بابری مسجد: شہادت سے بھومی پوجن تک۔سیاست یا آستھا؟

شبیع الزماں، پونے

 

۵؍ اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی نے رام مندر کے لیے منعقدہ بھومی پوجن کی تقریب میں حصہ لیا۔ اس تقریب میں یوگی آدتیہ ناتھ کے علاوہ موہن بھاگوت اور بابا رام دیو کو بھی بلایا گیا تھا۔ بھومی پوجن کے بعد تینوں نے تقریریں بھی کیں۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کی ابتدا جے شری رام کے نعرے سے کی اور اپنی تقریر کے دوران کہا کہ’’رام مندر ہندوستانی تہذیب کی جدید علامت بنے گا، ہمارے ابدی عقیدے کی بنیاد بنے گا، قومی احساس کی علامت بنے گا۔‘‘ ہندتوادی تنظیمیں مستقل یہ بات دہراتی رہی ہیں کہ رام مندر آستھا اور عقیدے کا معاملہ ہے۔کیا واقعی یہ آستھا کا معاملہ ہے یا بی جے پی اسے صرف سیاست کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ سچی بات وہی ہے جو سشما سوراج کے منھ سے نکل گئی تھی کہ رام مندر تحریک مکمل طور سے ایک سیاسی تحریک تھی اسکا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
نکل جاتی ہے جس کے منھ سے سچی بات مستی میں
فقیہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا
واقعہ یہی ہے کہ بی جے پی نے رام مندر تحریک کے ذریعے ہی اقتدار حاصل کیا ہے۔در اصل سیاست اسی چیز کا نام ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کی نفسیات میں جذباتی احساس رکھتی ہے اسے استعمال کیا جائے۔ مذہب،قومیت،زبان،کلچر،تہذیبی روایات،ماضی کی عظیم شخصیات ،قدیم تاریخی عمارتیں وغیرہ ان تمام عوامل کا ہمیشہ سے سیاست دانوں نے عوام کا جذباتی استحصال کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور آج بھی کرتے ہیں۔ رام مندر تحریک اس کی ایک کلاسیکی مثال ہے۔رام مندر تحریک سے پہلے ہندو احیا پرست، ہندوستانی سیاست میں بہت کوششیں کر چکے تھے لیکن کوئی تدبیر کار گر ثابت نہیں ہو پارہی تھی۔چاہے وہ ہندو مہا سبھا کی مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی شراکت سے لیکر جن سنگھ کی جنتا پارٹی کے ساتھ ساجھے داری ہو یا ساٹھ کی دہائی میں گائے کے تحفظ کے نام پر مہم چلا کر پارلیمنٹ کا گھیراؤ ہو یا اندرا گاندھی کی آمریت کے خلاف کی گئی جدوجہد ہو، کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی تھی۔ سنگھ کے لیے ہندوستانی سیاست آسان ثابت نہیں ہوئی۔ہندوستانیوں کا مزاج،ملک کے حالات، گاندھی۔ نہرو، امبیڈکر اور آزاد کے افکار اور ان کے اثرات اور ان کے ذریعہ بنایا گیا نظام سنگھ پریوار کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ لیکن کچھ تو سنگھ کی عیارانہ سیاست اور کچھ کانگریس کی غلطیوں نے اس کی راہ آسان کردی اور اس کے بعد مندر کے موضوع نے برسوں پرانےخواب کو تعبیر کی شکل دے دی اور سنگھ مین اسٹریم ہندوستانی سیاست میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوگیا۔
1980میں وشو ہندو پریشد نے پورے ملک میں رام مندر تحریک شروع کی۔پریشد نے ملک بھر میں یاترائیں شروع کیں جو کھٹمنڈو سے شروع ہوکر تمل ناڈو،بنگال سے لیکر گجرات اور سومناتھ سے لیکر کنیا کماری تک نکالی گئیں۔ ان یاتراؤں میں ہندو قوم پرستی کے جذبات کو بہت زیادہ بھڑکایا گیا۔ اس میں پہلی مرتبہ بھارت ماتا کی مورتیاں بنا کر ملک بھر میں فروخت کی گئی۔ پریشد نے الہ باد میں 1989 میں تیسری دھرم سنسد بلائی جس میں دو اہم فیصلے لیے گئے۔ اول یہ کہ عوامی زندگی میں ہندو تہذیب کو اپنایا جائے اور دوسرے یہ کہ رام مندر کی تعمیر کے لیے اینٹوں کی پوجا اور شیلا نیاس (بنیاد رکھنا) شروع کیا جائے۔ دھرم سنسد میں رام مندر کا ماڈل بھی دکھایا گیا اور اینٹیں جن پر جے شری رام لکھا تھا، ہندوستان بھر میں ان کی پوجا کے پروگرام کرنا طے پایا۔ ملک بھر میں رام شیلا پوجن کی مہم شروع ہو گئی۔ ہندوستان کے طول و عرض میں بڑے پیمانے پر جلوس اور ریلیاں نکالی جانے لگیں جن میں ہندوؤں کے مذہبی جذبات بھڑکانے والے نعرے اور تقریریں کی جاتیں ۔ حالانکہ رام مندر مذہبی مہم ہونی چاہیے تھی لیکن یہ مکمل طور سے سیاسی اور مسلم مخالف رنگ لیے ہوئی تھی جس میں بابر کی اولاد، پاکستان اور قبرستان کے نعرے لگائے جاتے تھے ۔ بہت جلد مہم نے اپنے اثرات دکھانے شروع کیے اور فسادات کے نام پر ملک بھر میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوگئے۔ خاص طور پر راجستھان،مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں یہ حملے زیادہ ہوئے۔ سب سے شدید حملے بھاگلپور میں ہوئے جہاں ہزاروں مسلمان مارے گئے ۔ پورے ملک میں مسلمانوں کا کروڑوں روپیوں کا مالی نقصان ہوا اور ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔ پورے ملک سے اینٹوں کو اتر پردیش لانے کا کام جاری تھا۔ پورے ملک میں ہندتوادیوں نے دہشت کا ماحول پیدا کردیا تھا لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور نہ اس نے کوئی اقدام کیا۔ ہندوستان اس زمانے میں بڑی سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا ۔ 1979 میں مرار جی دیسائی کی حکومت نے بھینڈیشور پرساد منڈل کی نگرانی میں ایک کمیٹی بنائی جسکا مقصد یہ تھا ہندوستان میں تعلیمی اور معاشی طور کمزور طبقات کی نشاندہی کی جائے تاکہ انہیں ریزوریشن دیا جا سکے۔ کمیشن نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ ہندوستان کی 3743 مختلف ذاتیں ہیں جو کل آبادی کا 52 فیصد ہے
نہیں سماجی اور معاشی بنیادوں پر ریزوریشن ملنا چاہیے۔ ان کے لیے پبلک سیکٹر میں 27 فیصد ریزوریشن کی سفارش کی گئی۔ دس سالوں تک یہ سفارشات سرد خانے میں پڑی رہیں، 1989 میں وی پی سنگھ نے ان سفارشات کے نفاذ کا فیصلہ کیا۔
ہندو احیاء پرست ،ہندوؤں کے غلبہ کے لیے ہمیشہ سے دلتوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنا چاہتے تھے ۔ آزادی کے بعد دلتوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ ہو یا کاسٹ کی بنیاد پر ریزوریشن، ایسی کوئی بھی کوشش جس سے دلتوں میں اپنی جداگانہ شناخت کا احساس پیدا ہوسکے ہندوتوادی اسے دباتے رہے ہیں ۔ دوسری طرف اٹل اور اڈوانی نے جنتا پارٹی سے الگ ہوکر سنگھ کی نگرانی میں راست طور پر ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی قائم کی۔ اٹل بہاری واجپائی کو بی جے پی کا پہلا صدر بنا گیا ۔ بی جے پی نے ابتدائی دنوں میں جنتا پارٹی کے ہی نظریہ پر کام کرنا شروع کیا اور گاندھیائی سوشلزم یا دین دیال اپادھیائے کے integral humanism نظریے کو پارٹی کی بنیادی فکر کے طور پر اپنایا۔ لیکن کسی تعمیری فکر کو لے کر کوئی کام کرنا سنگھ کے بس کی بات نہیں ہے۔ نتائج ظاہر تھے۔ بی جے پی اپنے اثرات قائم کرنے میں ناکام رہی اور الیکشن میں بری طرح ہار گئی اسکے نصیب میں صرف دو نشستیں ہی ائی۔ اندرا گاندھی کے قتل کے سبب کانگریس کو عوامی ہمدردی حاصل ہوئی اور اسے 403 سیٹیں مل گئیں۔
