مياں محمد عبد الشکور
ٹھيک طرح ياد نہيں کہ ميں نے سيد ابو الاعليٰ مودوديؒ کا نام کب اور کس سے سنا تھا۔ اتنا ياد ہے کہ جب يہ نام سنا، تو انوکھا سا اور بھلا سا لگا تھا۔ انوکھا اس ليے کہ ہمارے ہاں ديہات ميں (اور ميں خود ديہاتي ہوں) عام طور پر نام اللہ دتہ، غلام حسين، لال خان، موج دين قسم کے ہوتے تھے اور ايسے ناموں ميں ابو الاعليٰ واقعي انوکھا تھا اور بھلا اس ليے لگا کہ نام ميں سيد اور اعليٰ پن کي موجودگي دل کو بھانے والي تھي۔ يہ خيال پہلے دن سے آج تک نہ صرف بر قرار ہے بلکہ اس کي چاشني ميں مسلسل اضافہ ہي ہوا ہے۔ميري عمر پانچ چھ سال ہوگي جب ميں نے اپنے گھر والوں سے يہ خبر سني کہ مولانا مودوديؒ کو سزائے موت سنا دي گئي ہے۔ سزائے موت کي خبر ميرے ارد گرد بہت سے چہروں کو مرجھا گئي۔ اس خبر نے ميرے بے خبر بچپنے کو بھي اتنا ہي مضطرب کيا جتنا کئي با خبر جوانيوں کو۔ پھر معلوم ہوا کہ ملکي اور بين الاقوامي دباؤ اور احتجاج نے سزائے موت کو عمر قيد اور عمر قيد کو رہائي ميں بدل ديا ہے۔ يہ گويا مولانا مودوديؒ سے ميرا پہلا غائبانہ تعارف تھا۔ميں پرائمري اسکول سے ہائي اسکول ميں منتقل ہوا تو ايک انتہائي شفيق استاد کنور سعيد اللہ خان سے واسطہ پڑا۔ ايک دن انہوں نے بتايا کہ لاہور موچي دروازے ميں جماعت اسلامي کا تين روزہ سالانہ اجتماع ہونے والا ہے۔ ہمارے کئي اساتذہ اس ميں شرکت کے ليے جائيں گے اور اگر ميں بھي جانا چاہوں تو وہ مجھے بھي اپنے ہمراہ لے جانے کے ليے تيار ہيں۔ مولانا مودوديؒ جيسي عظيم شخصيت سے ملنے اور لاہور جيسے بڑے شہر کو ديکھنے کي آفر ملے تو کون کافر انکار کي جرأت کر سکتا تھا؟ چنانچہ ميں نے بھي فوراً ہاں کر دي اور اکتوبر 1963ء کو ہمارا چھوٹا سا قافلہ جس ميں مَيں ہي سب سے چھوٹا تھا موچي گيٹ لاہور پہنچ گيا۔
فيلڈ مارشل ايوب خان کا زمانہ تھا، جماعت اسلامي زيرِ عتاب تھي اس ليے اجتماع عام کي اجازت ہونے کے باوجود لاؤڈ اسپيکر کے استعمال پر پابندي تھي۔ مولانا مودوديؒ کي فکرِ رسا نے عجيب تدبير ڈھونڈ نکالي۔ اجتماعِ عام ميں پہلے دن مولانا مودوديؒ نے جو خطاب کرنا تھا انہوں نے اُسے تحرير کر ليا، پھر اجتماع عام کے پنڈال ميں ہر پچاس فٹ کے فاصلے پر ايک انساني’’اسپيکر‘‘ کھڑا تھا۔ گويا ايک اور ’’مودودي‘‘ تقرير پڑھ کر اپنے سامنے والوں کو سنا رہا تھا۔ يوں پورا پنڈال پوري يکسوئي سے بيک وقت ايک ہي تقرير سن رہا تھا۔ ميں بھي اس پنڈال ميں ’’اصل مودودي صاحب‘‘ سے کوئي تيس پينتيس فٹ کے فاصلے پر کھڑا يہ تقرير سن رہا تھا۔ اچانک گولي چلنے کي آواز آئي، کچھ سرکاري غنڈے اسٹيج کي دائيں جانب سے اندر گھسنے کي کوشش کر رہے تھے اور کارکنان انہيں روکنے کي کوشش کر رہے تھے۔ اسي موقع پر جب کسي نے گھبراہٹ ميں مولانا مودوديؒ کو بيٹھ جانے کا کہا تو انہوں نے وہ تاريخ ساز جملہ کہا جو ہميشہ کے ليے امر ہوگيا، ’’اگر آج ميں بيٹھ گيا تو پھر کھڑا کون رہے گا۔‘‘
