ایک چراغ تھا نہ رہا

ٹی کے عبداللہ مرحوم: افکار مجتہدانہ‘زندگی مجاہدانہ

ایچ عبدالرقیب،چنئی

تحریک اسلامی کے عظیم رہنما کے فکری سرمایہ کو ملیالم سے دیگر زبانوں میں منتقل کرنے کی ضرورت
گزشتہ سال (اکٹوبر 2021)میں جماعت کی مرکزی شوریٰ کی نشست کے پہلے دن جامعہ ملیہ اسلامیہ شانتا پورم کے ریکٹر ڈاکٹر عبدالسلام وانیم بالم سے معلوم ہوا کہ جناب ٹی کے عبداللہ صاحب اپنی علالت کی وجہ سے شوریٰ کے اجلاس میں شرکت سے قاصر ہیں۔ کینسر کے موذی مرض کی تشخیص ہوئی ہے۔ البتہ انہوں نے بتایا کہ ٹی کے صاحب نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب سے جو اس وقت امریکا کے شہر کیلیفورنیا میں ہیں، ویڈیو کال کے ذریعہ رابطہ کرکے انہیں ڈاکٹر صاحب کے دیدار اور ہوسکے تو مختصر بات کراوں۔ میں نے اسی رات ڈاکٹر صاحب کے فرزند خالد سے مسیج کے ذریعہ رابطہ قائم کیا اور ٹی کے صاحب کی فرمائش اور خواہش کا ذکر کیا۔ برادرم خالد نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی صحت اتنی اچھی نہیں کہ وہ خود اپنے طور پر بات کرسکیں اس لیے کسی کی مدد کرنے ہی سے ان سے رابطہ کی کوشش ہوسکتی ہے اور یہ بات بھی بتائی کہ کیلیفورنیا اور کیرالا کے وقت میں ساڑھے بارہ گھنٹہ سے بھی زیادہ کا فرق ہے میں نے یہ بات عبدالسلام سے کہی۔ موصوف نے ٹی کے صاحب کے فرزند ٹی کے اقبال صاحب سے ربط قائم کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے والد محترم کی صحت گرتی جارہی ہے۔ ہم دونوں پرانے تحریکی دوستوں کے درمیان کم از کم ویڈیو کال کے ذریعہ ایک دوسرے کو دیکھنے اور ہوسکے تو دو چار الفاظ کے تبادلہ کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ 15اکتوبر کو کیرالا سے فون آیا کہ جناب ٹی کے عبداللہ صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون
مرحوم سے میری پہلی شناسائی اس وقت ہوئی جب میں اسٹوڈنٹ اسلامک سرکل (SIC) کا ذمہ دار تھا اور ایس آئی او کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ اس وقت ہمارا کام زیادہ تر اس وقت کے شمالی آرکاٹ کے ضلع کے اطراف و اکناف اورشہر مدراس کے طلبا و نوجوانوں کے درمیان تھا اور ہمارے لیے وانمباڑی کے قریب پر فضا مقام پریلگری پلس پر وقتاً فوقتاً تربیتی کیمپ ہوا کرتے تھے۔ میرے محسن، مربی اور مرشد جمیل احمد صاحب کے خصوصی روابط نہ صرف ملک کے بلکہ دنیا کے قائدین اور میدان عمل میں سرگرم رہنماوں سے تھے۔ انہی کے ذریعہ ٹی کے عبداللہ صاحب کو دعوت دی گئی کہ وہ یلگری کے طلبا و نوجوانوں کے کیمپ میں بحیثیت مربی شریک ہوکر ان کی تربیت کریں۔ ان سے بذریعہ ٹرین جولارپیٹ پر پہنچنے کی درخواست کی۔ موصوف کو رات بھر سفر کرکے صبح سویرے وہاں پہنچنا تھا ہم نے اہتمام کیا کہ ہمارے کچھ نوجوان رفیق ایک ٹیکسی لے کر اسٹیشن جائیں اور موصوف کو لے کر آئیں لیکن ہمارے رفیق واپس آگئے اور کہا کہ مہمان ٹرین سے نہیں آئے ہیں یہ جان کر ہمیں بڑی مایوسی ہوئی۔ چند گھنٹہ کے بعد معلوم ہوا کہ ٹی صاحب بس کے ذریعہ اسٹیشن سے یلگری کے پہاڑی مقام کو پہنچ گئے۔ موصوف اپنے سفید شرٹ اور سفید دھوتی باندھے بس میں کھڑے ہوکر بڑی مشقت کے بعد وہاں پہنچے۔ جو رفیق انہیں اسٹیشن لینے کے لیے گئے تھے وہ سمجھ رہے تھے کہ مہمان خصوصی کوئی شیروانی پہنے اور گھنی داڑھی والی شخصیت ہوں گے۔