واجپائی کی اعتدال پسند پالیسیوں کی وجہ سے بی جے پی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اسکے بعد پارٹی اپنی فکر بدلنے پر مجبور ہوئی اور اسے سخت ہندوتوا کی طرف لوٹنا پڑا ۔ 1984 میں اڈوانی کو پارٹی کا صدر بنا دیا گیا۔ اڈوانی کے سامنے جہاں وی پی سنگھ کی منڈل سیاست کا چیلنج تھا وہیں بی جے پی کو کھڑا بھی کرنا تھا۔ یہ دونوں مقاصد حاصل کرنے کے لیے اڈوانی کے پاس آسان نسخہ رام مندر کی سیاست کا تھا ۔ اڈوانی نے صدر بنتے ہی وی ایچ پی سے قریبی تعلقات بنائے اور رام مندرکے موضوع کو خوب گرمایا۔ اسے منڈل کے مقابلے کمنڈل کی سیاست کہا جانے لگا۔ کمنڈل اس برتن کو کہتے ہیں جو ہندو سادھو سنت پانی پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس زمانے میں بعض دوسرے واقعات سے بھی اس تحریک کو تقویت پہنچی ۔
شاہ بانو کیس میں مسلم احتجاج کے سامنے جھکنے کے بعد ہندو مڈل کلاس اور ہندو احیاء پرستوں کی طرف سے کانگریس پر شدید تنقید ہونے لگی۔ ہندو ووٹرس کو خوش کرنے کے لیے راجیو گاندھی نے وہ ہمالیائی حماقت کردی جس کی سزا کانگریس اب تک بھگت رہی ہے۔ راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے تالے کھلواکر ہندوؤں کو وہاں شیلا نیاس کی اجازت دے دی۔اگر راجیو گاندھی تالا نہیں کھلواتے تو کیا آج حالات مختلف ہوتے یہ کہنا مشکل ہے لیکن راجیو گاندھی کے اس اقدام سے رام مندر تحریک کو تقویت ملی اور اسکے حوصلے بڑھ گئے ۔
اسی طرح اس زمانے میں رامانند ساگر کا ٹیلی ویژن سیریل رامائن براڈکاسٹ ہونے لگا۔ اس سیریل سے پہلے رام کی نیشنل ہیرو والی امیج نہیں تھی لیکن اس سیریل براڈکاسٹ ہونے کے بعد رام نیشنل ہیرو قرار پائے۔ ہندو احیاء پرستوں نے اس سیریل کو اپنے مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا حالانکہ سیریل اس مقصد سے نہیں بنایا گیا تھا لیکن چونکہ ہندوستانی سماج کی تشکیلِ نو میں ہندی سینما اور ٹیلی ویژن سیریلز کے بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے اس سیریل نے بھی ملکی سماج پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔ اروند راج گوپال اپنی کتاب politics after television :Hindu nationalism and the reshaping of the public in India میں لکھتے ہیں’’اس سیریل کی اجازت دیکر حکومت نے دہائیوں پر مبنی مذہبی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کی روایت کو توڑ دیا اور ہندو قوم پرستوں نے اسکا بھر پور فائدہ اٹھایا‘‘۔اس سیریل کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ سیتا اور راون کا کردار ادا کرنے والے دونوں ہی ایکٹرس بی جے پی کی طرف سے الیکشن جیت کر ممبر آف پارلیمنٹ بنے۔
یہ سارے عوامل رام مندر تحریک میں معاون ثابت ہوئے۔ رام مندر تحریک سے اڈوانی نے بی جے پی کے اندر ایک حرارت پیدا کردی اور اسے اپنا الیکشن ایجنڈا بنایا ۔ اسکی مدد سے 1989 کے جنرل الیکشن میں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد 2سے بڑھ کر 84 ہوگئی۔ اڈوانی نے جب دیکھا کہ رام مندر تحریک غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہورہی ہے تو اس نے پورے میں ملک میں عوامی ماحول بنانے کے لیے یاترا نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اڈوانی نے ٹویوٹا گاڑی کو رتھ کی شکل دے کر یاترا نکالی۔ اڈوانی کی رتھ یاترا ملک کی 8 ریاستوں سے گزری جس میں اس نے دس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ یہ یاترا سومناتھ سے نکل کر ایودھیا جانا طے پائی تھی۔ یاترا جس شہر سے بھی گزرتی وہاں بی جے پی اور سنگھ کے کارکنان گھنٹیاں بجا کر، تالیاں پیٹ کر اور جذباتی نعرے لگا کر اسکا استقبال کرتے۔ جذباتی ہندو، رتھ کی مٹی سے تلک کرتے اور جذبات کے اظہار کے طور پر خون کا عطیہ پیش کرتے۔ یاترا نے متعدد مقامات پر فسادات بھڑکائے جس سے ہزاروں معصوم لوگوں کی جانیں گئیں۔ اس لیے اسے خونی یاترا بھی کہا جاتا ہے۔ رام چندر گوہا نے اسے ’’مذہبی، متشدد، بھڑکاؤ اور مسلم مخالف‘‘ یاترا قرار دیا۔ اڈوانی کی تقریریں بابر اور رام ان ہی دو ناموں کے گرد گھومتیں۔ اڈوانی جہاں بھی جاتے انہیں ہتھیار تحفے میں دیے جاتے ۔ اڈوانی کو تحفے میں اتنے ہتھیار ملے کہ پرمود مہاجن نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان ہتھیاروں کی مدد سے ہم ایک دن میں رام جنم بھومی آزاد کروا سکتے ہیں۔
