ڈاکٹر خلیل تماندار، انٹاریو، کینیڈا
حضرت مولانا سید جلال الدین عمریؒ سے حرم مکی شریف میں ناچیز کو نصف گھنٹے کی ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی تھی اور اس مختصر سے وقفے میں راقم الحروف نے آپ کی عالمانہ گفتگو، اخلاق حسنہ، شفقت آمیز سلوک، اپنے بڑوں کا احترام، زندگی کے ہر لمحے کی قدر و منزلت اور دعوت الی اللہ کے فریضے کو انجام دینے کی ذمہ داری جیسے کئی اہم نکات کو اخذ کیا تھا۔
31 مئی تا 4 جون 2008ء میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی جانب سے ایک مکالمہ بین المذاہب (Interfaith dialogues) کے عنوان پر پانچ روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ کانفرنس کا اجلاس حرم مکی سے متصل شاہی محل قصر صفا میں رکھا گیا تھا اور اجلاس میں شرکت کرنے والے مختلف ممالک کےضیوف و مندوبین کے قیام کا نظم حرم مکی شریف کے روبرو واقع ہوٹل ہلٹن مکہ ٹاورز میں تھا۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب ملک عبداللہ ابن عبدالعزیز آل سعود کے ہاتھوں عمل میں آئی تھی نیز خصوصی مہمانان کرام میں عالم اسلام کے معروف اسکالر علامہ یوسف القرضاوی قطر سے، شیخ الازہر مصر سے، صدر رفسنجانی ایران سے، مفتی رفیع عثمانی و امیر جماعت اسلامی قاضی محمد حسین صاحبان پاکستان سے اور ہندوستان سے امیر جماعت اسلامی ہند سید جلال الدین عمری، پروفیسر اختر الواسع و دیگر حضرات شامل تھے۔ حرم شریف میں موجود اپنے مطب میں مریضوں سے فارغ ہو کر ناچیز علامہ یوسف القرضاوی تعالی کو دیکھنے و سننے کی غرض سے ہوٹل ہلٹن کے اس ہال میں داخل ہو رہا تھا جہاں نماز ظہر سے قبل تمام مندوبین اکٹھا ہوئے تھے۔ ہال میں مخصوص قسم کی سرخ ٹوپی پہنے ہوئے انتہائی باوقار و پر جمال شخصیت علامہ یوسف القرضاوی کی نمایاں نظر آرہی تھی ۔
ہال کے دروازے ہی پر مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی سے ملاقات ہوئی۔ (اسے حرم شریف کی برکت ہی کہا جا سکتا ہے کہ مفتی رفیع عثمانی اور مفتی تقی عثمانی دونوں علماء کبار و برادران خورد سے تعارف و شفقتیں ناچیز کو برسہا برس سے حاصل رہی ہیں) مفتی رفیع عثمانی صاحب سے مصافحہ ہوا اور اس استفسار پر کہ ہندوستان کے وفد میں کون کون سے علماء و اسکالرز شامل ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ چند منٹ قبل مولانا سید جلال الدین عمری اپنے کمرے میں تشریف لے گئے ہیں۔
ظہر کی اذان کے لیے تقریباً بیس منٹ کا وقفہ تھا، کانفرنس میں آئے ہوئے مہمانان کرام کی مصروفیات اور وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ناچیز براہ راست حضرت مولانا سید جلال الدین عمری کے کمرے تک پہنچ گیا، انہیں ڈسٹرب کیے بغیر اور کمرے کی گھنٹی بجائے بغیر، کمرے کے باہر ہی انتظار میں بیٹھ گیا کہ مولانا محترم ابھی نماز ظہر کے لیے حرم شریف ضرور تشریف لے جائیں گے۔ کمرے سے لفٹ اور حرم شریف تک جانے کے دوران یہی وہ قیمتی لمحات تھے جب آپ سے ملاقات و مختصر سی گفتگو کی سعادت حاصل کی جا سکتی تھی۔