ٹی کے صاحب ایک مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے بہت جلد نوجوانوں سے گھل مل گئے اور ان کی تقریر اور گفتگو کا انداز تمام شرکا کو اور خاص طور پر مجھے بہت پسند آیا اور اس زمانہ سے ان کے انتقال تک ایک مربی اور رہنما کی حیثیت سے ان سے قریبی تعلق کا سلسلہ قائم ہوا۔
نوجوانوں کے اس اجتماع کی ایک بات آج بھی مجھے یاد ہے۔ تقریر کے دوران ان کے الفاظ ’ہم فرسان بالنہار، رھسان باللیل‘ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ جنگ یرموک کے موقع پر روم کے سپہ سالانہ نے اپنے ایک جاسوس کو مسلم فوج کی کیفیت جاننے کے لیے بھیجا تھا جنہیں شکست دینے میں رومیوں کو کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ جاسوس نے جاکر ان مختصر الفاظ میں رپورٹ کی کہ مسلمان دن کے شہسوار اوررات کے عبادت گزار ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ نوجوانوں کے سامنے جناب ٹی کے عبداللہ صاحب نے ایک مومن و مسلمان کی سچی تصویر یہ بتائی کہ مسلم نوجوانوں کو دور اول کے مسلم فوجیوں کی طرح زندگی کے میدان میں سرگرم رہنا ہے اور کامیابی کے حصول کے لیے ایک گھوڑا سوار کی طرح دن میں متحرک اور راتوں میں اپنے خالق و پروردگار سے ربط قائم کرکے دعا و مناجات میں مشغول رہنا چاہیے۔
یہ غالباً 1977کی بات ہے۔ تمل ناڈو کے ضلع شمال آرکاٹ اور اطراف و اکناف سے پانچ چھ نوجوانوں نے اسلام قبول کیا۔ یہ واقعہ میناکشی پورم سے بہت پہلے کا ہے جو 1981میں ہوا تھا۔ جماعت کے ذمہ داروں اعجاز اسلم صاحب ، جمیل احمد صاحب، عبدالحفیظ رحمانی صاحب اور نو مسلم پی فضل الرحمن صاحب نے مل بیٹھ کر سوچا کہ عموماً صوبہ میں اس وقت کوئی دائرہ اسلام میں آتا تو روایتی طورپر ان کا کوئی اسلامی نام رکھنا،ختنہ کروانا ،کلمہ اور قرآن کی چندسورتوں کو ازبر کرانا اور نماز پڑھنے کا طریقہ سکھاکر واپس انکے گھروں کو بھیج دیا جاتا ۔ تحریک کے ذمہ داروں کے پیش نظر ان نو مسلم نوجونوں کو ایک نئے انداز سے تربیت دینے اور انہیں مثالی مسلمان بنانے کا منصوبہ تھا اس کے لیے شہر ویلور میں ایک خصوصی اجتماع کا انعقاد ہوا اور اس میں شرکت کے لیے مرکز سے خصوصی طور پر مرحوم سید حامد علی صاحب کو مدعو کیا گیا۔ دیگرذمہ داروں میں مولانا انعام الرحمن (بھوپال)، مولانا ٹی کے عبداللہ صاحب (کیرالا) اور یو پی کے ایک سرگرم دعوتی کارکن صدیق صاحب (باندہ) کے نام یاد ہیں۔ ان دنوں ارکان جماعت کے درمیان الیکشن میں ووٹ دینے اور نہ دینے کا موضوع شدت کے ساتھ زیر بحث تھا۔ اس تاریخی اجتماع میں غیر مسلموں میں دعوت کے مختلف پہلو اور نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور اسلامک سنٹر ویلور کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ اس اجتماع کے ذریعہ شرکاء کے سامنے جماعت کو غیر مسلموں میں کام کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ جناب ٹی کے عبداللہ صاحب کے یہ الفاظ مجھے یاد ہیں کہ جماعت میں کام کرتے ہوئے ایک مدت گزرگئی لیکن اس اجتماع میں اہل ملک کے سامنے اسلام کی دعوت کو پیش کرنے پر جو سیر حاصل گفتگو ہوئی اس سے پہلے انہیں ایسا شرح صدر نہیں ہوا۔ مرحوم انعام الرحمن صاحب کا خیال تھا کہ دعوت دلت اور پسماندہ طبقات کے بجائے ذہین باصلاحیت اور اونچے طبقوں پر مرتکز ہونا چاہیے ۔ بطور مثال موصوف نے حضورؐ کی جانب سے حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کی دعا اور اس کے لیے مساعی کا ذکر کیا اور بتایا کہ عمرؓ کے قبول حق سے دعوت دین کو کھلے عام پیش کرنے کا موقع فراہم ہوا۔