آخر کار 23 اگست کو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے اڈوانی کی یاترا کو روکا اور اڈوانی کو حراست میں لے لیا۔ اس طرح اس خونی یاترا کا خاتمہ ہوا۔
بی جے پی نے رام مندر تحریک کو 1991 کے الیکشن میں زوردار طریقے سے استعمال کیا۔ 1989 کے مقابلے اسکا ووٹ بینک 11فی صد سے بڑھ کر 21 فی صد یعنی تقریباً دُگنا ہوگیا۔ لوک سبھا میں اسکی سیٹوں کی تعداد 85 سے بڑھ کر 120 ہوگئی۔ اسکو کرناٹک ، آسام اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں داخلہ مل گیا اور وہ کانگریس کے بعد ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ۔ سنگھ اس تجربہ سے بہت خوش ہوا ۔ 6دسمبر 1992 کو سنگھ ،وی ایچ پی اور بی جے پی نے دیڑھ لاکھ کے قریب کار سیوکوں کو ایودھیا میں جمع کیا تاکہ مسجد شہید کی جاسکے۔ وہاں اوما بھارتی ، مرلی منوہر جوشی اور اڈوانی نے جذباتی تقریریں کی اور ہجوم کو مشتعل کیا۔ اسکے بعد ایک جنونی ہندو نے مسجد پر بھگوا پرچم لہرا دیا جس کے بعد تھوڑی ہی دیر میں ہجوم نے مسجد کو زمیں بوس کردیا جسکے نتیجے میں ملک بھر میں ہندو مسلم فسادات بھڑکے جس میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوا۔ رام مندر تحریک نے منڈل کا جواب بھی دے دیا اور ہندوؤں کو متحد بھی کردیا ۔ ہندو ووٹ بینک مضبوط ہوا اور اسکا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ مرکز میں پہلی مرتبہ ہندوتوا فکر کی حکومت قائم ہوئی۔ 96 میں پہلے تیرہ دن کے لیے پھر 98 میں تیرہ مہینے کے لیے اور پھر پانچ سال کے لیے۔ مسجد کی شہادت کے بعد سے عدالت میں کیس چلتا رہا اور 9 نومبر 2019 کو مسلمان تمام شواہد اور ثبوتوں کے باوجود سپریم کورٹ میں کیس ہار گئے۔ اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوروانند نے کہا تھا کہ’’یہ دن میرے لیے 6دسمبر 92 جیسا ہی ہے‘‘
رام مندر تحریک کے اس پورے پروسس میں سنگھ نے ایک نیا تجربہ بھی کیا۔ سنگھ بنیادی طور پر سیاسی تنظیم ہے مذہب سے اسے کچھ واسطہ نہیں لیکن اس نے مذہب کا استعمال کرکے ایک سیاسی ہندو تیار کیا۔ یہ سیاسی ہندو اسے ایک مضبوط ووٹ بینک فراہم کرتا ہے۔ اسی سیاسی ہندو کا مذہبی استحصال رام کے نام پر جاری ہے۔ بھومی پوجن اسی جذباتی استحصال کی تاریخ کا ایک ایپی سوڈ تھا اور نہیں معلوم ایسے کتنے ایپی سوڈ ابھی آنے باقی ہیں۔بی جے پی اپنے اس سیاسی ووٹ بینک کو مستقل اس طرح کے جذباتی ایشوز دے کر زندہ رکھتی ہے اور معلوم نہیں بی جے پی سیاسی ہندوؤں کا استحصال اور کتنی نسلوں تک کرتی رہی گی۔ پہلے اڈوانی اور اٹل نے اس سیاسی استحصال کے ذریعے اپنی دکان چمکائی اب مودی اور یوگی اس کا ستعمال کر رہے ہیں اور نہ جانے مستقبل میں کون کون اس سے فائدے اٹھائے گا۔
اپنا اثر دکھائے گا وہ پیڑیوں تلک
بیچا ہے جو زہر سیاسی دکانوں نے
***

مذہب،قومیت،زبان،کلچر،تہذیبی روایات،ماضی کی عظیم شخصیات ،قدیم تاریخی عمارتیں وغیرہ ان تمام عوامل کا ہمیشہ سے سیاست دانوں نے عوام کا جذباتی استحصال کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور آج بھی کرتے ہیں۔ رام مندر تحریک اس کی ایک کلاسیکی مثال ہے