بدلہ
مائل خیر آبادی
ہندوستان میں شیر شاہ نام کا ایک بادشاہ گزرا ہے جس کے احسان کو ہندوستان کے لوگ رہتی دنیا تک نہ بھولیں گے۔ وہ بڑا بہادر، نہایت سمجھ دار، انصاف پسند اور منتظم بادشاہ ہوا ہے۔ اس نے رعایا کی بھلائی کے لیے بڑے بڑے کام کیے اور ایسے قانون بنائے گئے کہ آج تک یہاں کی حکومت ان سے فائدہ اٹھارہی ہے۔ انصاف کرنے میں تو اس کا یہ حال تھا کہ اس کے بیٹے بھی اس سے کانپا کرتے تھے۔
ایک بار اس کا بیٹا عاقل خان ہاتھی پر سوار جارہا تھا۔ راستے میں ایک بنیے کا گھر پڑا۔ بنیے کے گھر کی دیواریں نیچی تھیں۔ بنیے کی بیوی اس وقت نہارہی تھی، شہزادے نے اسے دیکھا تو شرارت سوجھی۔ اس نے پان کی گلوری عورت پر پھینکی اور ہنستا ہوا چلاگیا۔گلوری عورت پر گری تو اس نے اوپر دیکھا۔ ہاتھی پر شہزادے کو دیکھ کر وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ شرم کے مارے اس نے چاہا کہ چھری سے اپنا خاتمہ کرلے کہ بنیے نے روکا، کہا ’’گھبرانے کی بات نہیں میں بادشاہ کے پاس جاتا ہوں۔ بادشاہ بڑا خدا ترس اور رعایا پرور ہے انصاف کے معاملے میں وہ کسی کی رعایت نہیں کرتا۔ میں ابھی اپنی بے عزتی کا بدلہ شہزادے سے لیتا ہوں۔
بیوی کو سمجھا بجھا کر بنیے نے بادشاہ سے فریاد کی۔ شہزادے پر مقدمہ ہوگیا، عدالت کے سامنے بنیے نے ساری کہانی دہرائی، شیر شاہ نے شہزادے کی طرف دیکھا اور ڈانٹ کر کہا۔ کم بخت تو خدا کے غضب سے نہیں ڈرتا، اس کے بعد حکم دیا کہ کہ بنیا ہاتھی پر سوار ہو اور شہزادے کے محل کی طرف گزرے۔ شہزادے کی بیوی کو کو اس کے سامنے کیا جائے اور بنیا اس پر پان کا بیڑا پھینکے۔
اب دربار میں ہل چل مچ گئی۔ بادشاہ کے امیروں اور وزیروں نے بادشاہ کو بہت سمجھایا کہ یہ سزا مناسب نہیں ہے۔ اگر شہزادے کو سزا دین ہی ہے تو دوسری سزا دی جائے لیکن شیر شاہ اپنے فیصلے پر اڑگیا۔ اس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ جواب دیا کہ میری نظر میں راجا اور پرجا سب برابر ہیں۔ فیصلہ اب بدلا نہیں جاسکتا۔
بادشاہ کا یہ فیصلہ سن کر بنیے کا یہ حال ہوا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا مائی باپ! بس میرا انصاف ہوگیا۔ میں اپنے دعوے سے ہاتھ اٹھاتا ہوں۔‘‘
بنیے کی بات سن کر بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا ہوا حکم دیا کہ اسے خوش کردو۔ پھر اشرفیوں کی تھیلیاں اسے دیں۔ امیروں وزیروں نے بھی اپنے پاس سے انعام دیا، شہزادے نے معافی کا حال سنا تو اس نے بنیے کے پاس زیورات کی کشتی بھیجی۔