پروفیسر محسن عثمانی ندوی
ملک کے موجودہ حالات سیرت طیبہ کو عام کرنے کا ایک موقع
اس وقت نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں احتجاج اور غصہ کی لہر دوڑ رہی ہے۔ یہ احتجاج اور غصہ حضور اکرمﷺ کی شان میں دریدہ دہنی اور گستاخی کی وجہ سے ہے جو کہ مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اسلام میں شاتم رسول کو قتل کرنے کی بھی اجازت ہے اگر یہ جرم اسلامی حکومت کے حدود میں سرزد ہوا ہو۔ یہ بظاہر لوگوں کے سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ پیغمبر کے ساتھ گستاخی کی سزا قتل کیوں کر ہو سکتی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ نے کئی سو صفحے کی کتاب اس موضوع پر الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے نام سے لکھی ہے جس میں انہوں نے اس مسئلے کو اس طرح سمجھایا ہے کہ پیغمبر کی حیثیت اللہ رب العالمین کے سفیر کی ہے اور کسی ملک کے سفیر کے ساتھ اگر گستاخی اور بد تہذیبی کی جائے تو اسے اس پورے ملک کی توہین سمجھا جاتا ہے جس کا وہ سفیر ہوتا ہے۔ پیغمبر چونکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا سفیر ہوتا ہے اور اللہ کے سفیر کے ساتھ گستاخی اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا غضب کسی پوری آبادی پر نازل ہو اور سب کو تہس نہس اور غارت کردے، اس سے بہتر ہے کہ اس ایک شخص کا خاتمہ کر دیا جائے جس نے حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہو۔اسی لیے کہا جاتا ہے با خدا دیوانہ باشد با محمد ہوشیار۔ بارگاہ رسول میں آواز بھی بلند نہ ہو ادب کے خلاف کوئی حرکت سرزد نہ ہو ورنہ تمام نیک اعمال اور عبادات کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے۔ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے دل میں آپ ﷺ کی محبت جان ومال آل و اولاد اور والدین سب سے بڑھ کر نہ ہو
پروانہ کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خداکا رسول بس
لیکن اسی کے ساتھ کسی کو ملک کے قانون کو ہاتھ میں لینے اور اپنی طرف سے تادیبی کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر غیر اسلامی ملک میں۔ ایسے موقع پر یعنی جب اہانت رسول کا واقعہ پیش آجائے وہاں پر امن احتجاج کے ساتھ جس کام کی شدید ضرورت ہے وہ ہے دین اسلام اور پیغمبر اسلام کا تعارف اور حضور اکرمﷺ کی سیرت پر کتابیں تعلیم یافتہ برادران وطن کو پیش کرنا۔ یہ کام اگر مسلمان نہ کریں اور برادران وطن کو سیرت کی کتابیں پڑھنے کے لیے نہ دیں اور صرف پُر زور احتجاج کریں اور جلوس نکالیں اور فلک شگاف نعرے لگائیں تو یہ بات مناسب اور معقول نہیں ہو گی۔
مائیکل ایچ ہارٹ (Michael H. Hart) عہد حاضر کا مشہور مصنف ہے اس نے The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History کے نام سے کتاب لکھی ہے، اس نے دنیا کی تاریخ کی سو سب سے زیادہ اہم شخصیتوں کو منتخب کیا ہے۔ دنیا کی تاریخ کی سو شخصیتوں میں پہلا نام اس نے حضورﷺ کا دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ جس مختصر عرصے میں انہوں نے زبردست انقلاب برپا کر دیا اور زمانے کا دھارا موڑ دیا اس کی کوئی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ کتاب کا مصنف عیسائی ہے، عیسائی ہونے کی وجہ سے اس کو پہلا نام حضرت عیسیٰ کا منتخب کرنا چاہیے تھا۔ مصنف پیشے کے اعتبار سے سائنٹسٹ (Scientist) ہے، اس اعتبار سے Isaac Newton کو یا کسی اور سائنس داں کو پہلا نمبر دینا چاہیے تھا لیکن اس نے معروضی مطالعے کے ساتھ پہلا نام حضور اکرمﷺ کو دیا۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ حضورﷺ کی شان میں نازیبا باتیں کہتے ہیں وہ جہالت کی وجہ سے ہے، اگر انہوں نے مطالعہ کیا ہوتا تو کبھی ایسی باتیں نہیں کہتے۔ چنانچہ نپولین بوناپارٹ (Napoleon Bonaparte) اور جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw) سے لے کر مہاتما گاندھی تک بیسیوں ایسی شخصیات ہیں جو حضور اکرمﷺ کی شان میں رطب اللسان اور ثنا خواں رہتی آئی ہیں۔
دو اشخاص نے حضور کی شان میں بے ادبی کی اس پر غصہ آنا چاہیے تھا لیکن یہ ایک موقع بھی تھا کہ مسلمان اپنے غیر مسلم بھائیوں کو، افسران حکومت کو، مختلف پارٹیوں کے قائدین کو اور اپنے پڑوسیوں کو حضورﷺ کی سیرت وسوانح ان کی زبان میں لسان قوم میں بطور تحفہ پیش کرتے، حضورﷺ کی سیرت پر کتابیں انگریزی وہندی اور ہندوستان کی دوسری تمام زبانوں میں موجود ہیں مختلف اداروں نے یہ کتابیں شائع کی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا دعوتی ذہن ختم ہو چکا ہے، وہ سیرت النبی کے جلسے بھی کرتے ہیں تو اس میں بھی غیر مسلم بھائیوں کو نہیں بلاتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنے اس غیر دعوتی رویّے کو بدلیں اور حضورﷺ کی سیرت واخلاق کا بڑے پیمانے پر قوم میں لسان قوم کے ذریعہ تعارف کرائیں۔ اس بد بخت مرد اور عورت کو بھی سیرت پر کتابیں پڑھنے کے لیے دیں جنہوں نے نادانی میں یا اسلام دشمنی میں غلط اور بے ہودہ باتیں زبان سے نکالی ہیں۔ انہیں بتائیں کہ ہزاروں مرد اور عورتیں امریک، یورپ اور دنیا کے بیشترملکوں میں اسلام کے سایہ رحمت میں پناہ لے چکے ہیں۔ آپ کی ذات رحمۃ للعالمین ہے۔ آپ کو اللہ نے سب کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ تھوڑا وقت نکال کر سیرت طیبہ کا مطالعہ کرلیں۔ اگر مسلمانوں نے اپنی یہ ذمہ داری پوری کی تو غیر مسلم بھائیوں میں بہت لوگ مل جائیں گے جن کا ذہن اسلام کے بارے میں صاف ہو گا، جن کو نیک توفیق مل جائے گی، ہدایت بھی مل جائے گی اور وہ اسلام کے سایہ رحمت میں آجائیں گے۔
***
اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنے اس غیر دعوتی رویّے کو بدلیں اور حضورﷺ کی سیرت واخلاق کا بڑے پیمانے پر قوم میں لسان قوم کے ذریعہ تعارف کرائیں۔ اس بد بخت مرد اور عورت کو بھی سیرت پر کتابیں پڑھنے کے لیے دیں جنہوں نے نادانی میں یا اسلام دشمنی میں غلط اور بے ہودہ باتیں زبان سے نکالی ہیں۔ انہیں بتائیں کہ ہزاروں مرد اور عورتیں امریک، یورپ اور دنیا کے بیشترملکوں میں اسلام کے سایہ رحمت میں پناہ لے چکے ہیں۔ آپ کی ذات رحمۃ للعالمین ہے۔ آپ کو اللہ نے سب کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ تھوڑا وقت نکال کر سیرت طیبہ کا مطالعہ کرلیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 جون تا 02 جولائی 2022