چند لمحوں بعد يہ روح فرسا خبر ملي کي جماعت اسلامي کا ايک قيمتي ساتھي اللہ بخش غنڈوں کو روکتے روکتے گولي لگنے سے شہيد ہوگيا ہے۔ چند لمحوں کي ہنگامہ آرائي کے بعد مجمع پھر پر سکون ہو چکا تھا۔ مولانا مودوديؒ کي آواز ايک بار پھر گونجنا شروع ہوئي اور حاضرين نے يہ پورا خطاب پورے اطمينان اور يکسوئي سے سن ليا۔ خطاب کے بعد لوگ اپني اپني قيام گاہوں کي طرف روانہ ہوگئے۔ ميں بھي استاد مکرم کے ہمراہ اجتماع گاہ کے گجرات/گوجرانوالہ کيمپ لوٹ آيا۔
کچھ دير بعد کيمپ ميں پھر ہلچل شروع ہوئي، معلوم ہوا مولانا مودوديؒ مختلف رہائشي کيمپوں ميں حاضرينِ اجتماع سے بنفسِ نفيس ملتے ملاتے ہمارے کيمپ ميں تشريف لا رہے ہيں۔ ايک خيال نے دل ميں گدگدي پيدا کي ’’کيا ميں مودودي صاحب کو قريب سے ديکھ پاؤں گا، اتنا قريب سے کہ مصافحہ کر سکوں؟ ‘‘ سوچ کي يہ لہر ابھي پوري طرح گزر بھي نہ پائي تھي کہ ايک بہت ہي خوبصورت چہرہ بادامي رنگ کي شيرواني ميں ملبوس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا عين ہمارے درميان موجود تھا۔ ميں نے بے ساختگي اور وارفتگي ميں اپنا ہاتھ مصافحہ کے ليے آگے بڑھا ديا۔ يہ عام فوٹو گرافي کا زمانہ نہ تھا۔ تاہم ايسے لگا کہ ميري آنکھوں نے جلدي جلدي درجن بھر تصويروں کے پرنٹ اپنے ذہن کي تختي پر اتار ليے ہوں۔ يہ مولانا مودوديؒ سے ميري پہلي بالمشافہ ملاقات تھي جس کي جھلکياں کسي زبردست کيمرے سے اتاري گئي تصويروں سے کہيں زيادہ شفاف آج بھي ميرے دل ودماغ ميں پوري طرح محفوظ ہيں۔
اب ميں اسکول سے کالج اور پھر کالج سے پنجاب يونيورسٹي پہنچ گيا تھا۔ پنجاب يونيورسٹي اسٹوڈنٹس يونين کے انتخابات مکمل ہو چکے تھے اور يونيورسٹي کے طلبہ وطالبات نے مجھے بطور صدر اور سيد احسان اللہ وقاص کو بطور سيکرٹري منتخب کر ليا تھا۔ نئي اسٹوڈنٹس يونين کي تقريب حلف برداري کا مرحلہ سر پر آ پہنچا تھا۔ سيد احسان اللہ وقاص، حفيظ اللہ نيازي اور ميں اسلام آباد کي طرف رواں دواں تھے۔ نواب زادہ نصر اللہ، پروفيسر غفور احمد اور ممتاز قانون داں اے کے بروہي کے نام ذہن ميں گردش کر رہے تھے۔ ہماري خواہش تھي کہ ان ميں سے کسي سے وقت مل جائے تو اپريل کے آغاز ميں ہم تقريب کا اہتمام کر ليں گے۔ ہم آبپارہ مارکيٹ کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اچانک بجلي کي سي سرعت سے ذہن ميں ايک خيال ابھرا، مولانا مودودي بھي آج کل آرام اور علاج کي خاطر اسلام آباد ميں ہيں، کيوں نہ ان سے مہمانِ خصوصي بننے کي درخواست کي جائے۔سيد احسان اللہ وقاص اور حفيظ اللہ نيازي دونوں نے ميرے اس خيال کو مسترد کر ديا۔ مولانا مودوديؒ صحت مند اور لاہور ميں موجود ہوتے تب بھي اپني مصروفيات کے باعث تشريف نہ لاتے، اب تو بالکل ہي ممکن نظر نہيں آتا، يہ دونوں کي رائے تھي۔ ميں نے گزارش کي کہ مجھے آپ سے اتفاق ہے، پھر بھي اسي بہانے مولانا مودوديؒ کي زيارت کر لينے ميں کيا حرج ہے؟ دونوں نے تھوڑي دير سوچا اور کہا ’’خيال تو اچھا ہے‘‘ چنانچہ اب ہماري گاڑي مولانا مودوديؒ کي اسلام آباد ميں موجود عارضي رہائش گاہ کي جانب رواں دواں تھي۔
ان کے گھر پہنچ کر ہم نے گھنٹي بجائي۔ چند لمحوں بعد دروازہ کھلا، پاؤں ميں لکڑي کے کھڑاويں پہنے ہولے ہولے قدم اٹھاتے مولانا خود دروازہ کھولنے تشريف لائے تھے، ہم ٹھٹک سے گئے، ايک خوشگوار مسکراہٹ نے حوصلہ ديا ’’آئيے تشريف لائيے۔‘‘ ہم مولانا کے پيچھے پيچھے ڈرائنگ روم ميں داخل ہوئے۔ سامنے کرسياں بچھي ہوئي تھيں، مولانا مودوديؒ کے تشريف رکھنے کے بعد ہم بھي بيٹھ گئے۔ ابھي سنبھلے بھي نہ تھے کہ مولانا کي آواز سنائي دي ’’کيسے آنا ہوا ہے؟‘‘ ميں نے اکھڑي اکھڑي سانسوں کو سنبھالتے ہوئے کہا ’’مولانا صحت کي خرابي کے باعث شايد آپ مانيں گے تو نہيں، پھر بھي دل چاہتا ہے کہ آپ سے گزارش کروں کہ آپ ہماري تقريب حلف برداري ميں بطورِ مہمانِ خصوصي تشريف لائيں‘‘ کسي نہ کسي طرح ميں نے اپنا جملہ مکمل کر ديا۔ تھوڑي دير فضا ميں خاموشي چھائي رہي۔ مولاناؒ کا چہرہ سوچ ميں ڈوبا تھا، پھر ايک خوشگوار آواز ابھري ’’آپ يہ تقريب کب کرنا چاہتے ہيں؟‘‘ ہمارے کانوں کو جيسے يقين نہ آ رہا ہو، ميں نے سوچے سمجھے بغير جواب ديا مولانا آپ کے ليے جب بھي ممکن ہو۔ مولانا مسکرائے اور فرمايا ’’اچھا تو ميں 23 اپريل کو واپس لاہور لوٹ رہا ہوں چند دن تو سفر کي تکان رہے گي آپ 29 اپريل کو تقريب رکھ ليجيے۔‘‘ مولانا مودوديؒ سچ مچ ہماري تقريب ميں مہمانِ خصوصي ہوں گے! ہم يہ نا قابلِ يقين خبر لے کر واپس لاہور لوٹ رہے تھے۔ جس جس نے بھي سنا حيرت زدہ رہ گيا۔ پنجاب يونيورسٹي کے فيصل آڈيٹوريم ميں تقريب کي تيارياں زور وشور سے جاري تھيں۔ ان دنوں ملک غلام مصطفي کھر پنجاب کے گورنر تھے۔ انہيں کسي طور بھي يہ بات گوارا نہ تھي کہ مولانا مودوديؒ ان کي گورنر شپ ميں يونيورسٹي تشريف لائيں۔
تقريب کے انعقاد ميں صرف ايک دن باقي تھا۔ ہم چند دوست نماز عصر کے وقت مولانا مودوديؒ کي رہائش/5 اے ذيلدار پارک پہنچے تاکہ اگلے دن مولانا محترم کي يونيورسٹي آمد کے پروگرام کو حتمي شکل دے سکيں۔ اچانک يونيورسٹي وائس چانسلر کي گاڑي/5 اے ذيلدار پارک آکر رکي۔ وائس چانسلر شيخ امتياز علي باہر نکلے اور سيدھے مولانا کے کمرے ميں داخل ہو گئے۔ ہمارے دل خوف اور اضطراب سے دھڑکنے لگے۔ ايک مختصر ملاقات کے بعد شيخ امتياز علي باہر نکلے اور دائيں بائيں نظر دوڑائے بغير گاڑي ميں سوار ہو کر واپس روانہ ہوگئے۔
