بد حال معیشت کمر توڑ مہنگائی

پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کا ہر شعبہ پر اثر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

کورونا قہر نے عالی سطح پر معاشی اور طبی بحران ہی پیدا نہیں کیا بلکہ ہر طرف کہرام مچا دیا۔ اس نے ہمارے ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار کو تقریباً ایک چوتھائی سکڑنے پر مجبور کر دیا۔ دوسری اور تیسری سہ ماہی میں بھی جی ڈی پی میں تنزلی ہی دکھا رہی ہے۔ کورونا وبا کے بعد معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے واضح اشارے ملنے لگے ہیں لیکن آمدنی اور بچت کے لیے عام افراد کی جدوجہد جاری ہے کیونکہ کمر توڑ مہنگائی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ گھریلو گیس ایل پی جی کے سلنڈر کی قیمت میں 50 روپے کا یکبارگی اضافہ ہوا ہے۔ اسی ماہ میں 4 فروری کو 25 روپیے کا اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیوں میں مسلسل اچھال تشویشناک ہے کیونکہ انڈین آئیل کے ویب سائٹس کے مطابق دلی، کولکاتا، ممبئی اور چینئی میں پٹرول کی قیمت بالترتیب 88.99 روپے۔ 90.25روپے، 95.46 روپے اور 91.19 روپے اور ڈیزل کی قیمت بالترتیب 79.35 روپے، 82.94 روپے، 86.34 روپے اور 84.44 روپے ہوگئی ہے۔ بھوپال اور کچھ شہروں میں پٹرول 100روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ اس طرح گزشتہ ایک سال میں پٹرول کی قیمت میں 18 روپے کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیوں میں بے تحاشہ اضافہ سے مہنگائی میں اضافہ لازمی ہے اور اس کا براہ راست اثر خواص وعوام پر پڑنا ضروری ہے۔ غریب اور حاشیے پر پڑے لوگوں پر اس کی مار زیادہ ہی ہوتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن پارٹیاں پٹرول اور ڈیزل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں میں کمی کے لیے اکسائز ڈیوٹی کی کٹوتی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ قیمتوں کو قابو میں کرنے کے بجائے حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر علی الترتیب 4 روپے اور 2.50 روپے کا سیس لگا دیا ہے جس سے قیمتوں میں مزید اچھال آ گیا۔ حال یہ ہے کہ معیشت میں طلب اب بھی نہیں بڑھی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمت کی مخالفت میں ملک کے کچھ حصوں میں بند کی بھی اپیل کی گئی۔ فی الوقت ملک میں خوردنی خسارہ کا دباو ملکی معیشت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔ ایندھن کی قیمتوں کے بلندی کو چھوتے رہنے سے اس کا اثر خوردہ اور ہول سیل بازار پر پڑے گا ہی جس سے خریداروں کو بڑی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کور انفلیشن (اس میں خوردنی اشیا اور ایندھن شامل نہیں ہے ) کا احاطہ اشیاء کی طرح خدمات کی لاگت و درآمدات کے متبادل کے ذرائع سے نہیں کیا جا سکتا۔ اکثر مشاہدہ میں آتا ہے کہ طلب کی کمی کا اثر قیمتوں کی کمی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے بھی بڑی اور چھوٹی صنعتوں کے درمیان فرق عیاں ہوتا ہے۔ ویسے قیمتوں کو قابو میں کرنے کی طاقت کی وجہ سے کور انفلیشن میں اضافہ ہو جاتا ہے کور انفلیشن کے دباو کا اندازہ آر بی آئی کو بھی ہے۔ ایسے میں آر بی آئی مالی سال 2022 میں ہیڈ لائن انفلیشن 5 تا 6 فیصد رہنے کی توقع رکھتا ہے۔
