ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے پولیس سے کشمیری صحافیوں کو ’’ہراساں‘‘ کرنے کا عمل روکنے کا مطالبہ کیا
نئی دہلی، اپریل 22: منگل کے روز ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے جموں و کشمیر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے سرینگر میں مقیم دو صحافیوں- آزادانہ فوٹوگرافر مسرت زہرا اور دی ہندو رپورٹر پیرزادہ عاشق پر کارروائیوں پر ’’صدمے اور تشویش‘‘ کا اظہار کیا۔ گلڈ نے مطالبہ کیا کہ پولیس صحافیوں کو کسی بھی طرح ہراساں کرنا بند کرے۔
گلڈ نے کہا ’’اگرچہ پیرزادہ عاشق کی طرف سے دائر کردہ ایک رپورٹ کے سلسلے میں صرف ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے، لیکن مرکزی حکومت کے حکام نے مسرت زہرا کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ کا غیر قانونی استعمال کیا ہے۔‘‘ مرکزی دھارے میں شامل یا سوشل میڈیا میں محض کچھ شائع کرنے کے لیے اس طرح کے قوانین سے رجوع کرنا طاقت کا سراسر غلط استعمال ہے۔ اس کا واحد مقصد صحافیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ نے پولیس پر یہ الزام لگایا کہ وہ صحافیوں کے خلاف ’’حقائق کی تصویروں کے محض سوشل میڈیا پوسٹ‘‘ کی وجہ سے ہی دہشت گردوں کے لیے بنائے گئے سخت ترین قوانین کا استعمال کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندو میں عاشق کے مضمون سے نمٹنے کے لیے صحیح نقطۂ نظر اخباری ایڈیٹر سے رابطہ کرنا ہوتا۔
بیان میں کہا گیا ہے ’’گلڈ کا مطالبہ ہے کہ جموں و کشمیر کی مرکزی علاقائی انتظامیہ ان الزامات کو فوری طور پر واپس لے۔‘‘
18 اپریل کو پولیس نے زہرا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے بچاؤ ایکٹ کے تحت مبینہ طور پر ایسی پوسٹیں اپ لوڈ کرنے کا الزام عائد کیا تھا جو سوشل میڈیا پر ’’ملک مخالف سرگرمیوں‘‘ کی ستائش کرتی ہیں۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ زہرا نے ایسی تصاویر اپلوڈ کیں جو ’’عوام کو امن و امان خراب کرنے کے لیے اکساتی ہیں۔‘‘
دوسری طرف عاشق کو بارہمولہ میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کے اہل خانہ کے دعوؤں کے بارے میں رپورٹنگ کے لیے پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا تھا، جس نے بتایا تھا کہ انھیں لاشوں کو جمع کرنے کے لیے سفر کرنے کی اجازت دی گئی تھی، حالانکہ بعد میں اجازت نامے کو واپس لے لیا گیا تھا۔
ترمیم شدہ یو اے پی اے قانون حکومت کو افراد کو دہشت گرد قرار دینے کی اجازت دیتی ہے اور قومی تفتیشی ایجنسی کے مزید افسران کو معاملات کی تحقیقات کا اختیار دیتی ہے۔ ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد ہونے والے شخص کو سات سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔
سائبر پولیس اسٹیشن کشمیر زون نے منگل کو صحافی اور مصنف گوہر گیلانی کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے ’’غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے‘‘ کے الزام میں مقدمہ درج کیا جو ’’ہندوستان کی قومی سالمیت، خودمختاری اور سلامتی کے خلاف ہے۔‘‘ پولیس نے الزام لگایا کہ گیلانی اپنی پوسٹوں کے ذریعہ وادی کشمیر میں دہشت گردی کی ستائش کررہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صحافیوں کو ’’دھمکی‘‘ دینا ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی نگراں تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ’’دھمکیاں‘‘ دینا بند کریں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اوناش کمار نے کہا ’’کشمیر میں صحافیوں کے خلاف دو نئی ایف آئی آر، جو پولیس کے ذریعے ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرتی ہیں، حکام کے اظہار رائے کے حق پر قابو پانے کی کوششوں کا اشارہ دیتے ہیں۔ یو اے پی اے جیسے مکروہ قوانین کے ذریعہ صحافیوں کو ہراساں کرنا اور دھمکانا کوویڈ 19 سے نمٹنے کی کوششوں کے لیے خطرہ بنتا ہے اور خوف اور انتقام کا ماحول پیدا کرتا ہے۔‘‘
کمار نے مزید کہا کہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن، ریاست میں انٹرنیٹ کی رفتار پر طویل پابندی اور من مانی نظربندی سے صحافتی آزادی کی پریشانی اور بڑھ گئی ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ان اقدامات سے جموں و کشمیر کے عوام کے انسانی حقوق کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ کمار نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کے حق پر کوئی پابندی ’’معقول اور مناسب‘‘ وجہ سے ہی ہونی چاہیے۔
کمار نے کہا ’’میڈیا انسانی حقوق کی پامالیوں کی اطلاع دہندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور اسے عوام کو حقیقت کی صورت حال اور کوویڈ 19 کے جواب میں حکومتوں کے اقدامات سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ پھر بھی بار بار یو اے پی اے کو ان صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو نشانہ بنانے کے لیے زیادتی سے استعمال کیا جاتا ہے، جو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔‘‘