ریاست کیرالا کی تاریخ میں حرا کانفرنس ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1998میں تین روزہ اجتماع کے وسیع پیمانہ پر تعارف کرانے اور تحریک کے پیغام کو عام کرنے کے لیے اجتماع سے پہلے صوبہ کے مختلف شہروں میں تعارفی میٹنگس کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا آغاز کوچین کے ساحل سمندر۔ میرین ڈرائیو سے ہوا اور اس میں شرکت کے لیے جناب صدیق حسن نے مجھے دعوت دی۔ اجتماع گاہ میں جناب ٹی کے عبداللہ صاحب موجود تھے اور موصوف ہی کو اس کا افتتاح کرنا تھا لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ ان کے بجائے مجھے اس کا موقع دیا جائے۔ ہزاروں افراد مرد اور خواتین کی موجودگی میں مجھ سے کہا گیا کہ میں انگریزی زبان میں ریاست کیرالا کی اہمیت اور کیونکر یہ انقلابی سرزمین اسلام کے حیات بخش پیغام کے لیے موزوں ہے اس پس منظر میں حرا کانفرنس کی اہمیت پر روشنی ڈالوں۔
یہ عجیب اتفاق تھا کہ دوسرے دن صوبہ کے مشہور ملیالی روزنامہ ملیالم منورما میں صفحہ اول پر میری رنگین تصویر کے ساتھ میری تقریر کا بیشتر حصہ نمایاں طور پر شائع ہوا۔ اس پرجناب ٹی کے عبداللہ نے مزاحاً کہا کہ تم کب سے مغربی اور سیکولر لابی سے قریب ہوچکے ہوجس کی وجہ سے اس اخبار نے میری تقریر کو اتنا کوَریج دیا ہے۔ دراصل ٹی کے عبداللہ صاحب کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ اپنے بجائے مجھ جیسے شخص کو آگے بڑھایا اور بتایا کہ کیرالا کی سرزمین پر کیسی تقریر کرنی ہے۔ اپنے سے کم عمر اور کم صلاحیت کے افراد کی حوصلہ افزائی کرنا، ان سے کام لینا اور ان کی کامیابی پر نہ صرف خوش ہونا بلکہ سر عام تذکرہ کرنا کوئی ٹی کے صاحب سے سیکھے کسی نے سچ کہا ہے
leaders create leaders, not followers
قائدین دراصل قائدین پیدا کرتے ہیں نہ کہ اندھے مقلدین۔
جناب ٹی کے اور ان جیسے قدآور قائدین نے سر زمین کیرالا میں نوجوان قیادت مرد اور خواتین کی ایک کھیپ تیار کی ہے جس کی مثال پورے ملک میں نظر نہیں آئی۔
یوں تو میں ہمیشہ ٹی کے صاحب کو تحریک کے گنے چنے قائدین میں تصور کرتا تھا جن سے ہمیشہ استفادہ کا متمنی رہا کرتا تھا لیکن2008سے جب ملک میں بلا سودی بینکاری کے لیے انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس (ICIF ) کا قیام ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے زیر سرپرستی عمل میں آیا تو میری دلچسپی کا بڑا حصہ اس کی طرف پھرگیا اور ٹی کے صاحب سے زیادہ استفادہ کا موقع نہیں مل سکا۔ کیرالا میں جناب مرحوم صدیق حسن صاحب کے زیر نگرانی جب بلا سودی نان بنکنگ فینانشیل کمپنی (این بی ایف سی) کے طور پر Alternative Investments and Credit Limited (AICL)کا آعاز کیا تو اس کے بعض مدات میں غالباً ٹی کے عبداللہ صاحب نے اپنی کچھ رقم تجارت میں لگائی اور انکے ایک قریبی دوست نے بھی اس میں حصہ لیا۔ وہ اس کی ناکامی کی وجہ سے احتیاط برتنے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی بات کرتے تھے۔ ریاست کیرالا نے جب شرعی بنیادوں پر ایک NBFCکے قیام کا فیصلہ کیا تو ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا اور اسی کے ساتھ پورے کیرالا کی فضا میں ایک منفی اور اسلام دشمنی کی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس فضا کو سازگار کرنے کے لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ریاست کے ایک قد آور شخصیت اور ممتاز سیکولر آواز کے حامل جسٹس کرشناائیر اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی ملاقات کرائی جائے، مختلف احباب سے ربط اور پریس کانفرنس کے ذریعہ منفی اثرات کو ختم کیا جائے۔ اس موقع پر جناب ٹی کے عبداللہ صاحب جامعہ اسلامیہ شانتا پورم تشریف لائے اور ڈاکٹر نجات اللہ صاحب کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی اور موضوع گفتگو یہ تھا کہ ملک کی صورت حال میں تحریک اسلامی کو کیسے مثبت اور موثر کردار ادا کرنا ہے۔
ایک ملاقات میں جب میں نے کیرالا ہائی کورٹ میں شریعت اور ملک کے سیکولرازم پر بحث کا ذکر کیا اور اس میں آئی سی آئی ایف کی کوششوں کا ذکر سامنے آیا تو ٹی کے صاحب نے کاموں کی ستائش کی اور کہا کہ یہ ادارہ دراصل حضرت یوسفؑ نے مصر میں جو کام کیا تھا اسی نوعیت کا ہے جنہوں نے حکمرانوں کے سامنے اجعلني على خزائن الأرض کا مطالبہ سامنے رکھا تھا۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور حضرت یوسفؑ کو جیسی کامیابی حاصل ہوئی تھی اس ادارہ کو بھی حاصل ہو۔
ریاست کیرالا پورے ملک میں اپنی سرگرمیوں اور مختلف محاذوں میں کام کرنے اور نئی راہیں نکالنے میں ممتاز حیثیت رکھتاہے۔ اس میں جہاں کیرالا کے فعال قائدین اور ارکان و متوسلین جماعت کا والہانہ طور پر مفوضہ کاموں کو انجام دینے کا رول ہے تو وہیں وہاں کے علما کرام نے قرآن وسنت کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرکے بدلتے ہوئے حالات میں ان فیصلوں کے اجاگر کرکے نئی راہیں سجھانے کا کام کیا ہے اور اسی فکری محاذ میں ٹی کے صاحب کی رہنمائی خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ مثال کے طور پر الیکشن میں حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا تو کیڈر کو سمجھانے میں بڑی دقت پیش آئی۔ نہ صرف اندرون جماعت بلکہ باہر کے حلقوں میں حاکمیت الٰہ کے پس منظر میں جماعت کے فیصلہ میں تبدیلی پر منفی انداز کا پروپیگنڈا شروع ہوا تو اس وقت ٹی کے عبداللہ صاحب نے ایس آئی او کے ملیالم ترجمانYovasarani میں ایک تفصیلی مضمون لکھا کہ حاکمیت کو سمجھنے کے بعد ووٹ دینا توحید خالص کے خلاف نہیں اس ضمن میں انہوں نے ایک مثال کے ذریعہ حدیث رسول کے حوالہ سے بات رکھی۔ آنحضورؐ نے ابتدائی دور میں قبروں کی زیارت سے مسلمانوں کو منع کیا لیکن عقیدہ توحید کو اہل ایمان اچھی طرح سمجھ گئے تو قبروں کی زیارت کو جائزہ قرار دیا۔ اسی طرح جب استعماری قوتوں نے عوامی اور قدرتی وسائل کے استحصال کا رخ کیا اور پانی کے ذخائر، جنگلات اور آدی باسی زمینوں پر قبضہ کرکے ان قدرتی وسائل پر قبضہ کا منصوبہ بنایا تو ٹی کے عبداللہ صاحب نے مرکزی شوریٰ میں ایک فکر انگیز تقریر فرمائی کہ ہمیں نہ صرف اللہ کی حاکمیت پر زور دینا ہے بلکہ اللہ کی مالکیت اور تمام انسانوں کے قدرتی وسائل میں حصہ داری کو اجاگر کرنا ہے۔ گویا ملک میں جو جل، جنگل اور زمین کی کشمکش اور لڑائی چل رہی ہے اس طرف تحریک کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