ہول سیل مہنگائی کی شرح میں جنوری میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوری 2021 میں تھوک قیمت کی بنیاد پر مہنگائی بڑھ کر 2.03 فیصد ہو گئی ہے۔ مینوفیکچرنگ پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے تھوک مہنگائی میں زیادتی ہوئی۔ حالانکہ خوردنی اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔
دسمبر 2020 میں تھوک مہنگائی (WPI Inflation)
1.22 فیصد تھی جبکہ جنوری 2020 میں ہول سیل مہنگائی 3.32 فیصد تھی۔ جنوری میں غیر خوردنی اشیاء 9.16 فیصد رہی۔ آر بی آئی نے 5 فروری کو اپنے مالیاتی پالیسی کمیٹی کی چوتھی نشست میں اصل شرح سود کو مستقل رکھا۔ مرکزی بینک نے کہا ہے کہ مستقبل قریب میں مالی خسارہ کا نظریہ موافق ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جاری کیے گئے ایک اعداد وشمار کے مطابق مہنگائی جنوری میں 4.06 فیصد رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں لاک ڈاون کی وجہ سے ٹرینیں اور لوگوں کی آمد ورفت کا نظام بالکل ہی ٹھپ پڑگیا ہے جس سے ملک کا سپلائی چین تباہ ہوگیا جس کا سب سے زیادہ اثر چھوٹی صنعتوں پر ہوا۔ چھوٹے اور متوسط صنعتوں کو دوبارہ بحال کرنے سے ہی سپلائی بہتر ہو گی۔ اس لیے حکومت کے لیے آئندہ معیشت میں بہتری کے ساتھ ساتھ مہنگائی پر قابو پانا آسان نہیں ہو گا۔ محکمہ شماریات کے سابق سربراہ پرنب سوئین نے کہا کہ مالی خسارہ جاریہ مالی سال 3.50 سے بڑھ کر 9.5 فیصد ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مالی خسارہ میں بڑھوتری سپلائی شعبے سے ہو رہی ہے نہ کہ طلب کے شعبے سے۔ اس سے بھی مہنگائی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔
دوسری طرف منصوبہ کے بغیر اور جلد بازی میں کیے گئے لاک ڈاون کی وجہ سے بڑی تعداد میں مزدوروں اور محنت کشوں کو اپنے اپنے آبائی گاوؤں کو لوٹنا پڑا تھا۔ بڑی کسمپرسی کی حالت میں مہاجر مزدور بھوکے پیاسے، مرتے جیتے اپنے گھروں کو لوٹے تھے۔ لگ بھگ 200 سے زائد مزدوروں نے ٹرین اور بس سرویس کے بند ہو جانے کی وجہ سے سینکڑوں میل کا سفر پیدل چلتے ہوئے دم توڑ دیا تھا۔ کچھ سڑک حادثات کا شکار ہوگئے اور کچھ نے ٹرین سے کٹ کر جان دے دی۔ ادھر معاشی سستی کی شکار معیشت کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ روزگار کے فقدان کی وجہ سے ان محنت کشوں کا شہروں میں دوبارہ لوٹنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ تقریباً ایک کروڑ محنت کش مزدور اپنے گھروں کو لوٹے تھے۔ لیکن لاک ڈاون کے ختم ہوتے ہی پیداوار، تعمیر اور کاروبار کے زور پکڑنے سے روزگار کے مواقع ازسر نو بڑھنے لگے۔ مرکزی وزیر محنت اور روزگار سنتوش کمار گنگواڑ نے پارلیمنٹ میں جانکاری دی ہے کہ زیادہ تر کام کے متلاشی مزدور اپنے سابقہ جگہوں پر لوٹ آئے ہیں اور انہیں کام بھی مل رہا ہے۔ یقیناً یہ ہمت افزا صورتحال ہے۔ چند ماہ سے معاشی ترقی کی شرح میں بہتری آرہی ہے۔ مختلف اعداد وشمار ظاہر کر رہے ہیں کہ معیشت جلد ہی ماقبل کورونا وبا کی حالت میں آجائے گی۔ بھارت میں 10 کروڑ محنت کش منظم شعبوں سے منسلک ہیں۔ اور 40 کروڑ افراد غیر منظم شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ دنیا کے سخت ترین لاک ڈاون اور معیشت میں تنزلی کی مار غیر منظم شعبوں پر ہی پڑی ہے مگر منظم شعبوں کی صحت بھی اچھی نہیں رہی۔ وہاں بھی نوکریاں گھٹی ہیں چند ماہ سے بے روزگاری کی شرح میں کمی ضرور آئی ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ روزگار ملنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ حکومت بھی غیر منظم شعبوں کے محنت کشوں کو منظم شعبوں سے جوڑنے کے لیے سرگرداں ہے۔ ساتھ ہی چھوٹے، خود روزگار (Self employed) اور گاہے بہ گاہے مزدوری سے روزی روٹی کمانے والے افراد کو پنشن، بیمہ اور دیگر فلاحی اسکیموں سے منسلک کرنے کی سمت میں بھی کام ہو رہا ہے۔ ایسے محنت کش لوگ بہت کم اجرت اور بلا سماجی سلامتی کے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر ہماری معیشت کی ترقی کا دار ومدار انہیں کے کندھوں پر ہے۔ منظم شعبے بھی اپنے پیداوار اور تقسیم کے لیے انہیں غیر منظم شبعوں پر تکیہ کرتے ہیں ایسے حالات میں ان کے فلاح کے لیے اچھی اسکیموں اور منضبط منصوبوں کی ضرورت ہے۔ کورونا قہر کے دوران حکومت نے بھی راحت رسانی کے لیے دیہی روزگار بڑھانے کی کوشش کی تھی تاکہ گھر لوٹے مزدوروں کو ان کے آبائی گاوں یا قریب ہی میں کام مل سکے۔ توقع ہے کہ روزگار یوجنا کے ساتھ زندگی، ہنر اور قرض کی فراہمی سے دیہی علاقوں میں معیشی بہتری آئے گی۔ اس سے مجبوری سے ہجرت کرنے والوں کو روکنے میں مدد ملے گی۔ منریگا کی اسکیم جس کا جملہ باز پردھان سیوک ہمیشہ مذاق اڑایا کرتے تھے 6 ماہ ہو گئے لاک ڈاون کو ختم ہوتے ہوئے منریگا کی مانگ لگاتار بڑھتی جا رہی ہے۔ 2 کروڑ سے زائد خاندان ہر ماہ منریگا سے جڑ رہے ہیں۔ دسمبر اور جنوری 2021 میں ان کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی اگست اور ستمبر کے کووڈ-19 کے شباب کے زمانہ میں تھی۔ کل ملا کر 7 کروڑ 17 لاکھ کنبے یعنی 10 کروڑ 51 لاکھ لوگوں نے اپنی روزی روٹی منریگا ہی سے کمائی ہے۔ یکم اپریل 2020 سے 17 فروری 2001 تک- لے دے کر منریگا ہی پر منحصر کرنا تھا تو چھوٹی صنعتیں کہاں گئیں؟ اسٹارٹ اپس کہاں گئے اسٹینڈ اپ انڈیا، اسکل انڈیا، میڈ ان انڈیا کہاں گیا؟ آخر منریگا ہی کام آیا جسے گڑھا کھودنے والی اسکیم بتایا گیا تھا۔ کچھ علاقوں میں مہاجر مزدوروں کے جلد نہیں لوٹنے سے کاروبار پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ان مزدوروں میں کئی اپنے کام میں اچھا تجربہ رکھتے ہیں۔ گجرات، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، تمل ناڈو اور آندھراپردیش سے پھل اور متعلقہ پیداوار بڑے پیمانہ پر برآمد کی جاتی ہے۔ فی الحال 30 فیصد محنت کشوں کے نہیں لوٹنے سے کاروبار میں تنزلی کا اندیشہ ہے جس سے جاریہ مالی سال بڑی پریشانی میں گزر رہا ہے۔
***

مالی خسارہ جاریہ مالی سال 3.50 سے بڑھ کر 9.5 فیصد ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مالی خسارہ میں بڑھوتری سپلائی شعبے سے ہو رہی ہے نہ کہ طلب کے شعبے سے۔ اس سے بھی مہنگائی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔
(پرنب سوئین)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021