خطرے کي گھنٹياں کانوں ميں بجنے لگيں۔ اللہ خير کرے شيخ امتياز علي آئے، مولانا محترم سے ملے اور پھر پُھرتي سے لوٹ گئے۔ دال ميں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ اتنے ميں ادھيڑ عمر کے ايک صاحب ميرے پاس آئے اور آہستہ سے کہا مولانا مودوديؒ آپ کو بلا رہے ہيں۔ ميں تيز قدموں اور دھڑکتے دل سے مولانا کے کمرے ميں داخل ہوا۔مولانا نے لفافے ميں بند ايک مختصر خط ميرے حوالے کيا اور فرمايا اسے پڑھ ليجيے۔ خط کھولنے سے قبل ہي مجھے پوري طرح اندازہ ہوگيا تھا کہ خط ميں کيا لکھا ہوگا۔زمين پاؤں کے نيچے سے سرکنے لگي اور آنکھوں کے سامنے اندھيرا سا چھانے لگا۔ دل نے سوچا ’’دن گنے جاتے تھے اس دن کے ليے‘‘۔ ذہن ميں کئي سارے سوال ابھرے، ڈوبے اور پھر اُبھرے مگر کوئي مکمل جملہ نہ بن پايا، ’’ديکھيے مولانا…مگر…ليکن… پھر جيسے مولانا نے ميرے سارے اَن کہے جملے سن ليے ہوں۔ کہنے لگے ’’ميرے عزيز ميں کبھي کسي کے خوف کے باعث اپنے فيصلے تبديل نہيں کرتا، تاہم اسے معيوب سمجھتا ہوں کہ ادارے کا سربراہ آکر مجھ سے درخواست کرے اور ميں اس کي درخواست کا احترام نہ کروں۔ مجھے معلوم ہے کہ وقت کم ہے اور آپ لوگوں کے ليے متبادل مہمانِ خصوصي کا بندوبست کرنا تقريباً نا ممکن ہے۔ اس ليے ميں ابھي پروفيسر غفور احمد صاحب کو فون کر رہا ہوں، وہ کل آپ کي تقريب کے مہمانِ خصوصي ہوں گے۔
مجھے ميرے سارے کہے اور ان کہے سوالوں کا جواب مل چکا تھا، ميں اطمينان اور اضطراب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ذيلدار پارک سے باہر نکلا اور اپنے ساتھيوں اور يونيورسٹي طلبہ کو اطلاع دي۔ بدلي ہوئي صورت حال کو ہضم کرنا کسي کے ليے بھي آسان نہ تھا۔ تاہم مولاناؒ کے واضح اور پر عزم فيصلے نے ہميں کسي بڑے بحران سے بچا ليا۔ عجيب اتفاق ديکھيے کہ غلام مصطفي کھر کو چند ہي مہينوں ميں گورنري سے ہاتھ دھونا پڑا، ميں نے سيد مودوديؒ کو ايک بار پھر يونيورسٹي تشريف لانے کي دعوت دي اور انہوں نے پہلي اور آخري بار يونيورسٹي ميں طلبہ واساتذہ سے’’سيرت کا پيغام‘‘ پہ وہ معرکۃ الآراء خطاب کيا جو ان کي کتاب ’’سيرت سرورِ عالم‘‘ کا اب با قاعدہ حصہ ہے۔
1972ء ميں جمعيت کا سالانہ اجتماع ہونے والا تھا ناظم اعليٰ تسنيم عالم منظر مرحوم لاہور تشريف لائے۔ مجھے بلايا اور کہا ’’ہم قدم‘‘ کے ليے سيد مودوديؒ کا انٹر ويو کرنا ہے ۔ميرے پاس وقت نہيں آؤ مل کر سوالنامہ مرتب کر ليتے ہيں۔ پھر تم سيد مودوديؒ سے وقت لے کر انٹرويو کر لينا۔ ميں ان کے ساتھ بيٹھ گيا۔ سارا سوالنامہ انہوں نے ہي مرتب کيا ميري بس رسمي رضامندي حاصل کي اور کہا ’’کل ہميں مظفر آباد جانا ہے، واپسي پر ميں ساتھ نہيں ہوں گا تم دوستوں سے مل کر انٹرويو مکمل کر لينا۔‘‘