ملک کے مخصوص حالات میں کیا جماعت کو مسلم ایشوز پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرنا ہے یا پھر نظریاتی بنیادوں پر اسلام کی دعوت اور اقامت کی طرف ہی اپنا فرض منصبی ادا کرنا ہے؟ اس پر گفتگو کرتے ہوئے موصوف نے موجودہ دور میں جماعت کو مسلمانوں کے درمیان کام کرنے کی ضرورت پر دلیل دی کہ حضرت موسیٰؑ نے فرعون کے دور میں اپنی ملت، بنی اسرائیل کی رہنمائی کی تھی اور بتایا کہ آج کے بھارت میں ہمیں اسی کو پیش نظر رکھ کر اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہے ۔ اس موضوع پر آپ کی ایک تحریر ’’موسیٰؑ کا زمانہ اور مسلم ملت کے مسائل‘‘ کے عنوان پر زندگی نو نومبر 2021میں شائع ہوا جسے کیرالا کے ممتاز کارکن برادرم پی پی عبدالرحمن نے ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند نے فسطائی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کے موجودہ حالات میں ملکی سطح پر Forum for Democracy & Communal Amity (FDCA)
کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تو ڈیمو کریسی کی حمایت پر بعض حلقوں میں مخالفت ہوئی اور جگہ جگہ اس پر اختلافات ابھرنے لگے۔ کیرالا کی جماعت میں وہاں کے علما و قائدین اور خاص طور پر ٹی کے صاحب نے سورۃ الروم کی ابتدائی آیات کا حوالہ دیا اور بتایا کہ جب اہل روم جو اہل کتاب تھے اور ایرانی جو آتش پرست تھے ان کے درمیان جنگ ہوئی تو رومیوں کی حمایت اور بعد میں ان کی فتح پر خوشی اور شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے فسطائی قوتوں کے خلاف جمہوری طاقتوں کے محاذ کے قیام اور اس کی کامیابی کا موازنہ کیا گیا۔ اس طرح قرآن سے دلیل لاتے ہوئے ٹی کے صاحب نے کیڈر کو مطمئن کیا ۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کیرالا میں جسٹس کرشنا ائیرکی قیادت میں ایف ڈی سی اے ایک مضبوط محاذ کی حیثیت سے ابھرا اور کرشنا ائیر جیسی بائیں بازو کی قدر آور شخصیت نے بھی جماعت اسلامی کو اس محاذ کے قیام کے لیے مبارکباد دی اور وہ خود آگے بڑھ کر فرقہ پرستوں کے خلاف میدان میں اتر پڑے۔
جناب ٹی کے عبداللہ صاحب مرکزی شوریٰ کے معزز رکن کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ تک رہے اور غالباً وہ ملک کی واحد شخصیت تھے جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی لیکن اپنے مافی الضمیر کو اردو زبان میں اپنے مخصوص انداز میں موثر اور مدلل انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ قرآن و سنّت کا گہرا اور براہ راست علم، جدید دنیا اور ملک کو سمجھنے، حالات پر نظر رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی رائے کو پوری قوت کے ساتھ رکھتے تھے جو بسا اوقات تحریک اور اس کے کاموں پر بھرپور تنقید ہوتی تھی لیکن ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اختلاف رائے رکھنے والوں سے بھی خندہ پیشانی سے ملتے اور ان کے دلائل بھی سننے اور سمجھنے میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔
میں اس موقع پر اس عظیم مفکر اور قائد کی دو شوریٰ کی نشستوں کا ذکر خصوصی طور پر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مرکز شوریٰ کی ایک نشست جو 3نومبر 2014کو ہوئی تھی جس میں انہوں نے جماعت اسلامی ہند کے ابتدائی دور میں آزاد ہندوستان کی صورتحال اور اس وقت کے پس منظر کا تفصیلی جائزہ لیا تھا اور اپنی باتوں کو پورے شرح صدر کے ساتھ پیش کیا تھا۔ دوسرا ان کا تفصیلی مقالہ جو انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا (غالباً میرے خیال میں ان کا اردو میں منفرد تحریری مقالہ ہے) گوا میں منعقدہ مرکزی شوریٰ کی خصوصی نشست میں سنایا۔
ان دونوں (ایک تقریر کا خلاصہ اور دوسرا تحریری مقالہ) کو جماعت کے شوریٰ کے ارکان تک محدود کرنے کے بجائے کم از کم نمائندگان اور ایس آئی او کی لیڈر شپ کے درمیان موضوع بحث اور تبادلہ خیالات کاذریعہ بنانا چاہیے۔
دنیا کی اور خود ملک کی تحریکیں اپنے متفرق خیالات اور رجحانات مرتب کرکے کتابی شکل میں شائع کرتی ہیں۔کمیونسٹ پارٹی بھارت میں کئی حصوں میں تقسیم ہوئی لیکن اس تقسیم کی بنیادیں کیا ہیں اور آگے کیسے بڑھیں اس کا پورا تذکرہ تحریری شکل میں موجود ہے۔
2014کی تقریر میں انہوں نے آزاد بھارت کی اولین شوریٰ 1950کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت یہ بات زیر بحث آئی تھی کہ کیا جماعت آزاد بھارت میں بھی اسی انداز میں بات رکھے گی جیسا کہ تقسیم سے پہلے یا اپنا انداز بدل کر دوسرے انداز میں؟ یہ سوال بھی اٹھا تھا کہ جو تحریکی لٹریچر موجود تھا وہ خالص مسلمانوں کو پیش نظر رکھ کر تحریر کیا تھا وہ بھی تعلیم یافتہ مسلمان کے لیے، اس میں نہ ہندو سماج اور نہ غیر مسلم ماحول کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اس پر غور وخوض اور نئے لٹریچر کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی مولانا سید حامد علی صاحب کی نگرانی میں بنائی گئی۔ اس کے علاوہ ایک نئی تفسیر قرآن کی ضرورت کو بھی محسوس کیا گیا۔ اور مولانا صدر الدین اصلاحی سے کہا گیا کہ وہ موجودہ آزاد بھارت کے تناظر میں ایک نئی تفسیر لکھیں لیکن غالباً یہ تفسیر صرف سورۃ البقرہ ہی کی لکھی گئی۔ اس کا تذکرہ وتجزیہ’’ تحریک اسلامی ہند کی علمی اور فکری کاوشیں‘‘ (مطبوعہ CSR۔ سنٹر فار اسٹڈی اور ریسرچ زیر نگرانی سید سعادت اللہ حسینی اور مرتب ڈاکٹر فہیم الدین احمد) کے مجلہ میں جناب شکیل احمد انور (حیدرآباد ) کے مقالہ ’’تزکیہ و تربیت کے شعبہ میں مساعی ۔ موثر نتائج کے لیے درکار وسائل، ذرائع اور مناہج میں تبدیلی کی ضرورت‘‘ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اس تقریر میں ٹی کے صاحب نے رائے ظاہر کی کہ دستور جماعت میں فرد کی ارتقا اور سماج کی تعمیر کی بات تو کہی جاسکتی ہے البتہ ریاست کی تشکیل کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مذہبی ریاست کا قیام دستور ہند کے منافی ہے۔
اسی طرح مولانا مودودیؒ کی بعض کتابوں اور تحریروں پر بھی آپ نے تبصرہ کیا اور مرتد کی سزا اسلام میں جیسے کتابچوں پر نئے سرے سے سوچنے پر زور دیا اور اسی طرح اسلامی حکومت میں غیر مسلم شہریوں کو ذمی نہیں ہم وطن کہا جائے، اس کے لیے موصوف نے عالم اسلام کے مفکر فہمی ہویدی کا حوالہ دیاجو کہتے ہیں متواطون لاذمیون