اسی سوچ میں ناچیز غرق تھا کہ آپ کے کمرے کا دروازہ کھلا، شیروانی میں ملبوس ایک باوقار، ابتسام سے پر اور قد آور نورانی چہرہ، کمرے کے باہر منتظر دیکھتے ہوئے ناچیز کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سلام میں آپ نے پہل کی تھی۔ راقم آپ کے لیے بالکل انجان تھا کیوں کہ آج پہلی بار آپ سے ملاقات ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود آپ کے لہجے میں گویا ایک اپنائیت جھلک رہی تھی۔ مولانا سید جلال الدین عمری کے استاذ گرامی جو الحمدللہ بقید حیات ہیں اور 95 برس کے آس پاس آپ کی عمر ہو گی، عمرآباد ہی نہیں برصغیر کے معروف علماء کبار میں سے ایک حضرت مولانا ابوالبیان حماد عمری مدظلہ العالی کا حوالہ دیا کہ موصوف کے ایک فرزند ڈاکٹر حمید الرحمن ناچیز کے دوستوں میں سے تھے اور ان کے توسط سے ان کے والد بزگوار مولانا ابوالبیان حماد عمری صاحب سے جدہ میں بارہا ناچیز کی ملاقاتیں ہو چکی تھیں اور آپ کی ایک تلقین ذہن نشین ہو گئی تھی کہ جب بھی مکہ مکرمہ میں مولانا سید جلال الدین عمری صاحب کی آمد ہو گی آپ ضرور ملاقات کیجیے گا۔ محترم مولانا سید جلال الدین عمری نے اپنے استاذ گرامی ابوالبیان حماد عمری کی تلقین پر محض اللہ واسطے ناچیز کے ملاقات کی غرض سے آنے پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ آپ کی خوشی کے جذبات میں مزید اضافہ ہوا جب آپ سے ناچیز نے حرم مکی شریف میں موجود مطب / کلینک میں گزشتہ کئی برسوں سے طبی خدمات پر مامور ہونے کے متعلق بتایا، اور یہ بھی بتایا کہ سہ روزہ دعوت دہلی میں 1992ء سے ناچیز کے مختلف مضامین شائع ہو چکے ہیں، علاوہ ازیں مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ اور موجودہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی سے گزشتہ کئی دہائیوں کے تعلق کا تذکرہ کیا۔ چند لمحات تک تعارفی کلمات ادا ہوتے رہے کے بعد مولانا سید جلال الدین عمری نے اس قدر اپنائیت و شفقت کا مظاہرہ فرمایا جنہیں الفاظ کا پیرہن نہیں دیا جا سکتا۔ آپ نے مفکر اسلام سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ اور موجودہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دونوں کا جس احترام و محبت سے ذکر فرمایا وہ واقعی قابل دید و شنید تھا۔
آپ سے سلسلہ کلام جاری تھا اور آپ کی زباں سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قلب و ذہن پر نقش ہو رہا تھا کہ طبی خدمات سے اللہ کے بندوں کی خدمت اور اپنے رشحات قلم سے اللہ کے دین کی خدمت کا کام انجام جاری رکھیں۔ آپ نے جو کلمات ادا کیے تھے اس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا کہ اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہچانا ہمارا فریضہ اول ہے اور اس مشن کو دم آخر تک ہمیں جاری رکھنا ہے۔
حرم شریف میں ہم نے ظہر کی نماز باجماعت ادا کی۔ مولانا سید جلال الدین عمری کے ہمراہ اس وقت انگریزی جریدہ ریڈینس کے ایڈیٹر جناب اعجاز اسلم بھی شامل کارواں و کانفرنس تھے۔ موصوف انتہائی فصیح و بلیغ انگریزی بول رہے تھے۔ نماز ظہر سے فارغ ہو کر مولانا سید جلال الدین عمری اور اعجاز اسلم دونوں صاحبان کے قدم کانفرنس میں شرکت کی غرض سے شاہی محل کی طرف بڑھ رہے تھے اور ناچیز حرم مکی شریف میں موجود اپنے مطب کی جانب انتظار کرتے ہوئے اپنے مریضوں کے درمیان پہنچ چکا تھا۔
اس واقعہ کو آج تقریباً چودہ برس مکمل ہو چکے ہیں لیکن آج بھی مولانا کا پر وقار اور نورانی چہرہ نگاہوں میں ہے اور آپ کی زبان سے ادا کیے گئے کلمات، تلقین و نصائح قلب و ذہن میں آپ کی یادوں کو تازہ کر رہے ہیں۔
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اللہ پاک مولانا سید جلال الدین عمریؒ کی قبر کو نور سےبھر دے اور ان کی کہی ہوئی باتوں پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022