این پی آر مردم شماری کے نام پر این آر سی کا خفیہ پروگرام
شہریت کے ساتھ ہماری انسانی حیثیت بھی باقی نہیں رہے گی
افروز عالم ساحل
ملک بھر میں نیشنل پاپولیشن رجسٹر یعنی این پی آر پر عمل یکم اپریل سے شروع ہو رہا ہے جو 30 ستمبر 2020 تک جاری رہے گا۔ ’الائنس اگینسٹ سی اے اے، این آر سی اینڈ این پی آر‘ نے این پی آر کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور ملک کے ہر شہری سے اپیل ہے کہ وہ اس کا ہر حال میں بائیکاٹ کریں۔ قارئین ہفت روزہ دعوت کی خدمت میں پیش ہے الائنس کے کو کنوینر جناب مجتبٰی فاروق سے لیے گئے انٹرویو سے چند اقتباسات۔
این پی آر تو مردم شماری کا ہی حصہ ہے، پھر اس کا
بائیکاٹ کیوں؟
یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ حکومت اسے ایک بتا کر ملک کے عوام کو الجھن میں ڈال رہی ہے۔ اگرچہ مردم شماری کرنے والے محکمے کے ذریعے این پی آر پر بھی عمل درآمد کیا جا رہا ہے لیکن اس کی قانونی بنیاد اور مقاصد بالکل مختلف ہیں۔ حکومت ہند نے 31 جولائی 2019 کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 2020 میں NPR شہریت ضوابط 2003 کے مطابق کیا جائے گا۔ یہ وہی ضوابط ہیں جن کے تحت این آر سی عمل میں لایا جائے گا۔ این پی آر ملک کے آئین کی دفعہ (14) سے کھلے طور پر متصادم ہے۔ این آر سی کی تیار ی کے لیے این پی آر کا عمل، ڈیٹا جمع کرنے کا پہلا مرحلہ ہے۔ جیسا کہ شہریت قانون 1955 اور شہریت ضوابط 2003 سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ عمل واضح طور پر تفرقے پر مبنی، امتیازی اور غیر دستوری ہے جس میں ایک مخصوص طبقے کو مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
این آر سی کو این پی آر کے ذریعے کیسے تیار کیا جائے گا؟
شہریت ضوابط کی شق 3 (4) کے مطابق ہندوستانی شہریوں کے قومی رجسٹر کو پہلے مقامی سطح پر مقامی رجسٹرار تیار کریں گے۔ اس کے لیے آبادی کا اندراج کرنے کے لیے سرکاری افسران ہر علاقے میں گھر گھر جاکر معلومات جمع کریں گے۔ پھر مقامی رجسٹرار، مقامی آبادی کے اندراج میں ہر فرد اور خاندان کی معلومات کی جانچ کرے گا اور مشکوک شہریوں کی درجہ بندی کرے گا، جن سے ان کی شہریت کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
مقامی رجسٹرار لوگوں کو کن بنیادوں پر مشکوک شہری کے طور پر نشان زد کریں گے، ضوابط میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ضوابط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقامی رجسٹرار کو ایک یا ایک سے زیادہ افراد کے ذریعے اس عمل میں مدد فراہم کی جا سکتی ہے، لیکن قواعد میں ان افراد کے انتخاب کے لیے کسی اہلیت یا معیار کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ این پی آر دراصل این آرسی کا چور دروازہ ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ این آر سی پر سرِدست عمل نہیں کیا جائے گا لیکن موجودہ این پی آر در اصل مردم شماری کے نام پر این آرسی ہی کا خفیہ پروگرام ہے۔ این آر سی کے بیشتر سوالات این پی آر میں شامل کر لیے گئے ہیں چنانچہ اس کی مخالفت اور بائیکاٹ بہت ضروری ہے۔
تو پھر کیا آپ کی الائنس مردم شماری کی بھی مخالفت
کرے گی؟
حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ مردم شماری کو این پی آر سے علاحدہ کیا جائے۔ اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو ہم مردم شماری کا استقبال کریں گے، اس کے لیے حکام کی ہر طرح سے مدد اور تعاون کریں گے۔ لیکن اگر حکومت مردم شماری کو این پی آر سے الگ نہیں کرتی تو پھر اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا، کیونکہ این پی آر میں قانونی اور دستوری کم زوریاں ہیں، بہت سے اندیشے اور خدشات ہیں۔ کروڑوں لوگ ان دونوں میں فرق نہیں کر پائیں گے اس لیے ہم اس کا ہر حال میں بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہیں۔
پھر آپ بائیکاٹ کے لیے کیا کریں گے؟
’الائنس اگینسٹ سی اے اے، این آر سی اینڈ این پی آر‘ بائیکاٹ کے لیے پورے ملک میں مہم چلائے گی۔ لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے مواد تیار کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذرائع کا بھی استعمال کیا جائے گا۔ ہم ملک کے ہر صوبے ہر شہر اور گاوں کی محلہ کمیٹی تک جائیں گے اور وہاں لوگوں کو ورکشاپ اور اورینٹیشن پروگرام کے ذریعہ لوگوں کو آمادہ کریں گے کہ وہ اس کا ہر حال میں بائیکاٹ کریں۔
بائیکاٹ کرنے کا مناسب طریقہ؟