2016کے طویل مقالہ میں جو گوا کے خصوصی شوریٰ کی نشست میں پڑھا گیا ٹی کے صاحب نے جماعت اسلامی ہند کے تصور دین، تجدیدی کارنامہ، حکومت الٰہیہ، دستور اور جماعت سازی پر تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے دو اہم باتیں کہیں ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام اورمسلمانوں کے اہم مفادات کے پیش نظر، اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود جمہوریت نسبتاً بہتر نظام مانا جاتا ہے اس لیے کہ اس میں ملک کے اقتدار میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ جماعت کے موجودہ دستور کے بجائے ایک ایسا دستور چاہتے تھے جو موجودہ ماحول میں ہمارے لیے مشعل راہ بن سکے۔
ٹی کے صاحب اس بات کے بھی قائل تھے کہ ہماری پوری تنظیم شرعی نہیں بلکہ تجدیدی کام کا حصہ ہے۔ اس سلسلہ میں موصوف نے جماعت کے زکوٰۃ کے عمل اور دوسرے اداروں اور فورمس میں شمولیت اور اپنے کردار کے تعلق سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے مثال کے طور پر زکوٰۃ اور نماز میں فرق کرنے کے عنوان پر لکھا۔ نماز کی اقامت امت کے ساتھ لیکن زکوۃ کی ادائیگی جماعت کے اپنے
بیت المال میں؟ اس دوہرے معیار میں اصلاح اور ترمیم کی ضرورت ہے۔
اسی طرح ٹی کے صاحب خواتین اور خاص طور پر مسلم خواتین کی حالت زار اور مسلم سوسائٹی میں بھی ان کے جائز حقوق کی طرف مسلسل متوجہ کراتے رہے نیز اس مقالہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے تعلق سے شکایت کی ہے کہ ان کا خیال ہے جماعت نے خواتین کی مظلومیت اور مسلم عورت کی صحیح ترجمانی اور شرعی نقطہ نظر کو بورڈ میں مضبوط انداز سے پیش نہیں کیا اور ایک مخصوص فقہی مسلک کی حمایت کی اس کے لیے انہوں نے ’حقوق الزوجین‘ کا حوالہ بھی دیا۔
واقعہ یہ ہےکہ ٹی عبداللہ مرحوم تحریک اسلامی کے ایک منفرد قائد تھے جنہوں نے اپنے مطالعہ ، مشاہدہ اور مجاہدہ کی بنیاد پر مدلل، موثر اور مفید مضامین لکھے جو تمام تر ملیالم میں ہیں۔ اسی طرح کیرالا کے بعض عظیم رہنما، علما اور ممتاز دانشور مثلاً محترم کے سی عبداللہ مولوی، ٹی محمد صاحب، کے ٹی عبدالرحمن صاحب، وی کے علی صاحب، ٹی کے عبید صاحب وغیرہ کی تصنیفات سے تحریک کا بڑا طبقہ محروم ہی نہیں ناواقف بھی ہے۔ نہ صرف ملیالم میں بلکہ تامل، بنگالی وغیرہ میں جو نگارشات ہیں جو اردو حلقوں سے باہر لکھی، پڑھی اور پھیلائی جارہی ہیں ان سب کو اردو اور ہندی میں ترجمہ کرکے پورے ملک کی سطح پر روشناس کراناچاہیے۔ سب سے پہلے مرحوم ٹی کے عبداللہ صاحب کی تحریروں اور تقاریر کا ترجمہ کیا جائے جس سے فکر و نظر میں تبدیلی آسکتی ہے، جمود کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور نئے اور بدلے ہوئے بھارت میں کام کرنے کے لیے نئی روشنی مل سکتی ہے اور نئی راہیں سجھائی جاسکتی ہیں۔اللہ کرے کہ ایسا ہو۔

 

***

 جناب ٹی کے عبداللہ صاحب مرکزی شوریٰ کے معزز رکن کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ تک رہے اور غالباً وہ ملک کی واحد شخصیت تھے جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی لیکن اپنے مافی الضمیر کو اردو زبان میں اپنے مخصوص انداز میں موثر اور مدلل انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ قرآن و سنّت کا گہرا اور براہ راست علم، جدید دنیا اور ملک کو سمجھنے، حالات پر نظر رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی رائے کو پوری قوت کے ساتھ رکھتے تھے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 جنوری تا 22 جنوری 2022