترمہ پریتی پٹیل ہیں جو خود ہندوستانی نژاد ہیں اور اپنے والدین کے ہم راہ تقریباً 40-50 سال پہلے کینیا سے برطانیہ آئی تھیں۔ ہاؤس آف کامنس میں بل کی منظوری ملنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت خوش ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اب ناپسندیدہ یا شدت پسند عناصر کو برطانیہ میں داخلہ آسانی سے نہیں مل سکے گا۔
حزب اختلاف اور حقوقِ انسانی کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس بل کی سب سے خطرناک اور متنازعہ شق وہ ہے جس کے مطابق برطانیہ میں مقیم لوگوں کی شہریت بھی ان کو اطلاع دیے بغیر منسوخ کی جاسکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس شق سے تقریباً 60لاکھ افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ اور غالباً اس زمرے میں خود پریتی پٹیل بھی آسکتی ہیں اگر ان کے والدین نے اپنا پرانا ہندوستانی اور کینیا کا پاسپورٹ رد نہ کروایا ہو۔
کنزرویٹو پارٹی کا کہنا ہے کہ اس نے سمندر کے راستے آنے والے پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور برطانیہ میں سیاسی پناہ (Asylum)حاصل کرنے والوں کی تعداد پر روک لگانے کے لیے اس بل کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ بل کے مطابق اب برطانوی سرحدی محافظوں اور پولیس کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ سمندر کے راستے آنے والے پناہ گزینوں کو خاص طور پر مختلف اسلامی ملکوں سے آنے والے مسلمان پناہ گزینوں کو، سمندر میں ہی روک کر انہیں کسی تیسرے ملک بھیجنے کے مختار ہوں گے۔ اس تیسرے ملک کا تعین بھی وزیر داخلہ ہی کریں گی۔ پریتی پٹیل کا کہنا ہے کہ اس بل کے ذریعہ غیر قانونی مہاجرین اور تارکین وطن کو برطانیہ میں داخلے کے لیے بغیر پوری معلومات حکومت کو مہیا کرائے بغیر اب ممکن نہیں ہوگا اور اس بل کے ذریعہ ہم ان سب قانونی شقوں اور قوانین کو ختم کرنے میں کامیاب رہیں گے جو اب تک نافذ تھے اور جن کا استعمال کرنے کی وجہ سے برطانیہ میں مہاجرین کی تعداد کافی بڑھتی چلی جارہی تھی۔
اب تک تارکین وطن یا سمندری مہاجرین کو برطانیہ میں داخلے کے بعد مخصوص سنٹرس میں رکھا جاتا تھا اور ان کے کیس پر وزارتِ داخلہ فیصلہ لیتی تھی۔ لیکن اب انہیں یہ حق حاصل نہیں ہوگا، بلکہ اگر کوئی تارکین وطن ہوائی سفر کے بعد برطانوی ایئرپورٹ پر سیاسی پناہ کی اجازت مانگتا ہے تو اسے فوراً گرفتار کرکے جیل بھیجا جاسکتا ہے اور اس پرمالی جرمانہ اور قید دونوں لگائے جاسکتے ہیں۔
ابھی تک یہ طریقہ قاعدے سے چل رہا تھا لیکن اب اس نئے بل کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہونے والا گروپ ان مہاجرین اور پناہ گزینوں کا رہے گا جو سمندر کے راستے برطانیہ میں داخل ہوسکتے تھے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ برطانیہ میں یہ بل اس لیے لایا گیا اور اس لیے اسے کامیابی ملی کہ بریگزیٹ کے بعد برطانیہ پر یوروپی یونین کے قوانین کو ماننے کی پابندی ختم ہوگئی ہے جو اس بل کے مقابلے میں کافی نرم تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ مجموعی طور پر پوری کنزرویٹو پارٹی اس بل کے حق میں ہے۔ سابق وزیر قانون ڈیوڈ ڈیویس نے موجودہ شہریوں کی شہریت ختم کرنے کی شق کو ’غیر انسانی‘ اور ’قانونی طور پر غلط‘ قرار دیا ہے۔ مسٹر ڈیویس کا کہنا ہے کہ شق 9 میں جس ترمیم کا ذکر کیا گیا ہے اس کے ذریعہ وزیر داخلہ کبھی بھی کسی کی بھی اس کو مطلع کیے بغیر شہریت ختم کرسکتی ہیں۔