اگلے دن ہم مظفر آباد روانہ ہو گئے، واپسي پر وہ واقعي ہمارے ساتھ نہيں تھے۔ دريائے نيلم ميں نہاتے ہوئے وہ اللہ کو پيارے ہو چکے تھے اور ہم ان کي جدائي کا اندو ہناک غم ساتھ ليے واپس لوٹ رہے تھے۔ کئي دن تو سوگ ہي ميں گزر گئے، پھر اس انٹر ويو کا خيال آيا جس کے سارے سوال تسنيم عالم منظر نے خود مرتب کيے تھے۔ برادرم سليم منصور خالد، متقين الرحمن اور ميں مولانا کي خدمت ميں حاضر ہوئے۔ انٹرويو ميں کل آٹھ سوال تھے۔ ہم سوال پڑھتے جاتے سيد مودوديؒ (صحت کي خرابي کے باعث) آہستہ آہستہ جواب ديتے رہتے۔ اتني آہستہ کہ ہم تينوں آرام سے پوري عبارت لکھ ليتے۔ انٹرويو کا آخري سوال تھا ’’مولانا اپني زندگي کا کوئي ايسا واقعہ بتائيے، جب آپ نے نصرت خدا وندي کو قريب سے ديکھا ہو‘‘ مولانا کے چہرے پر اضطراب کے آثار نماياں ہوگئے کچھ خاموشي کے بعد بولے ’’بھئي ميں بولتے بولتے تھک گيا ہوں اور ميرا خيال ہے کہ انٹرويو کے تقريباً سب سوالوں کے جوابات بھي ہو چکے ہيں، اس ليے آپ اسي پر اکتفا کر ليں‘‘ ميں نے عرض کيا ’’مولانا مرحوم تسنيم عالم منظر نے يہ سوال خاص طور پر لکھا تھا، اس ليے اس کا جواب ضرور چاہيے۔ آپ تھک گئے ہوں، تو ميں کل حاضر ہو سکتا ہوں‘‘۔ مولانا نے مروت ميں ’’ناں‘‘ نہيں کہا اگر چہ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ غالباً وہ ’’ناں‘‘ ہي کہنا چاہتے ہيں، ہم اپنے اپنے کاغذات سنبھالے واپس آ گئے۔
اگلے روز ميں پھر مولانا محترم کے پاس حاضر ہوگيا۔ مجھے ديکھا تو ذرا توقف سے کہا ’’اچھا تو آپ پھر آگئے‘‘ يوں لگا مولانا اس سوال کا جواب دينے سے اجتناب کر رہے ہيں، پھر ہولے سے کہا ’’آغا شورش نے 1968ء ميں چٹان کے ليے مجھ سے ايک انٹرويو ليا تھا۔ صفدر چودھري صاحب کے پاس وہ شمارہ ہوگا آپ ذرا اسے پڑھ ليجيے‘‘ کچھ سمجھ نہ آيا کہ مولانا نے وہ شمارہ پڑھنے کے ليے مجھے کيوں کہا، تاہم جرأتِ انکار نہ ہو سکي۔ ميں نے باہر نکل کر صفدر چودھري صاحب سے مطلوبہ شمارہ حاصل کرنے کي کوشش کي مگر شمارہ دستياب نہ ہوسکا۔ ’’چٹان‘‘ کے دفتر فون کيا اور پھر وہاں پہنچ کر آغا صاحب سے شمارے کي درخواست کي، مگر عجيب اتفاق کہ وہاں بھي شمارہ نہ مل پايا۔ اگلے روز پھر ايک بار ميں مولانا کے کمرے ميں داخل ہونے کي جسارت کر چکا تھا۔ ايک لطيف سي مسکراہٹ نے ميرا استقبال کيا اور پوچھا ’’کيا آپ نے چٹان کا شمارہ پڑھ ليا‘‘ ميں نے کہا