سب سے پہلے ہم تمام ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر این پی آر کے عمل کو معطل کر دیں۔ لیکن جہاں ریاستی حکومتوں نے ایسا نہیں کیا ہے وہاں لوگ اجتماعی طور پر اس کا بائیکاٹ کریں۔ یعنی یہ بائیکاٹ مل جل کر منظم طریقہ سے ہونا چاہیے۔ کوشش یہ ہو کہ ہر محلے اور گاوں میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ لوگوں کے گھر پر کوئی سرکاری افسر آتا ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ کمیٹی وہاں موجود رہے اور پوری عزت اور شائستگی کے ساتھ اپنے بائیکاٹ کی بات رکھ دے اور ان سے تعاون کرنے سے انکار کر دے۔ اگر کمیٹی موجود نہیں ہے تو اس شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمیٹی کو اس کی اطلاع دے۔ اس کے علاوہ وہ خود بھی مہذب طریقے سے انھیں کسی طرح کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔ اور ہاں! ہر شخص اپنے گھر کی خواتین کو اس بائیکاٹ کے بارے میں تفصیلی جانکاری ضرور دے، کیونکہ ہر وقت گھروں میں زیادہ تر خواتین ہی رہتی ہیں۔ اور این پی آر اہل کار کسی بھی وقت گھروں پر پہنچ سکتے ہیں۔ چنانچہ خواتین کو ہی اس معاملے سے نمٹنا پڑے گا۔ لہذا اس بات کو خوب پختہ کرلیں کہ کچھ بھی ہوجائے اتفاق و اتحاد سے کام لیں گے۔ جس طرح مرد آپس میں مل جل کر کام کر رہے ہیں اسی طرح عورتیں بھی اپنی باہمی کمیٹی یا گروپ وغیرہ بنالیں اور عورتوں میں کام کریں۔ خاص طور پر ایسے افراد کو متوجہ کرائیں جو ہر وقت محلے ہی میں رہتے ہوں۔خاص نظر رکھیں کہ محلے میں کون اور کس طرح کے افراد گھوم رہے ہیں۔ ممکن ہے اہل کار حضرات ڈرائیں کہ آپ کا نام راشن کارڈ سے کاٹ دیا جائے گا گیس کنکشن ختم کردیا جائے گا ووٹر آئی ڈی کینسل ہوجائے گی اور شاید جھوٹ موٹ یہ بھی کہیں کہ محلے کے تمام گھروں نے معلومات فراہم کردی ہیں، بس ایک آپ رہ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر کسی طرح ان کی باتوں سے نہ گھبرائیں نہ اعتبار کریں۔
این پی آر کا یہ بائیکاٹ کیا قانون کی پامالی نہیں مانی جائے گی؟ اگر پامالی ہے تو زیادہ سے زیادہ سزا کیا ہوگی؟
شہریت ایکٹ 2003 کی شق 17 کے مطابق کسی فرد کے ذریعے ان قواعد کی دفعہ 6 کی خلاف ورزی کرنے والے فرد کو ایک ہزار روپے جرمانہ یا تین مہینے کی جیل ہوسکتی ہے۔ اب لوگوں کو یہ دیکھنا ہے کہ مستقبل میں مستقل طور پر ڈٹینشن کیمپ میں جانا ہے یا آج ہی یہ سزا کاٹ لینی ہے۔ لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ اس کا اجتماعی بائیکاٹ ہو، اور اس بائیکاٹ میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوں۔
جس طرح ملک میں سی اے اے کی مخالفت اور حمایت میں ریلیاں نکلیں اور اس کے نتیجے میں دلی میں فساد ہوا، تو کیا این پی آر کے بائیکاٹ سے سماج میں مزید ٹکراؤ نہیں بڑھے گا؟
ہم اپنی طرف سے ٹکراؤ کی پالیسی نہیں اپنا رہے ہیں اور نہ ایسا چاہتے ہیں۔ ہماری ساری کوشش پُر امن طریقے سے آئین کے دائرے میں رہ کر ہوگی۔ اگر مخالف گروپ اس کو پرُ تشدد بناتا ہے جیسا کہ دلی میں کیا گیا اور پولیس نے ان کا ہر طرح سے ساتھ دیا جسے پوری دنیا نے دیکھا تو چونکہ مستقبل میں بڑا نقصان ہونے کا خدشہ ہے جس میں ہماری شہریت کے ساتھ انسانی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی تو اس بڑے نقصان کے مقابلے میں یہ بہت کم ہے۔ چنانچہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے یہ چھوٹی قربانی دینی ہوگی اور اس کے لیے لوگ تیار ہیں۔ دلی میں سی اے اے مخالف مظاہرے بدستور جاری ہیں۔ لوگ اب مایوس اور خوف زدہ نہیں ہیں اور اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کیا ہے ’الائنس اگینسٹ سی اےاے، این آر سی اینڈ
این پی آر‘ ؟
سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف منظم ملک گیر تحریک چلانے کے لیے ملی اور سول سوسائٹی تنظیموں نیز دیگر سرکردہ شخصیات نے ’الائنس اگینسٹ سی اےاے اینڈ این آر سی‘ کے نام سے ایک نیا قومی اتحاد تشکیل دیا ہے۔ اس الائنس کا مقصد شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں ملک بھر میں پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لینا، نیز اس مسئلے کو آگے بڑھانے اور ان کے درمیان ربط اور تال میل کو بنائے رکھنے جیسے امور پر غور و فکر اور عملی اقدام کرنا ہے۔ اس الائنس کا قیام 19 دسمبر 2019 کو عمل میں آیا۔ اس کی پہلی میٹنگ دلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں منعقد کی گئی تھی۔ اس مٹینگ میں تقریباً 100 تنظیموں کی اہم شخصیات نے شرکت کی تھی جن میں مسلمان اور غیر مسلم سبھی شامل تھے۔
****