دراصل ابھی بھی برطانوی قانون میں ایسی دفعات موجود ہیں جن کے ذریعے کسی کی بھی شہریت منسوخ کی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے پورا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ پہلے تو حکومت کو یہ یقینی بنانا اور ثابت کرنا ہو گا کہ وہ شخص دہشت گردانہ یا جنگی جرائم میں ملوث رہا ہے یا پھر اس نے غلط معلومات حکومت کو فراہم کرکے برطانوی شہریت حاصل کی ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی حکومت پر لازم ہے کہ وہ پہلے اس شخص کو اپنے فیصلے کی بابت قانونی طور پر مطلع کرے تاکہ وہ شخص اپنے بچاؤ میں قانونی چارہ جوئی کرسکے، لیکن نئے بل کی شق نمبر9کے مطابق اب حکومت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اگر وہ شخص برطانیہ میں موجود نہ ہو تب بھی اس کی شہریت ختم کی جاسکتی ہے اور اس قانونی کارروائی کا علم اسے برطانیہ واپسی پر ایئرپورٹ پر ہوگا جہاں اسے گرفتار کرکے جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ بل جس کو ہاؤس آف کامنس میں منظوری کے لیے جولائی میں بھیجا گیا تھا اس میں پریتی پٹیل نے خفیہ طریقے سے یہ شق شامل کروادی تھی۔
سن 1981ء کے برطانوی شہریت قانون کے مطابق جس کسی کے بھی خلاف شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے، اسے وزیر داخلہ کی جانب سے ایک نوٹس موصول ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنے دفاع میں قانونی کاوش کرسکے، لیکن اب اس نئی شق کی بنیاد پر وزیر داخلہ کو لامحدود اختیارات حاصل ہوگئے ہیں اور وہ اس معاملے میں کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں۔
حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بل پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ بل قانونی شکل اختیار کرلیتا ہے تو پھر پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کے راستے میں ایک بڑے پہاڑ جیسی رکاوٹ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بل عالمی پناہ گزیں کنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ ساتھ ہی برطانیہ کے معروف امیگریشن وکلا کی ایک ٹیم نے کہا ہے کہ یہ بل مختلف عالمی اور داخلی قوانین کی دس نکات پر خلاف ورزی کرتا ہے اور اس نے اس معاملے پر حکومت پرجارحانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ اس کے علاوہ برٹش لا سوسائٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں حکومت سے سفارش کی ہے کہ وہ یا تو اس متنازعہ بل کو واپس لے لے یا پھر اس کی ان شقوں کو ختم کرے جو کہ عالمی قوانین، پناہ گزینوں کے حقوق اور قانونی جارہ جوئی کرنے والے پناہ گزینوں اور ان کے وکلا کے خلاف جاتے ہیں۔
مجموعی طور پر تاثر یہی قائم ہوتا ہے کہ برطانیہ جو ابھی تک اپنی تکثیری سماج کو ایک شو پیس کی طرح پیش کرتا تھا جہاں مختلف قوموں اور نسلوں کو اپنی پیشہ وارانہ صلاحیت کے مطابق جانا جاتا تھا اور نسلی امتیاز جہاں پہلے کی بہ نسبت کم ہو رہا تھا وہ سب باتیں اب ایک خواب معلوم ہوں گی۔ لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب برطانیہ میں مہاجروں کی تعداد کم ہوجائے گی تو وہ کام کون کرے گا جو کہ زیادہ تر مہاجرین کم پیسوں اور سہولتوں کے بغیر کرتے چلے آرہے تھے کیونکہ برطانوی شہری تو ان کاموں کو کرنا اپنی بے عزتی سمجھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اگر برطانیہ میں مہاجر کم ہوجاتے ہیں تو آج جو نظارے آپ کو ایک تکثیری سماج کے نظر آتے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ برطانیہ اپنے متحرک کثیر النسل سماج سے بدل کر ایک بند سماج میں تبدیل ہوجائے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com
***
***
بل کے مطابق اب برطانوی سرحدی محافظوں اور پولیس کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ سمندر کے راستے آنے والے پناہ گزینوں کو خاص طور پر مختلف اسلامی ملکوں سے آنے والے مسلمان پناہ گزینوں کو، سمندر میں ہی روک کر انہیں کسی تیسرے ملک بھیجنے کے مختار ہوں گے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 دسمبر تا 1 جنوری 2021