مولانا! چٹان کا مطلوبہ شمارہ نہ صفدر صاحب سے ملا اور نہ چٹان کے دفتر ہي سے دستياب ہو سکا ہے، شفقت فرمائيے اور ميرے سوال کا جواب آپ خود ہي عنايت فرما ديجيے۔ سيد مودودي نے مجھے بيٹھنے کا اشارہ کيا اور پھر يوں مخاطب ہوئے ’’ميرا خيال تھا کہ ميرے اجتناب سے تم سمجھ گئے ہو گے، ميں نے زندگي بھر اس بات کي کوشش کي ہے کہ ميري سوچ، گفتگو يا تحرير ميں کبھي ’’مَيں‘‘ غالب نہ آنے پائے، ضرورت پڑنے پر بھي مَيں يہ کبھي نہيں کہتا کہ مَيں نے يہ سوچا ہے يا مَيں نے يہ فيصلہ کيا ہے، بلکہ مَيں شعوري طور پر کہتا رہا ہوں کہ جماعت اسلامي نے يہ سوچا ہے يا جماعت اسلامي نے يہ فيصلہ کيا ہے۔ اس ليے مجھے اميد ہے اب آپ مجھ سے يہ سوال نہ پوچھيں گے۔ ايک بار پھر ميں سکتے ميں آ چکا تھا۔ سنبھلا تو ميں نے دوبارہ جسارت کي ’’ليکن مولانا آپ نے مجھے چٹان پڑھنے کا مشورہ کيوں ديا‘‘ مولانا گويا ہوئے ’’شورش کاشميري بھي تمہاري طرح ضدي تھے، جب ان کا اصرار حد سے زيادہ بڑھا، تو ميں نے انہيں ايک معمولي واقعہ جس کا تذکرہ امين احسن اصلاحي صاحب اپني کسي تحرير ميں کر چکے تھے، يہ بتائے بغير سنا ديا ۔
شکست قبول کيے بغير کوئي چارہ نہ تھا۔ البتہ اُس نشست سے ميں يہ طے کرکے اٹھا کہ سيد مودوديؒ کي ساري کتابوں کو دوبارہ اس طرح پڑھوں گا کہ اس ميں سے ’’مَيں‘‘ ڈھونڈ سکوں۔تفہيم القرآن، خلافت وملوکيت، تجديد واحيائے دين، سنت کي آئيني حيثيت اور درجنوں ديگر کتابيں کھنگال ڈاليں، ليکن تلاش کے باوجود بھي مَيں اس ميں کہيں بھي’’مَيں‘‘ نہ ڈھونڈ پايا۔اس واقعے کو گزرے دو عشرے ہو چکے تھے۔ ايک بار امريکا سے واپسي پر ميں اپنے کزن ظفر علي خان صاحب کے گھر لندن ميں ٹھہرا۔ رات سونے سے قبل بيڈ روم ميں مولانا ابو الحسن علي ندوي (علي مياں) کي کتاب ميز پر پڑي ديکھي۔ ’’مسلمانوں کے زوال سے دنيا نے کيا کھويا‘‘ اصل کتاب عربي ميں لکھي گئي تھي مگر اردو ترجمہ بھي کمال کا تھا۔ کتاب نے رات بھر جگائے رکھا، البتہ حيرت بھي ہوئي کہ کتاب کے ہر ہر صفحے پر’’مَيں‘‘ غالب تھا۔ پھر مولانا ابو الکلام کي کتاب ’’غبارِ خاطر‘‘ ياد آئي جو ’’مَيں‘‘ سے بھري پڑي ہے، سيد مودوديؒ کے ديگر ہم عصروں کي تحريريں اور ايک بار پھر مولانا مودوديؒ کا وہ انٹرويو يادوں کے نہاں خانے سے نکل کر سامنے آ کھڑا تھا۔ بيسويں صدي کے مفکرين ميں يہ اعزاز صرف مولانا مودوديؒ کو حاصل تھا کہ لاکھوں صفحات پر پھيلي ان کي تحريروں ميں آپ ’’مَيں‘‘ کہيں تلاش نہ کر سکيں گے۔
پہاڑ اکثر خوبصورت دکھائي ديتے ہيں، مگر صرف دور سے، قريب آنے پر پتھريلي چٹانيں، گہرے کالے غار اور خوف دلانے والي گھاٹياں پہاڑ کا سارا حُسن غارت کر ديتي ہيں۔ مگر ابو الاعليٰ سيد مودوديؒ ايسے پہاڑ تھے جو دور سے تو خوبصورت نظر آتے ہي تھے قريب آنے پر اور زيادہ خوبصورت دکھائي دينے لگتے۔ ميں انہيں بيسيوں بار ملا ہوں۔ ان کي ڈھيروں ياديں تتلياں بن کر حافظے کے باغيچوں ميں اڑتي پھرتي ہيں۔ يہ ساري ياديں، يہ ساري باتيں ہوا کے مہکتے جھونکوں کي طرح ہيں۔ ہر ہر گھونٹ جامِ شيريں کي طرح۔
’’عجيب مانوس اجنبي تھا مجھے تو حيران کر گيا وہ‘‘
***