اے دل!
جاویدہ بیگم ورنگلی
اے دل! بات ہمیشہ تجھ سے شروع ہوتی ہے اور تجھ پر ہی ختم ہوتی ہے۔ تو ہی سب کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ ہر زبان پر تیرا ہی ذکر رہتا ہے۔ اچھائی اور برائی ہر چیز کا ذمہ دار تجھے ہی ٹھیرایا جاتا ہے۔ تجھے اپنی اہمیت کا اندازہ ہے کہ نہیں۔ کیا تو نے بھی یہ سمجھ رکھا ہے کہ جسم کے دوسرے اعضا کی طرح تو بھی محض ایک عضو ہے۔ جس طرح انسان دوسری بہت ساری مخلوقات کی طرح اپنے آپ کو بھی ایک مخلوق سمجھتا ہے جس کو اپنی اہمیت کا کوئی خیال نہیں کہ اللہ نے اپنی ساری مخلوقات میں اس کو سب سے اعلیٰ وارفع مقام دیا ہے۔ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ اس طرح کیا تجھے بھی اپنی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے کہ انسان کی کامیابی کا سارا دار ومدار تیری سلامتی پر ہے۔ اگر تو ٹھیک رہا تو سب کچھ ٹھیک ہے۔ اگر تو ٹھیک نہیں رہا تو اس کی سزا سارے جسم کو بھگتنی پڑتی ہے۔ ائے دل! اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لے کہ پورا جسم تیری پیروی کرتا ہے۔ اگر تجھ میں کسی قسم کی تنگی اور کجی نہ رہی تو اس وقت انسان فلاح پانے والے لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ فرمایا گیا ’’جو دل کی تنگی سے بچالیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں (الحشر:۹) سورہ طلاق میں اسی بات کو اس طرح بتایا گیا ہے ’جو اپنی دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں (طلاق:٦) سورہ تغابن میں فرمایا گیا ہے وہ جو اپنے دل کی تنگی سےمحفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں (تغابن:١٦)
اس لفظ ’’بس‘‘ پر غور کر تو تجھے اپنی اہمیت کا اندازہ اچھی طرح ہو جائے گا۔ ائے دل! اصل چیز تو ہے تو اگر حقیقت پسند بن جاتا ہے کسی چیز کو پکڑ لیتا ہے تو باقی جسم اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتا کہ اس کے لیے وقف ہو جاتا ہے۔ سورہ حج میں اس بات کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے کہ در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں(حج ١٤) اصل اندھا پن دل کا ہوتا ہے جو سچائی کو تسلیم نہیں کرتا۔ سچائی کو تسلیم کرنے کے لیے آنکھوں کی بینائی ضروری نہیں۔ بہت سے نابینا لوگ خدا کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور ایمان لا کر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ جبکہ بہت سے آنکھوں والے اپنی آنکھوں سے خدا کی قدرت اس کی روشن نشانیوں کو دیکھتے ہیں لیکن خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد مبارک ہے ’’سینے کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا (دل) ہے اس کی سلامتی سارے جسم کی سلامتی ہے ’’حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ آپؐ نے مزید فرمایا ’’تقویٰ یہاں ہوتا ہے اور اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا‘‘ (مسلم) ائے دل! تیری اہمیت مسلم ہے۔ تیری اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ سوچنے سمجھنے غور و فکر کرنے والے دماغ کو ہدایت جاری کرنے والا بلکہ بسا اوقات دماغ کے حکم کو نظر انداز کر کے اپنی ہی رائے کے مطابق عمل کرنے والے ائے دل! جب تک تو نہ بدلے انسان پر اس کے ظاہری اعمال کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جبکہ تو اپنے اندر جو خباثتیں چھپائے ہوئے ہوتا ہے تو اس کا انسان پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔ (الشمس ۹۔ ۱۰) اللہ تعالیٰ نے فلاح و کامرانی کی خوشخبری ان لوگوں کو سنائی جو ہر طرح کی غلاظتوں سے تجھے پاک و صاف رکھنے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو نامراد کہا گیا جو تجھے اپنی توجہ کا مرکز نہیں بناتے تجھے پاک صاف رکھنے کا خصوصی اہتمام نہیں کرتے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد مبارک ہے ’’جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے اس طرح انسان کے دل کو زنگ لگ جاتا ہے اور آپ نے فرمایا کہ اللہ کی کثرت سے یاد اور موت کی یاد سے دل کو پاک کیا جا سکتا ہے۔ لوہے کو ہوا اور پانی میں لاپروائی سے رکھ دینے اس کی حفاظت کا خیال نہ کرنے کی وجہ سے زنگ لگ جاتا ہے۔ اس طرح کو دل میں غلط عقائد غلط سوچ غلط افکار سے بچائے رکھنے کا خصوصی اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ انسان کا عمل اس کے سوچ و فکر کا پتہ دیتا ہے کیونکہ جذبات کا ہو یا تدبیر و بصیرت کا انکا محور دل ہی ہوتا ہے۔ خیر و شر کی تمیز ہو یا کسی چیز کے انتخاب کا معاملہ، فیصلہ تو دل ہی کرتا ہے۔ کسی بھی شخص کے معمولات زندگی پر غور کریں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر شخص کی زندگی اس کے سوچ و فکر کے مطابق ڈھلی ہوئی ہوتی ہے۔ انسان کی شخصیت کی تعمیر اس کے سوچ کے مطابق ہوتی ہے۔ جس طرح کوئی بھی پودا بیج کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا اس طرح انسان کا کوئی بھی عمل اس کے پوشیدہ افکار کے بغیر ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ پوشیدہ حقیقت انسان کے خیالات ہیں۔ دین اور دنیا کی کامیابی کی کلیدی دل میں پیدا ہونے والے خیالات وافکار ہیں۔ اس سوچ کے پودے کی آبیاری بڑی احتیاط سے اور خصوصی اہتمام سے کرنی چاہیے۔ دل کی خرابی کی اصلاح بیرونی دباؤ سے نہیں کی جاسکتی کیونکہ جو خیالات و جذبات دل چھپائے ہوتا ہے اس کو دوسرے نہیں جان سکتے ورنہ بظاہر تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی
نظر آتا ہے۔
ائے دل! ہم وہ ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ ہم وہ ہیں کہ جن کے سر پر خلیفہ ارضی کا تاج رکھا گیا اور کائنات کو جس کے لیے مسخر کیا گیا ہے۔ کیا تو بگڑ کر ہم کو ذلیل و خوار کرنا چاہتا ہے؟ امید ہے کہ تو ہرگز ایسا نہیں چاہے گا کہ خدا کی پیدا کی ہوئی سب سے افضل مخلوق ذلیل و خوار ہو۔ لہٰذا تو اپنے خیالات وجذبات کو پاک کر لے عقائد کو درست کر لے۔ اپنے آپ کو سلیم بنا لے۔ جان لے کہ تیرے بارے میں اقبال نے کیا کہا تھا
دل مردہ نہیں ہے اسے زندہ کر
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
اب سمجھ گیا نا اپنی اہمیت اچھی طرح؟ ہم بھی تیرے لیے اللہ تعالی سے دعا گو رہیں گے۔
یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک
اے دلوں کو پھیرنے والے! تو میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21